Nai Baat:
2025-06-09@21:49:31 GMT

لاقانونیت کی عادی قوم

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

لاقانونیت کی عادی قوم

ہم سب عملی، ذہنی، نفسیاتی اور قومی سطح پر لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے تو ہمیں وہ برا لگتا ہے، غلط لگتا ہے۔ ہم کسی سڑک پر جا رہے ہوں اور کسی کا سگنل توڑنے پرچالان ہوتے دیکھیں تو کہتے ہیں، اوہ بے چارے کا چالان ہوگیا یعنی ہم اس پر برہم نہیں ہوتے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔ معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہوچکا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے کسی کو سگنل توڑ تے دیکھیں تو کہتے ہیں، واہ، زبردست، کتنا بہادر ہے۔ مجرموں کو بہادرسمجھنا ، انہیں سراہنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ہیرو اور ولن کی بنیادی تعریفوں اور تصورات کو گڈمڈ کر چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو ظاہر ہوا کہ ہم فکری اور عملی طور پر کس حد تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے ہیں جو صرف اس وجہ سے تجاوزات کے خلاف مہم کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہرصورت مخالفت کرنی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مریم نواز کے مقابلے میں انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ عثمان بُزدار کی حمایت کرتے ہیں مگر ان سے ہٹ کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجاوزات کے خلاف مہم میں بے روزگاری نظر آ رہی ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے سڑکوں پر بے ہنگم کھڑی ریڑھیوں کوہٹانے سے پہلے وہاں کاروبار کرنے والوں کی رجسٹریشن کی، انہیں جدید اور خوبصورت ریڑھیاں ہی نہیں دیں بلکہ ان سڑکوں کے ایک جانب جگہ بھی دی جہاں سے ٹریفک بلاک کیا کرتے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس مہم کے بعد بھی جو لوگ بے روزگاری کا شکوہ کر رہے ہیں ان کے لئے الگ سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان کے روزگار کا متبادل دیا جا رہا ہے۔
سینئر صحافیوں کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر ملاقات اور غیر رسمی گپ شپ ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس تنقید کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ان کے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بات ہوئی تو وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی اور جمہوری حکومت کے لئے یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ مسلم لیگ نون کو اس امر کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس نے ہمیشہ اپنی سیاست سے زیادہ ملک اور قوم کے مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ اس سے پہلے جب عمران خان عین آئینی اور قانونی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جا رہے تھے تو نواز لیگ نے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ سب کو علم تھا کہ عمران خان نام کا شخص معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھود کے جا رہا ہے۔عمران نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا اور ملک میں ڈالروں کا بحران پیدا کیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا اوریہاں پر پٹرول تین ہزار روپے کا لیٹر اور بجلی کا یونٹ تین سو روپے میں بھی نہ ملتا۔ بہت ساروں کا یہ خیال تھا کہ حکومت اسی طرح نہیں لینی چاہئے جس طرح ایک سیانا شخص ایکسیڈنٹ کی گئی گاڑی نہیں خریدتا کہ اس نے دوبارہ پتا نہیں ٹھیک بھی ہونا ہے یا نہیں۔ میاں نواز شریف ہوں،شہبا زشریف ہوں یا مریم نواز، یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اوراس پر پورا اتر کے دکھاتے ہیں۔ جب ریڑھیاں ختم کی جائیں گی یا تھڑے توڑے جائیں گے تو کچھ لوگ ضرور ناراض ہوں گے مگر بہت سارے خوش ہوں گے، اپنے محلے بازار اور شہر کو صاف ستھرا دیکھ کے۔ آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیں وہاں دکانوں کو دیکھ لیں جیسے کسی سبزی والے کی دکان۔ اس نے اندر سے پوری دکان خالی رکھی ہو گی اور تمام ٹوکرے باہر سجا رکھے ہوں گے۔

بات تجاوزات کے حوالے سے ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے۔ جب ہم کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بارے میں پہلا اندازہ اس کی سڑکیں اور بازار دیکھ کے ہی لگاتے ہیں کہ یہ کتنا مہذب اور کتنا جدید ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غربت کی بنیاد پر غریبوں کو ریڑھیاں لگانے کی اجازت دے دی جائے تو اسی غربت کی بنیاد پر کیا کل چوری اور ڈاکے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، اسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقعے پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی درست ہے کہ یہ مواقعے ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو دوسرے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہوں، معاشرے کا چہرہ گندا کر رہے ہوں۔ میں صرف لاہور کی نہیں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے بازاروں سے لے کر منڈی بہائوالدین کے صدر بازار تک کی بات کر رہا ہوں۔ حکومت کو دو امور پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ایک متبادل ریڑھی بازار اور دوسرے پارکنگ کا انتظام۔ جب ہم بازاروں میںپارکنگ سے منع کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے پاس ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں پر گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں پارک کی جا سکیں اور وہ محفوظ بھی رہیں۔ جہاں فوری طور پر پارکنگ پلازے نہیں بن سکتے وہاں الیکٹریکل پارکنگ بھی لائی جا سکتی ہے۔
ایک اور اہم کام گلیوں، محلوں سے تھڑوں کا خاتمہ ہے۔ ہماری بہت ساری سڑکیں اور گلیاں چھوٹی چھوٹی ہیں اور یوں بھی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میںبھی لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں گیراج نہیں ہوتے۔ سو نے پر سہاگہ تقریباً نوے فیصد لوگ اپنے گھر اونچے بناتے ہوئے سیڑھیاں اور ڈھلوان گیٹ سے باہر بنا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر اونچا بنانا چاہتا ہے تو شوق سے بنائے مگر گیٹ گلی کے فرش کے برابر ہی ہونا چاہئے ، اگر کسی نے سیڑھی یا ڈھلوان بنانی ہے تو وہ اس کی جگہ اپنے گھر کے اندر سے دے۔

میں نے کہا ، ہم لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی قانون پر عمل کرے تووہ غلط لگتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص غلط پارکنگ کرے اور گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دے، کوئی شخص اشارہ توڑے اور دوسری طرف سے آنے والے سے ٹکر اجائے، کوئی شخص ون وے کی خلاف ورزی کرے اور سیدھے راستے پر آنے والوں کے لئے ٹریفک بلاک کر دے تو جب بھی ایسے کسی شخص کو روکا جائے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے زیادہ بدمعاشی کرتا ہے۔میں نے پہلے کہا کہ ہم نے اپنی نفسیات اور اخلاقیات ہی خلط ملط کر کے رکھ دی ہیں۔ اگر آپ ایسے سبزی والے کو جس کا ذکر میں نے پہلے کیا، اسے کہیں گے کہ تم یہ ٹوکرے اپنی دکان کے اندر کیوں نہیں رکھتے تو وہ آگے سے کہے گا تمہیں کیا تکلیف ہے، تم مامے لگتے ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سب کو ریاستی قوانین اور معاشرتی اخلاقیات کی خلاف ورزیاں دیکھ کے تکلیف ہونی چاہئے اگر ہم کچھ تمیز، تہذیب اور شعور رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک مشکل کام شروع کیا ہے اورمیرا خیال ہے کہ گھر کو صاف ستھرا کرنے والا کام ایک خاتون ہی کر سکتی تھی، مرد سیاستدانوں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تجاوزات کے خلاف مریم نواز بہت سارے کوئی شخص ہے کہ ہم ہیں کہ کر رہے کے لئے تھا کہ

پڑھیں:

عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔

یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔

 قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔

عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟

قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔

 فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔

 عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔

عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔

 اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔

صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟