میرواعظ کشمیر نے کہا کہ انہیں مسلسل چھٹے سال بھی آج شبِ برات سے قبل ایک بار پھر اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے اور انکی منصبی و مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے جموں و کشمیر ہائیکورٹ کا سفری دستاویزات پاسپورٹ کے اجراء سے متعلق فیصلہ خوش آئند قرار دیا اور کہا ہے کہ یہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ ان افراد کے لئے امید کی کرن ہے، جنہیں برسہا برس سے محض رشتہ داری کی بنیاد پر پاسپورٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ان ہزاروں افراد کو محض عسکریت پسندوں، سیاسی قیدیوں اور جیلوں میں مقید قیادت کے بچوں اور رشتہ داروں سمیت جس میں خود میرا خاندان بھی شامل ہے، اس بنیادی حق سے محروم کر دئیے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ تعلیمی اور پیشہ وارانہ مواقع سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ موجودہ حکمران عدالت عالیہ کے اس فیصلے کا احترام کریں گے۔

اس دوران میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ انہیں مسلسل چھٹے سال بھی آج شبِ برات سے قبل ایک بار پھر اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے اور ان کی منصبی و مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ کسی شخص کو محض اس کے بھائی یا والد کے عسکریت پسندی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کسی شخص کی اپنی سرگرمیاں پاسپورٹ کی اجراء میں بنیاد بننی چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عمر فاروق کہا کہ

پڑھیں:

یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔

Tweet URL

ڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔

(جاری ہے)

خود انحصاری اور غیرمعمولی کام

آدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔

اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔

2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔

ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔

یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردید

ان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔

امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔

یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔

علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔

آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر میں آئینی اور سیاسی بحران سنگین ، ن لیگ نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کردیا
  • جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، الطاف بٹ
  • سردار مسعود خان کا تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عملدرآمد پر زور
  • پاکستان، بنگلہ دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹ پر  ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • پاکستان اور بنگلا دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹ پر ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے: وزیراعظم
  • حریت کانفرنس کا مشن واضح اور غیر متزلزل ہے، ہم اپنے شہداء کے خون کے امین ہیں، غلام محمد صفی
  • 9 مئی مقدمات کا فیصلہ خوش آئند، چورن بیچنے والے ہوش میں آئیں: بیرسٹر عقیل