ایک بار پھر ازبکستان میں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں سے ہوا تھا‘ میری نسل کے لوگ بچپن میں جب بھی 1965 کی جنگ کا احوال پڑھتے تھے تو انھیں دو فقرے ضرور سہنا پڑتے تھے‘ رات کی سیاہی میں بزدل دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا اور دوم فیلڈ مارشل ایوب خان نے 10 جنوری 1966 کو جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں میز پر ہار دی۔
بڑے ہوئے تو یہ بھی معلوم ہوا ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کے معاہدے کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا‘ ایوب خان اس وقت تک جسمانی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو چکے تھے‘ ملک میں ان کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو غیرت کا پرچم بنایا اور بدنصیب جذباتی قوم کے سر پر لہرانا شروع کر دیا اور ہم لوگ کیوںکہ ہر جذباتی نعرے اور دعوے کو حقیقت مان لیتے ہیں۔
چناںچہ ہم نے بھٹو صاحب کا پرچم بھی تھام لیا‘ بھٹو پوری زندگی دعویٰ کرتے رہے ’’ میں آپ کو بتاؤں گا تاشقند میں کیا ہوا تھا؟‘‘ اور قوم پوری زندگی بھٹو کی پٹاری کھلنے کا انتظار کرتی رہی لیکن تاشقند میں کیا ہوا قوم کو آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ مزید بڑے ہوئے تو معلوم ہوا معاہدے کے لیے بھارت کی طرف سے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند آئے تھے‘ پاکستان کی طرح معاہدے کے بعد بھارت میں بھی شور ہو گیا‘ شاستری نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی‘ عوام نے وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا۔
شاستری نے خیریت معلوم کرنے کے لیے گھر فون کیا‘ بیٹی نے رو رو کر کہا ’’ باپو آپ نے قوم کی ناک کٹوا دی‘‘ شاستری نے اسے اطمینان دلانے کی کوشش کی‘ بیٹی نے باپ کے بجائے عوامی رائے پر یقین کیا‘ شاستری جی عوام کی غلط فہمی کو دل پر لے گئے‘ معاہدے کی رات انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہوٹل تاشقند میں آنجہانی ہو گئے۔ ہم لوگ مزید بڑے ہوئے تو امیر تیمور کی بائیو گرافی پڑھنا شروع کر دی اور امیر تیمور کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے رومان میں بھی گرفتار ہو گئے ‘یہ رومانس آج تک جاری و ساری ہے اور میں 13اور14فروری کی درمیانی شب ایک بار پھر تاشقند پہنچ گیا۔
تاشقند پاکستان سے بہت نزدیک ہے‘ فلائیٹ صرف اڑھائی گھنٹے میں لاہور سے تاشقند پہنچ جاتی ہے‘ پاکستان اور تاشقند کا ٹائم بھی یکساں ہے‘ پاکستان میں بارہ بجتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تاشقند میں بھی بارہ بج جاتے ہیں‘ وقت کی اس یکسانیت کے بارے میں معلوم ہوا‘ ازبکستان کی حکومت اور عوام پاکستان کو بہت پسند کرتے تھے‘ ازبکستان 29 اگست 1991میں آزاد ہوا‘ آزادی کے بعد معیاری وقت کے تعین کا مرحلہ آیا تو ازبکستان نے چپ چاپ پاکستان کے معیاری وقت کو اپنا معیاری وقت بنا لیا۔
ازبکستان نے 1995 میں اپنی کرنسی ’’ سم‘‘ لانچ کی‘ اس وقت ایک ڈالر 35 روپے میں آتا تھا‘ ازبکستان نے بھی ڈالر کا ایکس چینج ریٹ 35 سم طے کر دیا‘ 1995-96 میں ازبکستان میں 60 ہزار پاکستانی تھے اور یہ لوگ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے لیکن افغانستان میں طالبانائزیشن کے بعد ازبکستان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہو گئے۔
طالبان نے اس دور میں سمرقند اور بخارہ پر قبضے کا اعلان کر دیا تھا اور ازبکستان کی حکومت کا خیال تھا پاکستان اور آئی ایس آئی طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے‘ ازبکستان نے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب تاشقند میں صرف 14 پاکستانی رہ گئے اور ان میں سے بھی 9 سفارتکار تھے‘ یہ اختلافات جنرل پرویز مشرف کے دور تک جاری رہے‘ جنرل مشرف کے دور میں تعلقات دوبارہ بحال ہوئے اور برف آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہو گئی۔
تاشقند ایک دل چسپ شہر ہے‘ شہر انتہائی خوب صورت اور صاف ستھرا ہے‘ ازبک لوگ بھی فطرتاً صاف ستھرے لوگ ہیں‘ یہ گھروں‘ ماحول اور گلی کوچوں کی صفائی کا خصوصی خیال رکھتے ہیں‘ ازبک بچیاں شام کو جھاڑو لے کر گھر سے نکلتی ہیں اور گلی صاف کرتی ہیں‘ تمام دفاتر میں ہفتے کے دن صفائی کی جاتی ہے اور اس میں باس سے لے کر ملازمین تک حصہ لیتے ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر مثالی ہے۔
عوام پورے ملک میں بلا خوف پھرتے ہیں‘ نوجوان لڑکیاں آدھی آدھی رات کو اکیلی گھومتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ ٹریفک رولز پر سختی سے عمل ہوتا ہے‘ آپ وزیر ہوں یا جنرل ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر آپ کو ہر حال میں سزا ہو گی۔
آزادی کے بعد ازبکستان میں بھی طالبانائزیشن شروع ہو گئی تھی‘ ملک میں بم دھماکے اور قتل وغارت گری بھی ہوئی لیکن حکومت نے امن خراب کرنے والے لوگوں کو اڑا کر رکھ دیا‘ ملک میں منشیات‘ اسلحہ اور تبلیغ تینوں پر سخت پابندی ہے‘ یہ ان تینوں ’’جرائم‘‘ پر ملزموں کو سزائے موت تک دے دیتے ہیں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں پر نماز ادا نہیں کی جا سکتی‘ آپ مسجد یا گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔
داڑھی رکھنے پر پابندی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ اس قانون میں نرمی کی جا رہی ہے‘ داڑھی پر پابندی کی وجہ سے مسجدوں کے امام بھی داڑھی کے بغیر نماز پڑھاتے ہیں‘ ملک میں گاڑی چوری کی سزا بھی موت ہے لہٰذا ملک میں گاڑی چوری کا واقعہ نہیں ہوتا‘ حکومت کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسیع اختیارات ہیں اور عدالتیں اس معاملے میں حکومتی کام میں مداخلت نہیں کرتیں۔
ڈرائیونگ لائسنس کے لیے مکینک ہونا ضروری ہوتا ہے‘ حکومت کی کوشش ہوتی ہے صرف ان لوگوں کو لائسنس دیے جائیں جو ایمرجنسی میں گاڑی ٹھیک کر سکیں اور گاڑی کو ورکشاپ تک پہنچا سکیں‘ لوگ محنتی ہیں‘ بالخصوص عورتیں کام کرتی ہیں‘ آپ کو فٹ پاتھ پر خوانچہ فروشوں سے لے کر آفس تک ہر جگہ خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
چارسو تاشقند کا قدیم ترین بازار ہے‘ اس بازار میں مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کی دو ہزار سال پرانی مارکیٹ ہے‘ اس مارکیٹ پر خواتین کا قبضہ ہے‘ یہ سبز رنگ کی گول مارکیٹ ہے جس کے اندر سیکڑوں اوپن دکانیں ہیں اور کاؤنٹر نما دکانوں پر مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کے کنستر اور ٹوکریاں رکھی ہیں‘ چارسو میں فروٹس‘ سبزی اور گوشت کی بھی سیکڑوں دکانیں ہیں۔
ازبکستان کی کرنسی بہت سستی ہے‘ ڈالر کے گورنمنٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بہت فرق ہے‘ حکومت ایک ڈالر کے تیرہ ہزارسم دیتی ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے تیرہ ہزار8 سو سم مل جاتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کراوئیں تو آپ کو تیرہ لاکھ 80 ہزار سم مل جائیں گے‘ میں نے دنیا میں ازبکستان سے زیادہ کسی جگہ کرنسی کی اتنی بے قدری نہیں دیکھی۔
لوگ تھیلوں اور شاپنگ بیگز میں نوٹ ڈال کر پھرتے ہیں‘ افراط زر انتہائی زیادہ ہے‘ آپ کو پانی کی بوتل چار پانچ ہزار سم میں ملتی ہے‘ آپ ایک وقت کا کھانا پچاس ساٹھ ہزار سم میں کھاتے ہیں لیکن افراط زر کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء بہت سستی ہیں‘ ازبکستان میں فروٹ ارزاں اور وافر ہے‘ اناج اور گوشت بھی پاکستان سے سستا ہے‘ کھانے پینے کی اشیاء کی کوالٹی بہت اچھی ہے‘ ملاوٹ اور جعلی اشیاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
لوگ بے انتہا مہمان نواز ہیں‘ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ آپ کو چائے پلائے بغیر نہیں جانے دے گا‘ معاشرہ محفوظ ہے چناںچہ لوگ اجنبیوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ خست امام شہر کا قدیم علاقہ ہے‘ یہ امام کفل ششی کا علاقہ ہے‘ امام صاحب امیر تیمور سے قبل اس علاقے میں آئے تھے اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں داخل کیا تھا‘ امیر تیمور نے خست امام کا مزار بنوایا‘ موجودہ حکومت نے مزار کے سامنے شان دار مسجد بنوائی۔
یہ مسجد بھی عجوبہ ہے‘ خست امام میں حضرت عثمان غنی ؓ کا قرآن مجید بھی زیارت کے لیے موجود ہے‘ ازبک لوگوں کا دعویٰ ہے یہ وہ قرآن مجید ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تھے‘ اسی قسم کا ایک قرآن مجید استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے‘ ان دونوں میں اصل کون سا ہے اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
خست امام کے دائیں بائیں تاشقند کا قدیم شہر واقع ہے‘ یہ شہر کچی مٹی سے بنا ہوا ہے‘ گلیاں تنگ مگر صاف ستھری ہیں‘ ہر گھر میں صحن ہے اور صحن میں انگور کی بیلیں‘ خوبانی‘ آلو بخارہ اور سیب کے درخت ہیں‘ گھروں کے کمرے مستطیل ہوتے ہیں اور صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے ہیں‘ کمروں کے سامنے طویل برآمدہ ہوتا ہے اور برآمدے میں ایک بڑا تخت ہوتا ہے جس پر سارا خاندان کھانا کھاتا ہے۔
تاشقند کے ہر محلے میں ایک سرکاری گھر ہوتا ہے‘ یہ گھر دراصل اولڈ پیپل ہوم ہوتا ہے‘ محلے کے بوڑھے اس گھر میں جمع ہو جاتے ہیں‘ یہ سارا دن یہاں شطرنج اور تاش کھیلتے ہیں‘ گھر میں چھوٹا سا کچن بھی ہوتا ہے‘ یہ اس کچن میں چائے اور کھانے کا بندوبست کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ کھانے کے بعد دعا ان کا معمول ہے۔
یہ قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں‘ رحمت ان کا خدا حافظ ہے‘ یہ رخصت ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو رحمت کہتے ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سلام کرتے ہیں‘ معاشرہ لبرل ہے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں ناک نہیں گھسیڑتے‘ مسجد اور کلب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور کوئی دوسرے کے راستے میں نہیں آ رہا۔ امیر تیمور اپنے ازبکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک کہتا تھا اور اس ملک میں داخل ہونے کے بعد آپ کو تیمور کا دعویٰ غلط نہیں لگتا۔ لوگ اور ماحول دونوں انتہائی خوب صورت اور پرکشش ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ازبکستان میں ازبکستان نے تاشقند میں امیر تیمور جاتے ہیں ملک میں میں بھی ہیں اور ہوتا ہے گھر میں کے بعد ہے اور کر دیا کے لیے
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔