درخشاں حیات کا جامع احوال
’جامع السیر‘ کا موضوع نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ یہ کتاب مولانا یوسف متالا صاحب کے مجموعہ ارشادات پر مشتمل ہے۔ مولانا یوسف کے تکمیل قرآن مجید، و بخاری شریف اور رمضان المبارک میں ریڈیو پر نشر ہونے والے دروس کی جب کتابی تشکیل کی گئی، تو اس کے نتیجے میں سیرت نبویﷺ کے حوالے سے کچھ مفصل مجموعے منظرعام پر آئے۔ ’جامع السیر‘ انھی کتب کا گویا ایک جامع خلاصہ ہے۔
اس کتاب میں بہت مہارت اور جامعیت سے حیات طیبہ ﷺ کا احاطہ کرنے کی ایک قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی مبارک کے مختلف واقعات، معجزات، غزوات اور معاہدوں سے لے کر روز مرہ زندگی کے معمولات اور آپ ﷺ کی نشست وبرخاست تک کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ازواج مطہرات۔ دیگر قریبی رشتے دار، صحابہ کرام ؓاور رسول اکرم ﷺ کی ذاتی زندگی کے بہت سے خوب صورت اور حیات افروز پہلو بھی ان اوراق میں جگ مگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے ہر شخص کی کم از کم یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب نبی کی سیرت پاک سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرسکے، تاکہ نہ صرف کچھ ہدایت حاصل ہو، بلکہ حُب رسول ﷺ کے چشمے سے بساط بھر فیض حاصل کرے، تاکہ زندگی کے جہل کو مٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی اُخروی زندگی کے واسطے بھی کوئی کرن پا سکے۔ اس کتاب میں بعثت نبوی اور ہجرت مدینہ کے سال بہ سال تذکرے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آپ ﷺ کے استعمال میں رہنے والی چیزوں کے بیان اور آپ کے ذریعے مختلف ذمہ داریوں کی سعادت اور خدمت کا مرتبہ پانے والوں کا ذکر حُب رسول رکھنے والوں کے دلوں پر براہ راست دستک دیتا ہے۔
سچ پوچھیے تو موضوع کے چناؤ نے کتاب کو کسی تعارف کا محتاج نہیں رکھا، لیکن اس کی سعادت پانے والوں کی سعی کو نہ سراہنا بھی زیادتی ہوگی۔ کتاب کے مندرجات کو چھوٹے چھوٹے زُمروں میں بانٹنے سے کتاب کی خواندگی اور متعلقہ موضوع تک رسائی میں کافی سہولت رہتی ہے۔ کتاب کی طباعت سفید بَِڑھیا کاغذ پر کی گئی ہے، ساتھ ہی مختلف رنگین نقشوں سے بھی راہ نمائی کی گئی ہے۔ یہ کتاب زم زم پبلشرز (03351111326, 03008204770) اردو بازار، کراچی نے شائع کی ہے۔
٭٭٭
کہاوتوں سے بُنی گئی کہانیاں
ایک کہاوت ایک کہانی (4) اطہراقبال صاحب کی اردو کی 101 کہاوتوں پر مشتمل ایسی کتاب ہے، جس میں ہر کہاوت کے حوالے سے باقاعدہ ایک کہانی شامل کی گئی ہے۔ یہی خوبی اس کتاب کو منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔ یوں بھی کوئی کہاوت کسی نہ کسی کہانی اور تجربے سے ہی زندگی پاتی ہے، اور اس کتاب میں اس کہاوت کو دوبارہ سے ایک کہانی سے منسلک کردیا گیا ہے۔
بچوں کے لیے ترتیب دی گئی اس دل چسپ کتاب میں مصنف نے اردو املے کی درستی اور اصلاح کا نہ صرف خیال رکھا ہے، بلکہ اس کی وضاحت بھی کی ہے، تاکہ سیکھنے والے بچے کسی بھی قسم کی الجھن اور ابہام کا شکار نہ ہوں۔ بہت سی کہاوتیں ایسے بھی ہیں، جو آج کل ہمارے گھرانوں میں لفظوں کے ہیر پھیر کا شکار ہوگئیں، جیسے ہم نے ’دن بھر پیسا، چٹنی بھر نہ اٹھایا‘ سُن رکھا تھا، لیکن اس کتاب میں یہ کہاوت ’رات بھر پیسا، چَپنی بھر نہ اٹھایا‘ کے عنوان سے دکھائی دیا۔ ایسے ہی ہم نے ’کھائیں نانا، نانی کے روٹ، کہلائیں دادا، دادی کے پوت!‘ سنا جو اس کتاب میں ’’نانا کے ٹکڑے کھاوے، دادا کا پوتا کہلاوے‘‘ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو کہ یقیناً مستند اور درست ہوگا۔
اسی طرح ایسی بہت سی کہاوتیں اور بہت سے ضرب المثل ہیں، جو کسی نہ کسی طور ہماری عام گفتگو میں شامل رہتے ہیں اور ہمارے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے میں نہایت ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں، وہ ہمیں اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں اور عام پڑھنے والے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
اس موقعے پر زیادتی ہوگی کہ اگر ہم ہر کہانی کے ساتھ بنایا جانے والے خاکوں کا ذکر نہ کریں، جو خالق خان پاکی کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ حرف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے اس محاوروں کی کتاب کی ضخامت 320 صفحات اور قیمت 1200 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ کتاب کراچی کے معروف ناشر، فرید پبلشر (03452360378,03132800052) نے شائع کی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس حوالے سے اطہر اقبال کی ’ایک کہاوت ایک کہانی‘ ’ایک محاورہ ایک کہانی‘ اور ’فرار سے گرفتاری تک‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہیں۔
درد میں پنہاں ’کالم‘
دفتر کھلا (جلد دوم) ڈاکٹر یونس حسنی کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی ایک ادیب اور نقاد ہونے کے باوجود جب اخبار کے لیے کالم لکھتے ہیں، تو لکھتے ہوئے حالیہ واقعات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، جس میں وہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی خبروں کے ساتھ ساتھ اپنا کوئی تازہ مشاہدہ، تجربہ یا واقعہ بھی شامل کر لیتے ہیں، کبھی کوئی اشتہار، کوئی نئی مہم، کوئی تنازع یا حالات حاضرہ کا کوئی ایسا قدم جو کسی نہ کسی حوالے سے جھول کھا رہا ہو، وہ ان کے قلم سے چُوک نہیں پاتا۔
دوسری جو چیز انھیں لکھنے پر مجبور کرتی ہے، وہ اس واقعے کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات، تنقید، طنز ومزاح، نصیحت یا ان کا دردمندانہ تبصرہ ہوتا ہے۔ دردر اور احساس تو ہمیں ان کے کالموں میں جابہ جا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنی فکر کے مطابق مختلف موضوعات پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں اور اس سلیقے سے قارئین تک اپنا پیغام اور مافی الضمیر پہنچا بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ اس کا قائل نہ بھی ہو تو اس پر قطعی گراں بھی نہیں گزرتا۔
یوں تو کتاب ان کے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالموں کا دوسرا مجموعہ ہے، لیکن اس کتاب کی ابتدا میں 19 کالم روزنامہ ایکسپریس سے پہلے کے بھی ہیں۔ کتاب کے فلیپ پر اس کتاب کے ’ناشر‘ ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کے کالموں کی تیسری جلد شائع کرنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں، دوسری طرف ڈاکٹر یونس حسنی جیسی گراں قدر ہستی کے تعارف میں سَن کی ایک غلطی اس خوب صورت کتاب کے لطف میں فرق ڈالنے لگتی ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر یونس حسنی کا شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں مستقل تقرر یکم مارچ 1978ء کو ہوا اور 31-3-1977 کو بہ حیثیت پروفیسر سبک دوش ہوگئے۔
اصل افسوس ناک یہ غفلت ہے کہ یہی سہو کالموں کی پچھلی جلد میں بھی موجود تھا۔ یہی نہیں کتاب کے پہلے صفحے پر ڈاکٹر یونس حسنی کے ’تشکرات ‘ کی چند سطروں میں بھی روزنامہ ایکسپریس کے نام میں بھی پروف کی غلطی موجود ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی اس وقت اردو زبان وبیان اور لسانیات کے چند نمایاں ترین ہستیوں میں شامل ہے، ان کی کتب شائع کرنا یقیناً کسی بھی ناشر کے لیے ایک بڑا اعزاز ہو سکتا ہے، لیکن مذکورہ بالا سہو ڈاکٹر صاحب کے بلند مرتبے کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔ بہرحال، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، جسے ہم لکھنے سے رُک نہ سکے۔ 320 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر یونس حسنی کے تقریباً 100 کالموں کا احاطہ کرتی ہے اور ہر کالم میں کوئی پیغام یا نصیحت پنہاں ہے۔ اس مجلد مجموعے کی قیمت 1200روپے ہے۔ اس کی اشاعت ’رنگ ادب پبلی کیشنز‘ (0336-2085325, 0300-2054154) اردو بازار، کراچی کے تحت کی گئی ہے۔
کُوچے ’شہرِقائد‘ کے!
یوں تو اس ملک کے پہلے دارلحکومت اور معاشی مرکز کراچی پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن جتنا وسیع یہ شہر ہے اتنی پھیلی ہوئی اس کی تاریخ اور اس کے مختلف پہلو بھی ہیں۔ اس لیے ہر کتاب ہی میں کوئی نہ کوئی نئی تحقیق اور انکشاف سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی نئی کتاب ’کراچی کے گوشے‘ بھی ہے۔ ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ میرٹوریس پروفیسر اور سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم، سابق ڈائریکٹر ویمنز اسٹڈی سینٹر ہیں۔ ان کی اس کتاب میں کراچی شہر کے مختلف مقامات اور علاقوں کے حوالے سے مختصر مختصر، لیکن دل چسپ اور اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس لیے کراچی کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والا ایک عام قاری اس کے اوراق میں کھوتا ہی چلا جاتا ہے۔
یہ کتاب چوں کہ ایک تحقیقی مقالہ ہے، سو اس میں موضوع کے تعارف، لٹریچر کا جائزہ، مقصدِ تحقیق، تحقیقی طریقۂ کار وغیرہ جیسے عام لوازمات بھی موجود ہیں، یوں اس کتاب کے185 میں سے 72 صفحات مقالے کی تحقیقی ضرورت کو پورا کرنے والے مواد پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد ہمیں بہت اختصار کے ساتھ کراچی کے 100 سے زائد چھوٹے چھوٹے علاقوں کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ بالخصوص ان علاقوں کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے معلومات ایسی ہیں، کہ ہر شخص سوچتا تو ضرور ہے کہ اس جگہ کا یہ نام کیوں پڑا، لیکن اس کتاب میں اس کا جواب پتا چل جاتا ہے۔
اس اعتبار سے یہ مختصر سی کتاب ایک خاصے کی چیز ہے کہ آپ بہت آسانی سے چند سطروں میں کراچی کے کسی بھی علاقے کا پس منظر، اس کی اہمیت، خصوصیات اور اس کے تاریخی پس منظر کے بارے میں آگاہی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس میں کچھ نام بٹوارے کے بعد کے ہیںِ، تو کچھ اس سے قبل کی تاریخ سے منسلک، تو کچھ کا تعلق مذہبی ہے، تو کچھ کے نام واقعات، تو کچھ مختلف روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس کتاب کے آخر میں خلاصہ، تحقیق کے نتائج اور سفارشات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ساتھ ساتھ ’کتابیات‘ اور حوالہ جات کا بھی پورا اہتمام ہے۔ یہ کتاب ’انجمن ترقی نسواں، کراچی اسٹدیز سوسائٹی، ایسو سی ایشن آف سوشل ورک پروفیشنلز اور شوبہ سماجی بہبود، جامعہ کراچی نے شائع کی ہے۔ قیمت 700 روپے ہے
چوکھٹا
لفظِ ’پاکستان‘ کے خالق پر ایک دستاویز
’’چوہدری رحمت علی، اعتراضات کا جائزہ‘‘ زید بن عمر کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں چوہدری رحمت علی کی تحریک پاکستان میں کاوشوں اور ان کے منفرد خیالات اور ذرا مختلف نقطۂ نظر کا الگ الگ زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے، اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ ان کے موقف مختلف ہونے کی بنا پر انھیں بہت سے حوالوں سے بہت سے حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں ان کی شخصیت اور ان کے کام کے حوالے سے بھی بہت سے ابہام پیدا ہوگئے یا کردیے گئے۔
ان سب کی حقیقت کیا ہے؟ اس کتاب میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب ملتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں ایک نہایت متحرک طالب علم راہ نما کے طور پر جانے جانے والے چوہدری رحمت علی کی ’پاکستان اسکیم‘ اور ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کے واسطے علاحدگی کا کیا منصوبہ تھا اور وہ برصغیر کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو عام مسلم لیگی اکابرین سے کس طرح مختلف طریقے سے دیکھ رہے تھے؟ قیام پاکستان کے بعد ان سے ہمارے رویے کی بازگشت بھی ان صفحات میں سنائی دیتی ہے اور یہاں تک کہ کس طرح 1951ء میں وہ دیارِغیر میں کسما پُرسی میں انتقال کر گئے۔
بعد میں بھی سرکاری اور غیرسرکاری طور پر بھی ان کے کردار کو باقاعدہ نظرانداز کرنے کا چلن بھی پایا جاتا ہے، لیکن ’اب یا کبھی نہیں‘ نامی تاریخی پمفلٹ کے ذریعے انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی اس تحریک میں اپنا ایک مقام اور لفظ ’پاکستان‘ کے خالق ہونے کے ناتے گویا اس تاریخ میں اپنی اہمیت منوائی ہے۔ اس کتاب میں چوہدری رحمت علی کی فکر اور علامہ اقبال کے خطبہ ٔ الہ آباد کے موازنے کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کیا چوہدری رحمت علی کا مشہورِ زمانہ پمفلٹ ’اب یا کبھی نہیں‘ علامہ اقبال نے لکھوایا تھا؟ یہی نہیں چوہدری رحمت علی اور ’سوشل اِزم‘ کے تعلق کا سوال بھی اس کتاب کا ایک دل چسپ اور اہم باب ہے۔
یعنی یہ تصنیف چوہدری رحمت علی کے سیاسی نظریات و افکار اور ان کی جدوجہد اور کاوشوں کا احاطہ کرتی ہے، جس میں ایک باب قیام پاکستان کے بعد اس ریاست کے عمائدین کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی سے اختلاف کا بھی دکھائی دیتا ہے کہ جب پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے مسلمانوں کے معاملے کو باقاعدہ طور پر ہندوستان کا داخلی معاملہ قرار دے دیا گیا۔
اس کتاب کے محقق زید بن عمر اس کتاب سے قبل چوہدری رحمت علی پر پانچ کتابوں پر نظر ثانی کا فریضہ بھی انجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کے لیے مختلف محققین کے مقالہ جات، مضامین، دستاویزات اور بیانات کو بھی باقاعدہ شامل کیا ہے۔ مکمل حوالہ جات اور ’کتابیات‘ سے مزین، 398 صفحات کی اس وقیع کتاب میں تقریباً سو صفحات میں آٹھ عدد ’ضمیمہ جات‘ بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس تاریخی دستاویز کی قیمت 1500 روپے ہے، جب کہ اس کی اشاعت مکتبہ جمال (03008834610) لاہور سے ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چوہدری رحمت علی ڈاکٹر یونس حسنی اس کتاب میں کے حوالے سے اس کتاب کے ایک کہانی ساتھ ساتھ کی گئی ہے زندگی کے کراچی کے کتاب کی یہ کتاب شامل کی کے ساتھ لیکن اس دیتا ہے میں بھی نے والے جاتا ہے بھی ان بہت سے اور ان کے بعد تو کچھ اور اس کے لیے
پڑھیں:
خرابات فرنگ
تقریباً دو ہفتے پہلے ‘ علامہ عاصم صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق صاحب نے گھر پر ایک ادبی محفل رکھی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔ برادرم عاصم‘ بذات خود ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں تو خیر وہ ہیں ہی۔ مگر‘ ایک حد درجہ مخلص‘ مہذب اور مرنجان مرنج انسان بھی ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ طالب علم‘ ڈاکٹر وحید الزماں کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد‘ ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ بتانے لگے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم پڑا کہ میرے سے چار سال سینئر تھے۔
فدوی بھی اسی علمی درسگاہ سے فیض یاب ہوا ہے۔ بہر حال برف پگھلنی شروع ہو گئی۔ مختص دن اور شام کو ان کے گھر پہنچا۔ تو بیسمنٹ میں دوست جمع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو ہیں‘مگر فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
لاہور کی قدآور ادبی شخصیات موجود تھیں۔ اوریا مقبول جان جو میرے دیرینہ رفیق ہیں، اپنے مخصوص انداز میں چہک رہے تھے ۔ اوریا کے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ مگر‘ ادب پر اس کی کمال گرفت ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں ‘ محترم مجیب الرحمن شامی بھی آ گئے۔ ان کی باتوں کی شائستگی ‘ محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ چار گھنٹے ہر زاویہ سے باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صاحب قلم اور صاحبان علم کا ایک ایسا گلدستہ اکٹھا کیا ہوا تھا جن کی دل آویز خوشبو ‘ ہمیشہ اپنا احساس دلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب‘ فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔میری پسندیدہ ترین شخصیت‘ علامہ اقبال کے کام پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں جو فوج کے میڈیکل کے شعبہ سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی ہیں۔ انھوں نے کمال محبت سے اپنی ایک کتاب کی دو جلدیں عنایت فرمائیں۔ یہ ان کی لندن کے قیام کے قصے تھے۔ نام تھا خرابات فرنگ۔ اس جمعہ اور ہفتہ کو قدرے فرصت تھی ۔
لہٰذا دونوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ بہت عمدہ کتابیں نکلیں۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔کتاب کا اسلوب بیانیہ ہونے کے باوجود اتنا دلکش اور مؤثر ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہائیڈپارک کارنر کی بینچ پر بیٹھا ہو یا برٹش میوزیم کی راہداریوں میں گم ہو چکا ہو‘‘۔ مادام تساؤ کا میوزیم‘‘ ہویاٹر افالگر اسکوائر ‘وکٹوریہ گارڈن ہو یا نیشنل گیلری ‘ ہر مقام کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ صرف جگہیں ہی نہیں بلکہ ان سے جڑے ثقافتی اور فکری پہلو بھی روشن ہو جاتے ہیں۔کتاب کا نام ’’خرابات فرہنگ‘‘ خود ایک استعارہ ہے۔ ’’خرابات‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روح شکست کھا جائے‘ جہاں دل کو قرار نہ آئے۔ اور ’’فرنگ‘‘ یعنی مغرب‘ جہاں تہذیب ہے‘ ترقی ہے‘ لیکن روحانیت گم ہے۔
شامی صاحب رقم طراز ہیں کہ طارق کا لاحقہ انھوںنے خود لگایا یا تخلص رکھ لیا‘ معنویت میںاضافہ ہو گیا۔ وحید الزماں طارق طب کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے بھی۔ میڈیکل میں کمال حاصل کیا‘ تو ادب کی طرف رجوع کر لیا۔ اقبال کے کلام سے ناتہ جوڑا تو اس کے شارح اور مفسر بن گئے۔ ایک عالم کو گرویدہ بنا لیا۔ اقبال کا فارسی کلام فارسی سے نابلد لوگوں کو سمجھا دیا۔
اب کچھ کتاب سے لیے ہوئے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔قطبین میں سے ایک قطب کا انتخاب: مغرب میں اہل ایمان کی تذبذب کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں لوگ اپنی پارسائی کا بھرم رکھ کر چھپ چھپا کر گناہ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان اپنی حرکات و سکنات سے اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ یا تو وہ صحیح مومن بن جاتا ہے یا پھر مغرب کی چکا چوند روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ کی تربیت صحیح ہوئی ہو تو انسان ان خرافات سے دور بھاگتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دقیانوسیت سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
بہ افرنگی بتان دل باختم من
ز تابِ دیریان بگدا ختم من
دیار فرنگ میںاپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کو قائم رکھنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا انگلستان میں حال کچھ یوں تھا کہ بقول علامہ اقبال:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
انگریز معاشرے کے مسائل اور خوبیاں: انگریز معاشرے کے اپنے مسائل تھے اور خوبیاں بھی تھیں جو سامنے آ جاتی تھیں۔ انگریزقوم کے افراد کسی حد تک آگے بڑھتے اور پھر وہیں رک جاتے تھے۔ اور اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے جس کی جھلکیاں ان کی مصوری‘ موسیقی اور ڈراموں میں دکھائی دیتی تھیں۔ وہی حال ان کے تجارتی اشتہارات کا تھاجن سے ان کی زیر زمین ریل گاڑیاں اور ڈبل ڈیکر بسیں تک مزین ہوا کرتی تھیں ایسی تصاویر اور آرٹ بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے۔
پاکستان کے تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہو کر پرورش پانے والی نسل کو یہ سب کچھ نارمل دکھائی دیتا تھا اور وہ اس اخلاقی نظام پہ انگلیاں اٹھاتے تھے جس کی تلقین ان کے قدامت پسند بزرگ کیا کرتے تھے۔ پھر اگر انھیں پاکستان یا اسلامی معاشرے میں کچھ دیر کے لیے وقت گزرانا پڑتا تو انھیں وہاں پر اگر انھیں منافقت یا مصلحت اندیش خاموشی نظر آتی تو وہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے جن کا جواب دینے سے ہمارے اکثر بڑے قاصر ہوتے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور ہمارا عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں۔
انگلستان سے ٹوٹتا ہوا تعلق: ہم 2018 میں عمان ایئرکے ذریعے ابو ظہبی سے مسقط اور وہاں سے مانچسٹر پہنچے۔ یارکشائر‘ گلاسگواسکاٹ لینڈ‘ لندن‘ اسٹیو ینیج‘ کیمبریج اور پھر مانچسٹر ‘ ہر سو اداسی تھی۔ اس بار خالہ بلقیس ‘ بھائی جان امان اللہ اور آنٹی نجمہ واحد سے ہم آخری بار ملے تھے۔ عید پر گلاسگو گئے تو ابھی بشیر مان صاحب بھی زندہ تھے لیکن سخت بیمار تھے۔ انھیں ایک پھیپھڑے میں سرطان ہو چکا تھا اور ان سے ہم آخری بار 2016 میں ان کے اپارٹمنٹ میں ملے تھے۔
اب وہ سب لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔پروفیسر لانگسن تو 1989 میں ہی وہا ں سے نکل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بھی سویٹزر لینڈ میں جا کر جنیوا جھیل کے کنارے مدفون ہیں۔ مسز ڈینس لانگسن سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ بنات ولا اور شرلی رچمنڈ کا کچھ علم نہیں۔ ماؤراٹمبوری وفات پا چکی ہیں۔ رولف اور جیکی فروری 1988 میں ہی وہاںسے ہل چلے گئے تھے۔ جیرالڈ کاربٹ اور اس کی بیگم وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر شرلی رچمنڈ بھی نہیں رہیں۔ جو باقی ہیں ان سے بھی ملاقات مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
آخرمیں ڈاکٹر وحید الزماں نے جو کچھ‘ اس کتاب کے متعلق لکھا ہے۔ عرض کرتا ہوں۔کمبل پوش نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ تصنیف کی تھی‘ وردی پوش نے ’’خرابات فرنگ‘‘ رقم کی ہے۔ بریگیڈیئر وحیدالزماں طارق صاحب کی یہ تصنیف لطیف سفر نامہ بھی ہے اور حضر نامہ بھی ۔ انھوںنے جوانی میں انگلستان کی شان دیکھی تھی‘ وقت پیری انھیں یہ خیال آیا کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں۔ سو کتاب کے نام کی مناسبت سے انھوںنے ہمیں خرابات کی سیر تو کرائی ہے لیکن نام کے برعکس بھی بہت سے دل کش مقامات دکھائے ہیں۔ اس تصنیف میں سیر مقامات بھی ہے اور احوال حیات بھی۔ یہاں انھوںنے ہماری ملاقات ایک ایسے پاک دل و پاک باز شخص سے کرائی ہے جس پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے: بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی۔ یہ شخص وحیدالزماں طارق ہے جو خود تو رنگین مزاج نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب تحریر بہت رنگین ہے۔
بہر حال ‘ وحید صاحب نے انگلستان میں اپنی یادوں کو حد درجہ دلکش انداز میں محفوظ کیا ہے۔ یہ دونوں جلدیں ‘ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔