Islam Times:
2025-06-18@13:36:11 GMT

مودی حکومت آئینی ادارہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے، کانگریس

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

مودی حکومت آئینی ادارہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے، کانگریس

کانگریس کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام طے کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ آئندہ ایک دو دنوں کیلئے ملتوی کر دینی چاہیئے تھی، کیونکہ سپریم کورٹ متعلقہ قانون پر سماعت کرنے والا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق جاری سرگرمیوں کے دوران کانگریس نے مرکز کی مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام طے کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ آئندہ ایک دو دنوں کے لئے ملتوی کر دینی چاہیئے تھی، کیونکہ سپریم کورٹ متعلقہ قانون پر سماعت کرنے والا ہے۔ کانگریس کے خزانچی اجئے ماکن اور پارٹی ترجمان ابھشیک منو سنگھوی نے اس معاملے میں آج پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس دوران ابھشیک منو سنگھوی نے دعویٰ کیا کہ سلیکشن کمیٹی سے چیف جسٹس کو باہر رکھنے کا مطلب ہے کہ یہ حکومت اس آئینی ادارہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کو آج سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ کرنے کی جگہ سپریم کورٹ سے گزارش کرنی چاہیئے تھی کہ معاملے کی سماعت فوری مکمل ہو۔

ابھشیک منو سنگھوی نے الزام عائد کیا کہ موجودہ سلیکشن کمیٹی سپریم کورٹ کے 2 مارچ 2023ء کے اس حکم کی واضح اور براہ راست خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کے انتخاب کے لئے وزیر اعظم، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد اور چیف جسٹس کی موجودگی والی کمیٹی ہونی چاہیئے۔ سنگھوی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں پیر کی شام سلیکشن کمیٹی کی جو میٹنگ ہوئی، اس میں پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی بھی شامل ہوئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میٹنگ میں کیا ہوا ہے، یہ آئندہ 24 یا 48 گھنٹے میں پتہ چل جائے گا۔

نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے سنگھوی نے کہا کہ عدلیہ کو حق ہے کہ وہ قانون بنائے، لیکن سپریم کورٹ کے وسیع مقاصد کو سمجھے بغیر مودی حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون بنایا گیا۔ قانون بنانے کے حق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب وہی قانون بنائے جائیں گے جو حکومت کے موافق ہوں۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ آئندہ 48 گھنٹے میں جب سپریم کورٹ کی سماعت ہو سکتی ہے تو پھر اس میٹنگ کو ملتوی بھی کیا جا سکتا تھا۔ سنگھوی نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ جمہوریت کے جذبات کو بھی درکنار کیا ہے۔ کانگریس کے خزانچی اجئے ماکن نے اس موقع پر کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے اشارہ دیا تھا کہ 19 فروری کو اس معاملے پر سماعت کی جائے گی اور یہ فیصلہ آئے گا کہ کمیٹی کی تشکیل کس طریقے کی ہونی چاہیئے، ایسے حالات میں آج کی میٹنگ کو ملتوی کرنا چاہیے تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: چیف الیکشن کمشنر سلیکشن کمیٹی سپریم کورٹ مودی حکومت کمیٹی کی کی میٹنگ

پڑھیں:

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛  سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث

اسلام آباد:

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس  کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں اہم آئینی سوالات پر بحث کی گئی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر نظر ثانی کیس کی سماعت آج دوبارہ کی،  جس میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں دلائل دیے۔

سماعت کے دوران دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا، جب جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ اگر ان کا تبصرہ دل پر لیا گیا تو وہ اسے واپس لیتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’میری بیوی نے بھی سن لیا، اس نے ڈانٹا کہ کیا کر رہے ہو!‘‘ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تو پھر آپ نے جسٹس کاکڑ کی بات تو نہ مانی۔‘‘ فیصل صدیقی کا جواب اور بھی دلچسپ تھا، انہوں نے کہا کہ ’’نہیں سر، جسٹس کاکڑ کی بات گاجر کی طرح تھی اور بیگم کی ڈنڈے کی طرح‘‘!۔

کیس کے سلسلے میں قانونی دلائل میں فیصل صدیقی نے بتایا کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کی آبزرویشن کے بعد 13 صفحات کی سمری 100 صفحات کے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کا معاملہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے پیچیدہ ہوا۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا مفاد مخصوص نشستوں کے تناظر میں یکساں تھا، اسی لیے انہیں پی ٹی آئی کو ملنے پر اعتراض نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب دونوں جماعتوں کا آئین اور ساخت الگ ہے تو مفاد ایک کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے خود عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہیں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ اکثریتی فیصلے میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل نہیں تھی۔

فیصل صدیقی نے بینچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ یہ نکتہ اہم ہے کہ آزاد امیدواروں کے حصے کی مخصوص نشستیں 3 جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ آیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن لڑا یا نہیں؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ سوال موجود ہی نہیں تھا،تاہم فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو طے کیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ باجود متعدد مواقع کے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 جنوری کا عدالتی فیصلہ سامنے آیا۔ اسی دوران جسٹس جمال خان نے نشاندہی کی کہ دسمبر میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا چکے تھے، لہٰذا یہ مؤقف درست نہیں کہ جنوری کے فیصلے نے امیدواروں کو آزاد کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو 5 سال تک انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے مہلت دی اور سننے کے بعد ہی انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا، جو پارٹی کی ڈی رجسٹریشن کا سبب نہیں بنتا۔

سماعت کے دوران تمام ججز نے آزاد امیدواروں، انتخابی نشان، انٹرا پارٹی انتخابات اور مخصوص نشستوں کی آئینی و قانونی حیثیت پر گہرائی سے سوالات اٹھائے، جب کہ فیصل صدیقی نے تمام نکات پر تفصیل سے دلائل دیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ 13 جنوری کو آیا کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت دکھائی۔  بینچ کا سوال تو یہ ہے انتخابی نشان نہ ہونے پر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لے لیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کا تنازع تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کر لیا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا حق دعویٰ مسئلہ نہیں ہے۔ میں سنی اتحاد کونسل نہ پی ٹی آئی کا حامی ہوں بلکہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہا ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد ڈکلئیر نہیں کر سکتا۔ جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے ہے کہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب جسٹس امین اور جسٹس جمال کے ایک فیصلے میں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جو آزاد تھے انہوں نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا تھا ان کی واپسی کیسے ہو سکتی ہےاصل سوال یہ ہے۔  اس لیے آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ تمام مراحل کے بعد کہ آزاد ارکان نے آپ کو جوائن کرلیا وہاں سے کیس شروع ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو تھا کہ آزاد ارکان نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں، جس پر وکیل نے کہا کہ جی ایسا تھا لیکن اب میں نظر ثانی میں ایسا نہیں کر رہا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اب آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بطور جواب گزار میں اب اپنا موقف تبدیل کر سکتا ہوں، جو مرضی پوزیشن لوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شروع میں کہیں کسی مرحلے پر آپ نے یہ بات نہیں کی کہ انتخابی نشان نہیں ملا، یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ  سنی اتحاد نے نشستیں مانگیں لیکن اکثریتی یا اقلیتی فیصلے میں غلط یا صحیح نشستیں پی ٹی آئی کو دے دیں۔ اس وقت آپ کی پوزیشن تبدیل ہے، اب آپ پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں۔ جب وہ پی ٹی آئی کے رکن بن گئے، تو آپ کے نہیں رہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ  میں نہ تو ایس آئی سی کو نہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میں بطور آفیسر آف کورٹ اکثریتی فیصلے کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میرا حق دعویٰ اب ایشو نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست فریق مقدمہ بننے کی تھی اس بارے میں قانون کیا کہتا یہ آپ کو اچھی طرح پتا ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ اپیل کی سطح پر ازخود نوٹس لے کر رول 94 کو سنے بغیر کالعدم کر دیا ۔

وکیل نے کہا کہ جی اس حوالے سے جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلہ ہے ۔  11 ججوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا فیصلہ غیر قانونی تھا ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن 11 ارکان نے کہا وہ اتفاق صرف ان ارکان تک تھا جنہوں نے کاغذات نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی کا دیا ۔ صرف 14 پی ٹی آئی امیدوار تھے جنہوں نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا ، لیکن ہم نے یہ فرض کیا کہ انہوں نے جمع کرایا ہو اور وہ ادھر ادھر ہوگیا ہو ۔ اس وجہ سے ہم نے 39 ارکان کو تصور کیا ۔

وکیل نے کہا کہ نمبر پر اختلاف ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں تھا ۔

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات
  • بغیر فل کورٹ میٹنگ رولز تبدیلی خلاف قانون ہے،جسٹس بابر ستار
  • شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی، ملک بھر میں دعائیہ تقاریب
  • بغیر فل کورٹ میٹنگ رولز تبدیلی خلاف قانون ہے. جسٹس بابر ستار
  • نریندر مودی کا ہر صرف ایک وعدہ انتخابی جملہ ثابت ہوا، کانگریس
  • بی جے پی غریبی نہیں غریبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے، دیویندر یادو
  • ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛  سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان