مغربی کنارے پر اسرائیلی کارروائیوں اور فلسطینی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تشدد اور تباہی کے نتیجے میں 44 فلسطینی ہلاک اور 40 ہزار سے زیادہ بے گھر ہو گئے ہیں۔
21 جنوری سے جنین، تلکرم، طوباس اور ان علاقوں میں قائم چار پناہ گزین کیمپوں میں جاری اسرائیلی فوج اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں پانچ بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بیشتر لوگ غیرمسلح تھے جن سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اسرائیل مقبوضہ مغربی علاقے میں طاقت کا غیرقانونی استعمال کر رہا ہے جبکہ وہاں جنگ کے حالات بھی نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
بڑے پیمانے پر نقل مکانی'او ایچ سی ایچ آر' نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں جس قدر بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں اس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور اس کے ڈرون لوگوں کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں جس کے بعد انہیں علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ ان کے اردگرد عمارتوں اور انہی لوگوں کے گھروں کی چھتوں پر مسلح نشانہ باز کھڑے ہوتے ہیں۔لوگوں نے ادارے کو بتایا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز انہیں دھمکیاں دیتی ہیں کہ وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہیں آ سکتے۔
اپنے دو چھوٹے بچوں کو اٹھائے ننگے پاؤں نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے انہیں اپنے گھر سے بچے کی دوا لانے کی اجازت بھی نہیں دی جو دل کی بیماری میں مبتلا ہے۔ جنین پناہ گزین کیمپ میں سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں جہاں اب سائن بورڈ عربی سے ہیبرو زبان میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ادارے کا کہنا ہے کہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا یا ان کے علاقے سے بیدخل کرنا بین الاقومی قانون کے تحت جرم ہے۔
اسرائیل کی قانونی ذمہ داریدفتر نے اسرائیل کے حکام سے کہا ہے کہ بے گھر ہو جانے والے فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت دی جائے اور ہلاکتوں کی فوری اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ جلد از جلد چھوڑے اور وہاں بسائی جانے والی تمام اسرائیلی بستیاں فوری طور پر ختم کی جائیں۔
قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کو فلسطینیوں کا تحفظ یقینی بنانا ہو گا، انہیں بنیادی خدمات اور سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور ان کے تمام انسانی حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔
غزہ میں امدادی اقداماتعالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد 860,000 مردوخواتین اور بچوں میں خوراک کے پیکٹ، تیار کھانا، روٹی اور نقد امداد تقسیم کی جا چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں معمول کی بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ 'ڈبلیو ایف پی' اب تک 19 ہزار میٹرک ٹن خوراک غزہ میں پہنچا چکا ہے۔
ادارے نے گزشتہ ہفتوں میں پانچ سال سے کم عمر بچوں اور حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین سمیت 85 ہزار لوگوں میں غذائیت فراہم کرنے والی اشیا بھی تقسیم کی ہیں اور 90 ہزار لوگوں کو نقد امداد دی گئی ہے۔
شمالی غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مزید مراکز قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ لوگ محفوظ طور سے غذائی مدد حاصل کر سکیں اور اس مقصد کے لیے انہیں زیادہ فاصلہ طے نہ کرنا پڑے۔سکولوں کی بحالیعالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جمعے کو غزہ شہر کے ہسپتالوں میں ایک لاکھ لٹر ایندھن تقسیم کیا۔ اس سے ایک روز قبل شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں بھی پانچ ہزار لٹر تیل پہنچایا گیا تھا۔
جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں تعلیمی شراکت دار کم از کم ایک درجن سکول دوبارہ کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ نقل مکانی کرنے والے خاندان بھی گھروں کو واپس آ رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ 15 ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں سکولوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خان یونس اور دیرالبلح میں ان دنوں امدادی شراکت دار تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے ان سکولوں کی صفائی کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نقل مکانی رہے ہیں
پڑھیں:
اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
نیو یارک: اقوام متحدہ نے پہلی بار اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ اکتوبر 2023 سے اسرائیلی افواج نے گھروں، شیلٹرز اور محفوظ مقامات پر بمباری کی، جس میں نصف سے زیادہ متاثرین خواتین، بچے اور بزرگ تھے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سمیت اعلیٰ حکام نے اس جارحیت کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے آگے بڑھانے پر زور دیا۔ کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیلی فوج اور حکام کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کو مکمل یا جزوی طور پر ختم کرنا ہے۔
کمیشن کی سربراہ ناوی پیلی نے کہا کہ بیانات اور کارروائیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ اسرائیل کو اس نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے اس رپورٹ کو "جھوٹا اور توہین آمیز" قرار دے کر مسترد کر دیا۔