لبنان، غزہ اور شام کے متاثرین کیلئے 24ویں امدادی کھیپ روانہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
این ڈی ایم اے کے مطابق اس امدادی کھیپ میں 60 ٹن سامان شامل ہے، جس میں ٹینٹ، ترپال اور گرم خیمے موجود ہیں تاکہ جنگ سے متاثرہ عوام کو شدید موسم میں مدد فراہم کی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِاعظم پاکستان کی ہدایت پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے لبنان، غزہ اور شام کے جنگ زدہ عوام کیلئے امدادی سامان بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں 24ویں امدادی کھیپ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے روانہ کر دی گئی۔ این ڈی ایم اے کے مطابق اس امدادی کھیپ میں 60 ٹن سامان شامل ہے، جس میں ٹینٹ، ترپال اور گرم خیمے موجود ہیں تاکہ جنگ سے متاثرہ عوام کو شدید موسم میں مدد فراہم کی جا سکے۔ اب تک این ڈی ایم اے لبنان، غزہ اور شام کیلئے مجموعی طور پر 1,861 ٹن امدادی سامان روانہ کر چکا ہے، جس میں خوراک، طبی سامان، خیمے اور دیگر ضروری اشیاء شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان ان ممالک کے جنگ زدہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلسل امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں متاثرہ عوام کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈی ایم اے امدادی کھیپ
پڑھیں:
حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب الله لبنان
اپنے ایک بیان میں شیخ علی دعموش کا کہنا تھا کہ امریکہ کیجانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" كی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "شیخ علی دعموش" نے کہا کہ لبنان کی حکومت نے اس غلط فہمی پر انحصار کیا کہ امریکہ و اسرائیل کے خیال میں مزاحمت کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا كہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں تاہم لبنان کو کمزور کرنے والی کسی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ شیخ علی دعموش نے کہا کہ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ فیصلوں، دباؤ، حملوں و جنگ کی دھمکیوں سے مزاحمت کو جھکا سکتا ہے اور ہمیں امریکہ و اسرائیل کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور کر سکتا ہے۔ البتہ وہ حزب الله و امل تحریک کی ثابت قدمی سے حیران رہ گئے اور اس سے بھی زیادہ، مزاحمت کے حامیوں کی ہتھیاروں سے وابستگی نے انہیں حیران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو نقصان پہنچانے کی حکومتی کوششیں اب رک چکی ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت دباؤ یا دھمکیوں سے ختم ہو سکتی ہے، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ جو لوگ مزاحمت کو کمزور سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہ اور بھی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
شیخ علی دعموش نے حکومت کو خبردار کیا کہ فوج کو استقامتی محاذ کے خلاف استعمال نہ کریں اور اسے اپنے ہی عوام کے سامنے نہ کھڑا کریں۔ فوج کا کام ملک پر حملے روکنا، اندرونی امن قائم رکھنا اور استحکام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ عوام سے لڑنا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ قومی سطح پر دفاعی حکمت عملی پر بات چیت ہو اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ہم کوئی ایسا مشورہ قبول نہیں کریں گے جو لبنان کی طاقت کو کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ استقامتی محاذ سے ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر کوئی چالاکی یا ہوشیاری نہیں چلے گی۔ ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ ہماری طاقت اور دفاعی صلاحیتیں، ہم سے چھین کر امریکہ و اسرائیل کے فائدے کے لئے استعمال ہوں۔ ہم یہ بھی قبول نہیں کریں گے کہ لبنان ایک کمزور اور شکست خوردہ ملک بن جائے جس پر آسانی سے اندرونی یا بیرونی حملے کئے جائیں۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ امریکہ کی جانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔