پیپلز پارٹی جائز بات کرتی ہے تو ن لیگ کے خلاف کیسی ہوئی؟ شازیہ مری
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری—فائل فوٹو
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ فیصلے لیتے ہوئے اگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا تو تشویش ہوتی ہے۔
’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ ن لیگ کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہو گی، ہم کہتے ہیں کہ ن لیگ فیصلے مشاورت سے کرے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال ہو چکا اور سی سی آئی کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی، پیپلز پارٹی جائز بات کرتی ہے تو ن لیگ کے خلاف کیسی ہوئی؟
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ آئینی وفاقی عدالت کا قیام ضروری ہے، آئینی ترامیم پر پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ ملک کی خاطر ہم نے ن لیگ کو سپورٹ کیا، ہماری اور کوئی مجبوری نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ معاملات کو اس نہج پر لے آتی ہے تو ہم رد عمل دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
ملکی سیاست میں ایک بار پھر نئی آئینی ترمیم کے حوالے سے مختلف قیاص آرائیاں جاری ہیں، اس ترمیم میں ماضی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے لیے 18ویں آئینی ترمیم کو بھی تبدیل کرنے سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔
اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا 18ویں ترمیم میں تبدیلی کی جا رہی ہے؟
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، البتہ مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جیسے دفاع وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کا بھی کیا جا تا ہے لیکن دفاعی بجٹ میں صرف وفاق ہی حصہ دیتا ہے، وفاقی حکومت کے پاس معمولی اخراجات کے لیے بجٹ نہیں جبکہ صوبوں کے پاس وسیع بجٹ موجود ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت وسائل کی تقسیم پر تفصیلی بات ہوئی تھی، اس وقت کے حساب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا تھا، اب اگر کچھ فرق آ گیا ہے اور ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر سب کی مشاورت سے اس معاملے کو آگے بڑھایا جا رہا ہو تو وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، اگر دو تہائی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہو گی تو اسی کے بعد ہی ترمیم ہو سکے گی۔
رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ آئین کوئی جامد چیز نہیں، اس میں بہتری کے لیے ترامیم کی جاتی ہیں، اگر وقت کے ساتھ وسائل کی تقسیم میں فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، حکومت فوری طور پر 27ویں ترمیم نہیں لا رہی بلکہ ابھی محض مشاورت اور سیاسی مکالمے کا عمل جاری ہے، تمام جماعتیں متفق ہیں کہ آئینی عدالت یا آئینی بینچ کے قیام سے نظام بہتر ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم کی قیادت میں لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، 27ویں ترمیم پر حمایت کی درخواست
پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا کہنا ہے کہ حکومت نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا ہے اور حمایت مانگی ہے لیکن 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے، 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کے اختیارات پر پیپلز پارٹی نے اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا اب ان اختیارات سے پیچھے ہٹنا نہ مناسب ہوگا اور نہ ممکن ہے، کوئی بھی ترمیم اگر 18ویں ترمیم کے متصادم ہو گی تو اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کا تجویز کردہ مسودہ 6 نومبر کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر غور اور فکر کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا، پیپلزپارٹی پارٹی ہر معاملے کو اپنے اصولی مؤقف کے مطابق دیکھے گی، البتہ عوامی مفاد میں اگر کسی بات پر اتفاق کی گنجائش ہوئی تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 18ویں ترمیم 2010 میں منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے صوبوں کو وسیع اختیارات اور مالی خودمختاری ملی تھی اور پیپلز پارٹی اس ترمیم کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18ویں آئینی ترمیم 26ویں آئینی ترمیم 27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ