27ویں ترمیم آئین کے نمایاں خدوخال کو متاثر کر سکتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
26 ویں آئینی ترمیم کے کامیاب تجربے کے بعد، وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع کر دی ہے جو آئین کے نمایاں خدوخال کو مزید متاثر کر سکتی ہے۔
سابق پی پی پی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا خیال ہے کہ 27ویں ترمیم کا بنیادی مقصد آرٹیکل 243 میں ترمیم ہے، جو مسلح افواج کے کنٹرول اور کمانڈ کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کی تقرری سے متعلق ہے باقی سب کچھ صرف شور وغل ہے جس پر مذاکرات اور دستبرداری ممکن ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے اندر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے درمیان وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر تقریباً اتفاق رائے ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق یاسر قریشی کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان 27ویں ترمیم کے دیگر پہلوؤں پر اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن عدلیہ کو تقسیم کرنے اور اسے زیرنگین بنانے کے اقدامات پر اتفاق رائے ہونے کا امکان ہے۔
26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی پر 27 ویں ترمیم کے اثرات پر بحث اب غیر متعلقہ ہے۔ میرے خیال میں عدلیہ کا کردار اب ایک ربڑ سٹمپ کے طور پر ہے جس کا مقصد ایگزیکٹو کو مزید طاقت اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اگرچہ کچھ سینئر وکلا اب بھی سرکاری حکام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بنچ کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔
جوڈیشل کمیشن جس پر ایگزیکٹو کا غلبہ ہے آئینی بنچ سے کسی جج کو کسی بھی وقت ہٹا سکتی ہے تاہم وفاقی آئینی عدالت میں صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے جہاں ایک بار جج کی تقرری کے بعد وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عہدے پر برقرار رہے گا۔
وکلا کا الزام ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج جو کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ اب آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کے نام پر غور و فکر جاری ہے۔
ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے اتفاق رائے پر مبنی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت تمام سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومتوں اور آئینی اداروں کو ایک وسیع قومی مکالمے میں شامل کرے تاکہ عملی، جامع اور مستقبل کے حوالے سے اصلاحات تیار کی جا سکیں۔
انہوں نے آئینی عدالت کے قیام کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی عدالتیں وفاقی و صوبائی سطح پر ہونی چاہئیں جن میں تمام وفاقی یونٹس کی نمائندگی کرنے والے جج شامل ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئینی عدالت ویں ترمیم ترمیم کے سکتی ہے
پڑھیں:
شک و شبہ نہیں ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، مصطفیٰ نواز کھوکھر
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ شک و شبہ نہیں کہ ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، یہ عدلیہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان سے ہمیں 27ویں آئینی ترمیم کا پتا چلا۔
حکمران اتحاد نے 27 ویں آئینی ترمیم کے منظوری تک تمام ارکان پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کردی۔
انہوں نے کہا کہ آئینی بینچز بنائے تو یہ بیانیہ رکھا کہ انصاف کی فراہمی بہتر ہوگی، ایک ایسا کورٹ بنانے جا رہے ہیں، جس کی مدت 70 سال ہو گی۔
سابق سینیٹر نے مزید کہا کہ وہ چیزیں جن کی آئین نے گارنٹی دی تھی، وہ سبوتاژ کردی گئیں، یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو حکومت کو خوش رکھے اس کے لیے آگے موقع ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ عدلیہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، جن کے فیصلے پسند نہیں آئیں گے ان کو ٹرانسفر کردیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سندھ کے رہنما اور صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ 27ویں ترمیم میں کسی غلط شق کی حمایت نہیں کی جائے گی۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن میں تقرری کے لیے نئی ترامیم لائی جائیں گی، ای سی پی ملک میں خود ایک مذاق بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو ٹریبونل بنائے گئے تھے آپ نے انہیں سبوتاژ کیا، اس کابینہ کی میٹنگ میں کچھ کارکنان کو میں نے روتے دیکھا۔