Express News:
2025-06-11@19:37:40 GMT

سچائی کا جزیرہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

کراچی پریس کلب ملک کا واحد جمہوری ادارہ ہے جو ہمیشہ مظلوموں اور منحرفین کی آواز بنا۔کراچی پریس کلب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1959میں اپنے قیام کے بعد سے یہاں ہر سال باقاعدہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ پریس کلب نے صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے، آزادئ صحافت کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں اور ملک میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تمام تحریکوں کی میزبانی کی ہے۔

سینئر صحافی اشرف شاد کی زیرِ ادارت کتاب ’’کراچی پریس کلب The Island of Truth‘‘ صحافت کے متعلق لٹریچر میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اشرف شاد کا شمار ملک کے سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اشرف شاد نوجوانی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، پھر صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔ اشرف شاد صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹسPFUJ کے فعال کارکنوں میں شامل ہوگئے۔

جوانی میں ملازمت سے برطرفی اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اشرف شاد ایک طرف ٹریڈ یونینسٹ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے تو دوسری طرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں پہلے ان کے لیے روزگارکے دروازے بند ہوئے اور پھر ان کی تلاش شروع ہوگئی تو اشرف شاد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ امریکا، متحدہ عرب امارات میں رہے اور آج کل آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اشرف شاد کو بظاہر ملک سے گئے 40 برس کا عرصہ گزرگیا مگر وہ آج بھی کسی نہ کسی طرح پاکستانی صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔

اشرف شاد نے کئی شہرۂ آفاق ناول تحریرکیے ہیں مگر گزشتہ سال ان کی یاد داشتوں پر مشتمل ایک کتاب شایع ہوئی۔ یہ کتاب دراصل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تاریخ ہے۔ اگرچہ اشرف شاد طویل بیماری سے گزرچکے ہیں مگر ان کی ہمت مثالی ہے۔ اشرف شاد نے ’’ انڈر گراؤنڈ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں ان کے علاوہ کئی اور معروف صحافیوں کے کمیونسٹ سیاست کے بارے میں تجربات شامل ہیں، مگرگزشتہ سال جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے کراچی پریس کلب کے بارے میں سینئر اور جونیئر صحافیوں سے یاد داشتیں لکھوانے کا کام شروع کردیا۔

اشرف شاد نے آسٹریلیا میں بیٹھ کر بہت سے صحافیوں سے رابطے کیے اور انھیں کراچی پریس کلب کے بارے میں تاثرات قلم بند کرنے کی دعوت دی، یوں وہ 10 کے قریب سینئر اور جونیئر صحافیوں سے کراچی پریس کلب کے بارے میں تاثرات تحریرکرانے میں کامیاب ہوئے، یہ کتاب 190 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صحافیوں کی تحریروں کے علاوہ 1959 سے 2014 تک منتخب ہونے والے صدور اور سیکریٹریوں کی فہرست کے علاوہ اہم دستاویزات کا علمی اور قیمتی تصاویر بھی شامل ہیں۔ جن صحافیوں کی تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں ان میں حسین احمد، اشرف شاد، عبدالحبیب غوری، مجاہد بریلوی، شہناز احد، مظہر عباس، فاضل جمیلی، فیصل سیانی اور راقم شامل ہیں۔

اس کتاب میں دنیا بھر کے کئی اور پریس کلبوں کے تعارف بھی شامل ہے۔ اشرف شاد نے کتاب کا انتساب ’’پریس کلب کی دیوار گریہ ‘‘کے نام سے منسوب کیا ہے۔ کتاب کے آغاز پر لکھ دیا گیا ہے کہ کتاب کی فروخت سے جو آمدنی ہوگی وہ صحافیوں کی بہبود کے کسی ادارے کو عطیہ کی جائے گی۔ اشرف شاد نے کتاب کا پیش لفظ ’’ایک ادارہ ایک تاریخ‘‘ کے عنوان سے یوں شروع کیا ہے۔ ’’ کراچی پریس کلب کی یادوں کا ایک ابال تھا جو بے چین کیے رکھتا تھا، ایک زمانہ وہاں گزارہ تھا۔ پریس کلب اس وقت دوسرا نہیں پہلا گھر تھا۔ کارڈ روم جو ادارہ کے اندر ایک ادارہ تھا وہاں دنیائے صحافت کے قیمتی ہیرے اپنی چمک دکھاتے رہتے تھے۔ ‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ اس کتاب کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پریس کلب کی کہانی میں ایک تسلسل ہے۔ مختلف زمانوں کی ڈور جڑتی چلی گئی ۔

مصنف کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ کتاب علمی اور تحقیقی کام نہیں ہے بلکہ ان دوستوں نے جو پریس کلب میں سرگرم رہے اپنی اپنی یاد داشتیں لکھی ہیں۔ کراچی پریس کلب پر ایک اچھے تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ کتاب کا آغازکراچی پریس کلب کے سب سے سینئر ترین رکن حسین احمد سے گفتگو سے ہوتا ہے۔

طویل عرصے تک بے روزگار رہنے والے صحافی امین راجپوت مرحوم نے یہ انٹرویو لیا تھا۔ امین راجپوت اس کتاب کی اشاعت سے بہت پہلے انتقال کرگئے تھے۔ حسین احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کراچی پریس کلب کے قیام کا سہرا اقبال حسین برنی کے سر ہے ۔ مسلم لیگ نے اوریئینٹ نیوز کے نام سے ایک خبررساں ایجنسی بنائی تھی۔ برنی صاحب دہلی میں اس کے نمایندے تھے۔ حسین احمد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 60 اور 70 کی دہائی کلب کے حوالے سے بہترین تھی۔ بقول حسین احمد جو حال صحافت کا ہے وہی پریس کلب کا بھی ہے۔

کتاب کے مصنف اشرف شاد اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ’’ کراچی پریس کلب کی برطانوی عہد کی پتھروں کی بنی ہوئی قدیم عمارت کراچی کا ایک اہم محلاتی ورثہ ہے۔ حال ہی میں اس عمارتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی تزئین نو کی گئی ہے۔‘‘ اشرف شاد نے اپنے پرانے ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے مشتاق میمن کا یوں ذکرکیا ہے کہ ٹیرس کے ساتھ چھوٹا لان تھا، وہ رات کو تاریک ہوجاتا تھا۔ ایک کونے میں مشتاق کا گوشہ آباد ہوجاتا، وہ پکے مارکسٹ کامریڈ تھے۔

اپنے نظریات کا پرچارکرتے اورکسی مصلحت کے قائل نہیں تھے، ان کی دوستی آسان نہیں تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ سچائی کا جزیرہ کی اصطلاح پریس کلب کے کارڈ روم کے ایک مستقل کھلاڑی سابق سیکریٹری اطلاعات علی احمد پریس نے استعمال کی تھی۔ کراچی پریس کلب کی تاریخ کے اہم کردار عبدالحبیب خان غوری جو کلب کے صدر اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے کا انٹرویو سینئر صحافی شہناز احد نے کیا ہے۔ کراچی پریس کلب میرا دوسرا گھر ہے۔ ایک گھر میں رات کو سوتا اور صبح تیار ہوکر نکل جاتا ہوں۔ اپنے دوسرے گھر میں دن کے سرگرم جیتے جاگتے لمحات گزارا ہوں۔

جب غوری نے بتایا کہ ایک وقت تھا کہ کراچی پریس کلب کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے تو اتنے مشکل وقت میں عبدالحمید چھاپرا آگے آتے تھے۔ چھاپرا کے بزنس کمیونٹی سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے، وہ انھیں لے کر آتے اور عطیہ کا اعلان کروا دیتے تھے۔ بقول غوری جو کام چھاپرا کر گئے وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔ جب غوری صاحب نے انکشاف کیا کہ چند سال قبل سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کو خط لکھ کر پوچھا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا پریس کلب ہے جہاں سے سیاسی تحریکوں کا آغاز ہوا ہو یا اس کا کردار مرکزی حیثیت کا رہا ہو؟ غوری نے بتایا کہ گوگل نے کافی دن بعد جواب دیا۔ ان کی معلومات کے مطابق کوئی اور کلب نہیں ہے۔ سینئر صحافی مجاہد بریلوی نے ’’پریس کلب میرا گھر‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ہماری عمرکا وہ پہر تھا جب شباب اور انقلاب برپا ہوتا تھا۔

پیپلز پارٹی کے اخبار روزنامہ مساوات اور پھر ہفت روزہ معیار اور الفتح کی بندش پر تحریک چلی، ریگل چوک پر ہمیں گرفتاری دینی پڑی اور رہائی ملی تو کراچی پریس کلب دوسرا نہیں پہلا گھر بن گیا۔ شادی کا پھندا ابھی لگا نہیں تھا۔ اس وقت ادبی کمیٹی کے تحت حبیب جالب کا پروگرام کرنا تھا تو ضیاء الحق مارشل لاء کے سبب کراچی شہر میں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی۔ کراچی پریس کلب ہی ایسی جگہ تھی جہاں سارے ملک سے آئے سیاست دان اور ٹریڈ یونین رہنما جمع ہوئے۔ مجھے 1981 کی ایک یادگار تقریب یاد آرہی ہے۔

جی ہاں، PCO کے تحت حلف نا اٹھانے والے ججوں کے گلوں میں ہار ڈالے جا رہے تھے۔ شہناز احد نے کلب کی خواتین اراکین شین فرخ، انیس ہارون ، سلطانہ مہر، مہناز رحمن، نرگس خانم، لالہ رخ، صفیہ رشید وغیرہ کا جذباتی انداز میں ذکرکیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری مظہر عباس نے ’’ قومی جمہوری اثاثہ ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پوچھا تھا کہ ’’ میں کراچی پریس کلب کے لیے اور صحافیوں کے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘ تو ہم سب نے جمہوریت کے لیے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے طویل جدوجہد کی ہے۔ فیصل سیانی نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اس دنیا سے چلے گئے۔

انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ فروری 2017میں شطرنج والے کمرے کے برابر میں ایک بک بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت کلب میں ہم خیال ترقی پسندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اشرف شاد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی نگرانی میں کراچی پریس کلب کی تاریخ مرتب ہوئی۔ امید ہے کہ نئی نسل کے نوجوان اس کتاب سے مستفید ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کراچی پریس کلب کی کراچی پریس کلب کے سینئر صحافی کے بارے میں کے عنوان سے صحافیوں کی شامل ہیں بتایا کہ اس کتاب کے لیے ہیں کہ کیا ہے

پڑھیں:

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ، وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر وزیر خزانہ کا کیا موقف ہے؟

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ، وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر وزیر خزانہ کا کیا موقف ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 11 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز )وزیر خزانہ محمد اورنگزیب وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں کے دفاع میں سامنے آگئے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آج پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی جس دوران صحافیوں کی جانب سے وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافے پر سوالات کیے گئے۔ وزیرخزانہ نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی تنخواہ ڈھائی لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے اکیس لاکھ کرنے کی وجہ 9 سال سے اضافہ نہ ہونا قرار دیدیا۔ صحافیوں کے سوالات پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، آخری بار 2016 میں کابینہ کے وزرا کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات کرتے ہیں تووزرا کی بھی بڑھنی چاہیے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم بڑھائے جانے سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ یا پینشن کی بات ہوتو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے، ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے، مہنگائی کی شرح ابھی بھی 7.5 فیصد ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔واضح رہے گزشتہ دنوں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی ماہانہ تنخواہ 13 لاکھ مقرر کر دی گئی ہے ۔اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 5 ہزار روپے تھی

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعیدالاضحی ،سی ڈی اے ورکرز کے اعزاز میں تقریب،وزیر داخلہ کی شرکت عیدالاضحی ،سی ڈی اے ورکرز کے اعزاز میں تقریب،وزیر داخلہ کی شرکت وزارت داخلہ کے تمام ذیلی اداروں کے مابین باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لائے، بلاول بھٹو پاکستان اہم ترین شراکت دار،تعلقات بھارت سے مشروط نہیں ہیں،امریکی فوجی سربراہ ڈاکٹر عاصمہ ربانی نے فلپائن میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی بجلی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ، بجٹ میں صارفین پر اضافی سرچارج عائد کرنے کا فیصلہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ، وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر وزیر خزانہ کا کیا موقف ہے؟
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے صحافیوں کا واک آؤٹ
  • وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس؛ تکنیکی بریفنگ نہ دینے پر صحافیوں کا واک آؤٹ
  • پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس،حکومتی روئیے کیخلاف صحافیوں کا احتجاج و واک آﺅٹ
  • وفاقی وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس، صحافیوں کا احتجاج اور واک آؤٹ
  • وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس: صحافی واک آؤٹ کر گئے
  • وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کا واک آؤٹ
  • سکھر کی رہائشی خاتون انصاف کیلیے پریس کلب پہنچ گئی
  • عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینیٹر شمیم آفریدی