قانون سازی پر کنفیوژن سے نکلنے کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے، چیئرمین قائمہ کمیٹی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
قانون سازی پر کنفیوژن سے نکلنے کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے، چیئرمین قائمہ کمیٹی WhatsAppFacebookTwitter 0 19 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اب کی بار بھی بل اور منی بل کنفیوژن ہے، شبلی فراز نے کہا کہ کوئی بھی چیز جوٹیکسیشن سے متعلق ہو وہ منی بل ہے، ججز سے متعلق بل پر بھی کہا گیا یہ منی بل نہیں، قانون سازی پر کنفیوژن سے نکلنے کیلئے ہی پارلیمنٹ موجود ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کی صدارت سلیم مانڈوی والا نے کی۔ وزیر خزانہ اورنگزیب اور چیئرمین ایف بی اجلاس میں شریک تھے، قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025غور کیلئے پیش کیا گیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ آئین میں بل سے متعلق بہت واضح تعریف موجود ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئین ریڈ سے متعلق تو کوئی ٹیکس تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ جس پر وزیرخزانہ اور چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ ٹیکس میں تبدیلی ہورہی ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل سے متعلق صورتحال واضح نہیں ہے، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بل سے متعلق اٹارنی جنرل سے صورتحال پرمقف لے لیں، آئین میں لکھا ہے کہ بل پراسپیکر کی رائے لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بینکنگ کمپنیز سے متعلق ٹیکس ریٹ تبدیل کئے گئے، سال 2022 بینکنگ کمپنیز سے متعلق ریٹ 39 فیصد تھے، 2025 سے بینکنگ کمپنیز کیلئے 44 فیصد مقرر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ بینکنگ کمپنیز کیلئے اب ٹیکسز سالانہ بنیادوں پر مقررکئے گئے، سال2026 میں ٹیکس ریٹ بتدریج 43فیصد سال2027 میں 42 فیصد ہوگا۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بینکوں نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے شرح مقرر تھی، حکومت کو پرانے قانون کے تحت 70 ارب سالانہ ٹیکس کا نقصان تھا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چیئرمین ایف بی آر نے قائمہ کمیٹی نے کہا کہ موجود ہے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 ستمبر2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ۔ آئینی بنچ میں زیر سماعت سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں جمعرات کو ٹیکس پیئرز کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ٹیکس پیئرز کے وکیل خالد جاوید نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں۔ ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان۔(جاری ہے)
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹیرین عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کے مسائل کیا ہیں۔
وکیل خالد جاوید نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلا سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلا نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں لیکن کمیٹیوں کے کام کے کیا نتائج ہوتے ہیں، یہ آج تک نہیں بتایا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔