حکومت کے نیشنل ٹیکس پالیسی یونٹ کے قیام کے فیصلے کو سراہتے ہیں، عاطف اکرام شیخ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد : صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے ایف بی آر میں اصلاحات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے نیشنل ٹیکس پالیسی یونٹ کے قیام کے فیصلے کو سراہتے ہیں، ایف بی آرسے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس وصولی کو الگ کرنا ملکی مفاد میں ہے،ایف بی آر سے ٹیکس وصولی اور فیصلے کرنے کے اختیارات کو الگ کرنا ناگزیر تھا ۔ پیر کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ٹیکس جمع کرنیوالے کے فیصلہ ساز ہونے سے کرپشن ،ٹیکس چوری میں اضافہ ہوتا ہے، بزنس کمیونٹی کا طویل عرصے سے ایف بی آر سے فیصلوں کے اختیار کی علیحدگی کا مطالبہ تھا،ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنا، نظام کو آسان بنانا اصلاحات کے رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ وزیر خزانہ کی نگرانی میں نیشنل ٹیکس پالیسی یونٹ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا ،ایف بی آرسے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس وصولی کو الگ کرنا ملکی مفاد میں ہے، پالیسی یونٹ الگ ہونے سے ایف بی آر ٹیکس وصولیوں پر بہتر فوکس کر سکے گا ۔عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے بزنس کمیونٹی کی ٹیکس تجاویز کو بھی زیر غور لایا جائے ،امید ہے ٹیکس پالیسی سازی میں فیڈریشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائیگا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پی آئی اے واجب الادا 20 ارب روپے وصول کرنے میں ناکام
پی آئی اے واجب الادا 20 ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہا، آڈٹ رپورٹ میں دسمبر2024 میں معاملے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
تفصیلات کے مطابق قومی ایئرلائن پی آئی اے واجب الادا 20 ارب 39 کروڑ روپے کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہی۔
ایروناٹیکل چارجز کے بقایا جات کی عدم وصولی پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سخت اعتراض اٹھا دیا ۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ دسمبر 2024 میں اس معاملے کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم پی آئی اے کی جانب سے واجبات وصول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019-20 سے 20 ارب روپے سے زائد کی عدم وصولی سے متعلق آڈٹ پیراز موجود ہیں لیکن ای سی سی اور ایوی ایشن ڈویژن کے ساتھ متعدد اجلاسوں کے باوجود رقم وصول نہیں ہوسکی۔
رپورٹ کے مطابق 30 جون 2024 کو آڈٹ مکمل ہونے تک بھی مذکورہ واجبات وصول نہیں کیے جا سکے تھے۔
آڈٹ رپورٹ میں کہنا تھا کہ پی آئی اے نے واجبات کی وصولی کے لیے مناسب حکمتِ عملی اختیار نہیں کی اور نہ ہی حتمی آڈٹ رپورٹ کی تکمیل تک ڈی اے سی میٹنگ بلائی گئی۔
آڈیٹرز نے اپنی رپورٹ میں معاملہ حل کرنے کے لیے ایوی ایشن ڈویژن سے براہِ راست رابطہ کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ واجب الادا رقم کی وصولی یقینی بنائی جاسکے۔