اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار، بنی اسرائیل
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
یہودیوں کی بدقسمتی یہ کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے بھی متعدد بار لعنت بھیجی ہے۔ یہودیوں نے اپنی ہزاروں سالہ زندگی اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانیوں میں گزاری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور سے بنی اسرائیل نام کی قوم کا آغاز ہوا اور دم تحریر تک یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ دنیا بھر کی اقوام میں یہ وہ واحد قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ غضب و غصے اور پھٹکار و ملامت کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔ اسرائیلیوں کی مکرو فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔قرآن پاک کے مطابق یہ قوم عہد و پیمان کی مسلسل نافرمانی کرتی تھی جس کے بعد کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لٹکایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عہد شکنیوں کاان کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ اللہ کی آیات کو فروخت کرتے تھے اور ان سے اپنے ڈھب کے مطلب برآمد کرتے تھے۔ اللہ نے جب انہیںآسمان سے بلامحنت و مشقت رزق (من و سلویٰ) فراہم کیا تو ضد کر کے اسے بند کروایا اور مطالبہ کیا کہ ان کے لئے زمین سے اناج اور سبزیاں اگانے کا بندوبست کیا جائے۔ اللہ نے انہیں ایک بستی میں داخل ہوتے وقت ”حطّہ” (معانی) کا لفظ ادا کرنے کے لئے کہامگر انہوں نے ضد میں اسے بدل کر کسی اور لفظ میں تبدیل کردیا۔ آسمان سے بھیجے گئے اپنے پیغمبروں کو قتل کرنے اور انہیں پھانسی پر چڑھانے سے بھی انہیں کوئی عار نہ تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کروایا۔ ایک نبی کو کنوئیں میں الٹا لٹکا کر چھوڑ دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختہ دار تک پہنچانے کی سازش میں پیش پیش رہے۔اللہ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بہت سٹپٹائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانچ دفعہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رب سے اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک حکم لے کر آئیں تاکہ وہ کسی طرح گائے کے ذبح سے بچ جائیں وغیرہ وغیرہ۔
یہودیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ ” اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو انہیںبدترین عذاب دیں گے۔” (الاعراف۔ ٧٦١)
ایک اور مقام پر اللہ نے کہا ہے کہ ”یہ جہاں بھی پائے گئے، ان پر ذلت کی مار پڑی۔ کہیں اللہ یا انسانوں کی حفاظت میں انہیں پناہ مل گئی تو اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ہیں اور محتاجی اور مغلوبی ان پر مسلط کردی گئی ہے۔” (آل عمران۔٢١١)
اس وقت دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں جن میں سے اڑتالیس لاکھ اسرائیل میں بستے ہیں۔اسرائیل نہ تو ان کی آبائی زمین تھی اور نہ ہی یہاں ان کے مکانات وغیرہ تھے۔ یہودیوں کو جنگ عظیم اول کے بعد ایک سازش کے تحت برطانیہ نے فلسطین میں یہ کہہ کر آباد کرایا کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔
عیسائی اقوام وسیع و عریض خلافت عثمانیہ کو توڑ کر پاش پاش کیا اور دسیوں چھوٹی بڑی عرب ریاستیں وجود میں لے کر آئے ۔ یوں انہوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اس دن سے آج تک مسلمانوں کو نہ تو پھر ویسی اتحاد و یکجہتی میسر ائی اور نہ ”اسرائیلی” ریاست سمٹ کر مختصر ہوسکی۔ آج عالم یہ ہے کہ یہ یہودی ریاست مسلسل توسیع پذیر ہے اوراس کی سرحدیں آئے دن پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔
یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر ملکیت کا تنازع کھڑا کیا۔ کہا کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی ہے۔ یہ ہماری ملکیت ہے۔ رسول اللہۖ ایک رات میں خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ گئے۔ پھر مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” سے آسمانوں پر اللہ سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔اس کاذکر قرآن شریف میں موجود ہے۔ مسجد اقصیٰ کی ”دیوار براق” کویہودیوں نے دیوار گریہ بنا ڈالا۔ اس پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے 1930میں ایک بین الاقوامی عدالت نے مسجد اقصیٰ اور اس کے اردگرد کے علاقے پر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے پر، برطانیہ کے بادشاہ نے ایک فرمان بھی جاری کیا تھا جسے”ویسٹرن وال ڈیکری آف1931ء کا جاتا ہے جو اْس وقت کے گزٹ میں بھی شائع ہوا تھا جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس فیصلے اورفرمان کے بعد یہودی خاموش ہو گئے تھے۔
حکومت برطانیہ نے اس معاملہ پر کہ کیا مسجد اقصیٰ مسلمانوںکی ہے( جو یقینی اور تاریخی طور پر مسلمانوں کی ہے) یا یہودیوں کا دعویٰ کہ یہ ہیکل سلیمانی تھا فیصلہ کرنے کے لیے یورپی ثالثوں، غیر جانبدار، ججوں،وکلا، بین الاقوامی مورخین اور ماہر آثار قدیمہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں ایک بھی مسلمان نہیں تھے۔ مسجد اقصیٰ اور اس کے قدیمی مغربی دیوار کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔اس بین الاقوامی عدالت نے اسے دیوار”براق” تسلیم کیا تھا نہ دیوار گریہ۔مسجد اقصیٰ کو بھی مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت نے تسلیم کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی دلیلیں درست ہیں۔ مسلمان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مسجد اقصیٰ ”دیوار براق” اور آس پاس کا علاقہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ اس کا ذکر قرآن شریف میں بھی موجود ہے۔ اس پر یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ دیوار گریہ پر یہودی اپنا حق ثابت نہیں کر سکے۔دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد ثالثی کمیٹی نے اپنا آخری اجلاس28 نومبر سے یکم دسمبر1930ء میںپیرس میں منعقد کیا۔ متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔نمبر ایک، مغربی ویوار صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے اور ان ہی کا اس پر حق ہے۔ اس روز روشن فیصلے کے بعد بھی کم ظرف اور اللہ کی دھتکارے ہوئے یہودی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر کے اس کو مسمار کر کے ہیکل سلیمانی بنانے اور مسجد اقصیٰ کی مغربی ”دیوار براق” کو دیوار گریہ کہہ کر اس کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ یہ سراسر شیطانی فعل ہے۔ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز نہیںپڑھنے دیتے۔ ہر وقت اسکی شیطانی فوجیں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بین الاقوامی علیہ السلام مسلمانوں کی اللہ تعالی دیوار براق دیوار گریہ اللہ نے کے بعد
پڑھیں:
بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔
بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔
اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔
وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔
یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔
امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔