Express News:
2025-09-18@21:30:23 GMT

رمضان پیکیج

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کئی جگہوں پر آج کل آپ کو رمضان بازار نظر آ رہے ہوں گے، آپ کے معمول کے سپر اسٹور آج کل اشتہار نشر کر رہے ہوں گے کہ ان کے پاس رمضان پیکیج دستیاب ہیں۔ چند برس سے یہ رواج سا بن گیا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر کوئی اس کام میں لگ جاتا ہے اور ثواب کمانے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔

مختلف سپر اسٹورز پر دستیاب ان رمضان پیکیج کو کبھی ایک بار خرید کر اپنے لیے بھی استعمال کر کے دیکھیں تو آپ پر ساری قلعی کھل جائے گی اور اس کے بعد آپ کسی کو ریڈی میڈ رمضان پیکیج شاید نہ دیں ۔ اس رمضان پیکیج کی تفصیل کچھ یوں ہوتی ہے۔

آٹا، چاول، چینی، شربت کی ایک دو بوتلیں، گھی، کوکنگ آئل ، بیسن، چنے، چاٹ مسالہ، کھجور، بیسن، چائے کی پتی، دو ایک دالیں ۔ یہ پیکٹو ں میں بند ہوتے ہیں اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ کو فیس بک پر بھی ایسے اشتہارات نظر آئیں گے اور مجھے Whatsapp پر بھی پیغامات آئے ہیں کہ اگر مجھے اس نیکی کے کام میں دلچسپی ہو تو میں فلاں فلاں بندے کو اتنی رقم فی پیکٹ بھجوا دوں ، وہ بندہ پانچ سو پیکٹ بانٹنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں کسی غریب کے گھر میں راشن بھجوانے کا کتنا اجر ہے اور اس کے عوض جنت میں کون کون سے درجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی کے لیے اس بات کا تعین نہیں کر سکتا ہے کہ اس کے اعمال اور نیکیوں کے عوض اس کے لیے جنت میں کن درجات کا وعدہ کیا گیا ہے ۔

… سب سے پہلے تو یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا رمضان میں پکوڑے، چاٹ وغیرہ کھانا، کسی کے لیے بھی لازمی ہے؟کیا ان غریب گھرانوں کو سال کے باقی گیارہ مہینے غربت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑتا اور انھیں راشن کی ضرورت نہیں ہوتی؟کیا ہم صرف ماہ رمضان سے پہلے یا اس کے دوران ہی زکوۃ ادا کر سکتے ہں اور باقی سارا سال نہیں؟کیا رمضان کے فورا بعد آنے والی عید پر ان غرباء کی کوئی ضروریات نہیں ہوتیں؟

بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنی زکوۃ کو سارے سال پر پھیلا کر مستحقین کو تلاشیں ، اپنے خاندان میں، محلے میں، پڑوس میں، اپنے گاؤں میں اور اپنے ارد گرد سیکڑوںمستحقین ہمیں مل جائیں گے۔ اپنی جیب یا پرس میں ہر وقت اپنی زکوۃ کے حساب کی رقم ساتھ رکھیں، جہاں کوئی مستحق نظر آئے، اسے اس میں سے کچھ دے دیں، گن کر یا بے گنے۔ کسی سے کبھی پوچھ لیا کریں ، تنہائی میں کہ اسے کچھ چاہیے ہو تو آپ کو بتائے۔ اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب نصاب یا صاحب حیثیت بنایا ہے تو اس لیے کہ آپ کے دل میں اس کی باقی مخلوق کا درد ہو، آپ ان کا خیال رکھیں ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے۔

ماہ رمضان کے لیے لوگوں کو سامان دے رہے ہیں تو اس بات کا بھی خیال رہے کہ اس میں اس خاندان کے افراد کی تعداد کے مطابق عید کے لیے کپڑے خرید کر دے دیے جائیں ، ساتھ سلائی کے لیے رقم دے دی جائے، یہ ممکن نہ ہو تو عید کے کپڑوں کے لیے رقم دے دی جائے اور اگر اس کی سکت نہ ہو تو اپنی الماریاں کھولیں اور ان میں ایسے لباس دیکھیں جو ان الماریوں میں برس ہا برس سے لٹک رہے ہیں، انھیں پہننے کی باری نہیں آتی یا وہ آپ کو پورے نہیں ہیں مگر آپ نے اس امید پر رکھ چھوڑے ہیں کہ ایک نہ ایک دن آپ ان میں پورے آسکیں گے۔

آپ ذرا سوچیں ، اگر آپ غریب ہوں، ماہ رمضان کی آمد ہو او ر آپ کے گھر ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ تین یا اس سے بھی زائد لوگ رمضان پیکیج بھجوا رہے ہوں ۔ آپ کے لیے اس میں موجود بہت سی اشیاء غیر ضروری ہوں ، انتہائی ضرورت کی چیزوں کا فقدان ہو تو آپ ان پیکیج کا کیا کریں گے؟ فالتو چیزوں کو لے کر واپس انھی دکانوں پر جائیں گے جہاں سے وہ چیزیں خریدی گئی ہیں۔

کسی غریب کو رمضان پیکیج دینا ہو، کسی کی بیٹی کی شادی یا کسی کی بیماری میں اس کی مدد کرنا ہو تو اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ اسے نقد رقم دیں۔ جتنی آپ کی زکوۃ بنتی ہے، جب آپ کسی گروپ کی صورت میں کام کررہے ہوں اور رمضان پیکیج دے رہے ہوں، بہتر ہے کہ آپ سب مل کو وہ رقم جمع کریں اور دو چار خاندانوں کو اتنا دے دیں کہ وہ سکون سے ماہ رمضان بھی گزار سکیں اور عید بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان پیکیج ماہ رمضان ان پیکیج رہے ہوں کے لیے

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری کا مطالبہ
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage