میونخ سکیورٹی کانفرنس، متعدد عالمی رہنما شریک
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 فروری 2025ء) میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اس بار یوکرینی تنازعے اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیوں میں غیرمعمولی تبدیلیوں کے سائے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ جمعے کے روز امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا خطاب تین روزہ اجلاس کے سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے لمحات میں شامل ہے، جس میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی بھی شریک ہو رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں شریک 60 عالمی رہنماؤں میں جرمن چانسلر اولاف شولس بھی شامل ہیں، جنہوں نے گزشتہ روز خبردار کیا تھا کہ امریکہ اور روس کے درمیان کوئی بھی امن مذاکرات، یوکرین اور یورپ کو شامل کیے بغیر ناقابل قبول ہوں گے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ایک طویل ٹیلی فون کال میں یوکرینی تنازعے پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
(جاری ہے)
میونخ سکیورٹی کانفرنس کو دنیا کے اہم ترین سکیورٹی فورمز میں شمار کیا جاتا ہے اور اس بار اس کانفرنس میں متعدد ممالک کے 100 سے زائد وزراء بھی شریک ہیں۔ جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کانفرنس کا آغاز دوپہر کے وقت کریں گے، جب کہ یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈئر لائن بھی جمعے کے روز اس عالمی کانفرنس سے خطاب کریں گی۔
یوکرین کے علاوہ غزہ کا موضوع بھی اس کانفرنس میں اہم ترین ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کی تمام آبادی کو دیگر ممالک میں منتقل کیا جائے گا جب کہ امریکہ غزہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ اسی طرح شام کی صورتحال بھی اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہے، جہاں گزشتہ برس دسمبر میں اسلام پسند باغی گروہوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ ایک طویل عرصے سے اقتدار پر براجمان بشارالاسد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔اس کانفرنس میں متعدد دیگر مباحثوں میں عالمی مالیاتی نظام، جمہوریت کو لاحق خطرات، موسمیاتی تبدیلی، جوہری تحفظ اور مصنوعی ذہانت کے مستقبل پر بھی غور کیا جائے گا۔
ع ت، ک م (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس کانفرنس میں
پڑھیں:
سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی ٹی وی پروگرام 60 منٹس میں گفتگو کے دوران دو ریاستی حل پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں کہ آیا یہ دو ریاستی حل ہوگا، کیونکہ یہ اسرائیل اور مجھ پر منحصر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر سعودی عرب کے ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کا امکان ظاہر کر دیا۔ امریکی ٹی وی پروگرام 60 منٹس میں اینکر نے سوال کیا کہ کیا سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔؟ اینکر کے سوال پر صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ انہیں لگتا ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا، ہم حل نکال لیں گے۔ دو ریاستی حل پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ آیا یہ دو ریاستی حل ہوگا، کیونکہ یہ اسرائیل اور مجھ پر منحصر ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس حکام نے تصدیق کی ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے۔ حکام نے بتایا کہ سعودی ولی عہد اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات اور علاقائی معاملات پر گفتگو ہوگی۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب صدر ٹرمپ سعودی عرب پر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ابراہم اکارڈز 2020ء میں طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے، اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔