ہم سب عملی، ذہنی، نفسیاتی اور قومی سطح پر لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے تو ہمیں وہ برا لگتا ہے، غلط لگتا ہے۔ ہم کسی سڑک پر جا رہے ہوں اور کسی کا سگنل توڑنے پرچالان ہوتے دیکھیں تو کہتے ہیں، اوہ بے چارے کا چالان ہوگیا یعنی ہم اس پر برہم نہیں ہوتے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔ معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہوچکا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے کسی کو سگنل توڑ تے دیکھیں تو کہتے ہیں، واہ، زبردست، کتنا بہادر ہے۔ مجرموں کو بہادرسمجھنا ، انہیں سراہنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ہیرو اور ولن کی بنیادی تعریفوں اور تصورات کو گڈمڈ کر چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو ظاہر ہوا کہ ہم فکری اور عملی طور پر کس حد تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے ہیں جو صرف اس وجہ سے تجاوزات کے خلاف مہم کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہرصورت مخالفت کرنی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مریم نواز کے مقابلے میں انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ عثمان بُزدار کی حمایت کرتے ہیں مگر ان سے ہٹ کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجاوزات کے خلاف مہم میں بے روزگاری نظر آ رہی ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے سڑکوں پر بے ہنگم کھڑی ریڑھیوں کوہٹانے سے پہلے وہاں کاروبار کرنے والوں کی رجسٹریشن کی، انہیں جدید اور خوبصورت ریڑھیاں ہی نہیں دیں بلکہ ان سڑکوں کے ایک جانب جگہ بھی دی جہاں سے ٹریفک بلاک کیا کرتے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس مہم کے بعد بھی جو لوگ بے روزگاری کا شکوہ کر رہے ہیں ان کے لئے الگ سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان کے روزگار کا متبادل دیا جا رہا ہے۔
سینئر صحافیوں کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر ملاقات اور غیر رسمی گپ شپ ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس تنقید کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ان کے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بات ہوئی تو وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی اور جمہوری حکومت کے لئے یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ مسلم لیگ نون کو اس امر کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس نے ہمیشہ اپنی سیاست سے زیادہ ملک اور قوم کے مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ اس سے پہلے جب عمران خان عین آئینی اور قانونی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جا رہے تھے تو نواز لیگ نے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ سب کو علم تھا کہ عمران خان نام کا شخص معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھود کے جا رہا ہے۔عمران نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا اور ملک میں ڈالروں کا بحران پیدا کیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا اوریہاں پر پٹرول تین ہزار روپے کا لیٹر اور بجلی کا یونٹ تین سو روپے میں بھی نہ ملتا۔ بہت ساروں کا یہ خیال تھا کہ حکومت اسی طرح نہیں لینی چاہئے جس طرح ایک سیانا شخص ایکسیڈنٹ کی گئی گاڑی نہیں خریدتا کہ اس نے دوبارہ پتا نہیں ٹھیک بھی ہونا ہے یا نہیں۔ میاں نواز شریف ہوں،شہبا زشریف ہوں یا مریم نواز، یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اوراس پر پورا اتر کے دکھاتے ہیں۔ جب ریڑھیاں ختم کی جائیں گی یا تھڑے توڑے جائیں گے تو کچھ لوگ ضرور ناراض ہوں گے مگر بہت سارے خوش ہوں گے، اپنے محلے بازار اور شہر کو صاف ستھرا دیکھ کے۔ آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیں وہاں دکانوں کو دیکھ لیں جیسے کسی سبزی والے کی دکان۔ اس نے اندر سے پوری دکان خالی رکھی ہو گی اور تمام ٹوکرے باہر سجا رکھے ہوں گے۔
بات تجاوزات کے حوالے سے ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے۔ جب ہم کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بارے میں پہلا اندازہ اس کی سڑکیں اور بازار دیکھ کے ہی لگاتے ہیں کہ یہ کتنا مہذب اور کتنا جدید ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غربت کی بنیاد پر غریبوں کو ریڑھیاں لگانے کی اجازت دے دی جائے تو اسی غربت کی بنیاد پر کیا کل چوری اور ڈاکے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، اسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقعے پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی درست ہے کہ یہ مواقعے ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو دوسرے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہوں، معاشرے کا چہرہ گندا کر رہے ہوں۔ میں صرف لاہور کی نہیں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے بازاروں سے لے کر منڈی بہائوالدین کے صدر بازار تک کی بات کر رہا ہوں۔ حکومت کو دو امور پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ایک متبادل ریڑھی بازار اور دوسرے پارکنگ کا انتظام۔ جب ہم بازاروں میںپارکنگ سے منع کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے پاس ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں پر گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں پارک کی جا سکیں اور وہ محفوظ بھی رہیں۔ جہاں فوری طور پر پارکنگ پلازے نہیں بن سکتے وہاں الیکٹریکل پارکنگ بھی لائی جا سکتی ہے۔
ایک اور اہم کام گلیوں، محلوں سے تھڑوں کا خاتمہ ہے۔ ہماری بہت ساری سڑکیں اور گلیاں چھوٹی چھوٹی ہیں اور یوں بھی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میںبھی لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں گیراج نہیں ہوتے۔ سو نے پر سہاگہ تقریباً نوے فیصد لوگ اپنے گھر اونچے بناتے ہوئے سیڑھیاں اور ڈھلوان گیٹ سے باہر بنا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر اونچا بنانا چاہتا ہے تو شوق سے بنائے مگر گیٹ گلی کے فرش کے برابر ہی ہونا چاہئے ، اگر کسی نے سیڑھی یا ڈھلوان بنانی ہے تو وہ اس کی جگہ اپنے گھر کے اندر سے دے۔
میں نے کہا ، ہم لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی قانون پر عمل کرے تووہ غلط لگتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص غلط پارکنگ کرے اور گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دے، کوئی شخص اشارہ توڑے اور دوسری طرف سے آنے والے سے ٹکر اجائے، کوئی شخص ون وے کی خلاف ورزی کرے اور سیدھے راستے پر آنے والوں کے لئے ٹریفک بلاک کر دے تو جب بھی ایسے کسی شخص کو روکا جائے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے زیادہ بدمعاشی کرتا ہے۔میں نے پہلے کہا کہ ہم نے اپنی نفسیات اور اخلاقیات ہی خلط ملط کر کے رکھ دی ہیں۔ اگر آپ ایسے سبزی والے کو جس کا ذکر میں نے پہلے کیا، اسے کہیں گے کہ تم یہ ٹوکرے اپنی دکان کے اندر کیوں نہیں رکھتے تو وہ آگے سے کہے گا تمہیں کیا تکلیف ہے، تم مامے لگتے ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سب کو ریاستی قوانین اور معاشرتی اخلاقیات کی خلاف ورزیاں دیکھ کے تکلیف ہونی چاہئے اگر ہم کچھ تمیز، تہذیب اور شعور رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک مشکل کام شروع کیا ہے اورمیرا خیال ہے کہ گھر کو صاف ستھرا کرنے والا کام ایک خاتون ہی کر سکتی تھی، مرد سیاستدانوں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تجاوزات کے خلاف مریم نواز بہت سارے کوئی شخص ہے کہ ہم ہیں کہ کر رہے کے لئے تھا کہ
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔