Express News:
2025-11-05@03:13:29 GMT

رمضان پیکیج

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کئی جگہوں پر آج کل آپ کو رمضان بازار نظر آ رہے ہوں گے، آپ کے معمول کے سپر اسٹور آج کل اشتہار نشر کر رہے ہوں گے کہ ان کے پاس رمضان پیکیج دستیاب ہیں۔ چند برس سے یہ رواج سا بن گیا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر کوئی اس کام میں لگ جاتا ہے اور ثواب کمانے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔

مختلف سپر اسٹورز پر دستیاب ان رمضان پیکیج کو کبھی ایک بار خرید کر اپنے لیے بھی استعمال کر کے دیکھیں تو آپ پر ساری قلعی کھل جائے گی اور اس کے بعد آپ کسی کو ریڈی میڈ رمضان پیکیج شاید نہ دیں ۔ اس رمضان پیکیج کی تفصیل کچھ یوں ہوتی ہے۔

آٹا، چاول، چینی، شربت کی ایک دو بوتلیں، گھی، کوکنگ آئل ، بیسن، چنے، چاٹ مسالہ، کھجور، بیسن، چائے کی پتی، دو ایک دالیں ۔ یہ پیکٹو ں میں بند ہوتے ہیں اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ کو فیس بک پر بھی ایسے اشتہارات نظر آئیں گے اور مجھے Whatsapp پر بھی پیغامات آئے ہیں کہ اگر مجھے اس نیکی کے کام میں دلچسپی ہو تو میں فلاں فلاں بندے کو اتنی رقم فی پیکٹ بھجوا دوں ، وہ بندہ پانچ سو پیکٹ بانٹنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں کسی غریب کے گھر میں راشن بھجوانے کا کتنا اجر ہے اور اس کے عوض جنت میں کون کون سے درجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی کے لیے اس بات کا تعین نہیں کر سکتا ہے کہ اس کے اعمال اور نیکیوں کے عوض اس کے لیے جنت میں کن درجات کا وعدہ کیا گیا ہے ۔

… سب سے پہلے تو یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا رمضان میں پکوڑے، چاٹ وغیرہ کھانا، کسی کے لیے بھی لازمی ہے؟کیا ان غریب گھرانوں کو سال کے باقی گیارہ مہینے غربت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑتا اور انھیں راشن کی ضرورت نہیں ہوتی؟کیا ہم صرف ماہ رمضان سے پہلے یا اس کے دوران ہی زکوۃ ادا کر سکتے ہں اور باقی سارا سال نہیں؟کیا رمضان کے فورا بعد آنے والی عید پر ان غرباء کی کوئی ضروریات نہیں ہوتیں؟

بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنی زکوۃ کو سارے سال پر پھیلا کر مستحقین کو تلاشیں ، اپنے خاندان میں، محلے میں، پڑوس میں، اپنے گاؤں میں اور اپنے ارد گرد سیکڑوںمستحقین ہمیں مل جائیں گے۔ اپنی جیب یا پرس میں ہر وقت اپنی زکوۃ کے حساب کی رقم ساتھ رکھیں، جہاں کوئی مستحق نظر آئے، اسے اس میں سے کچھ دے دیں، گن کر یا بے گنے۔ کسی سے کبھی پوچھ لیا کریں ، تنہائی میں کہ اسے کچھ چاہیے ہو تو آپ کو بتائے۔ اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب نصاب یا صاحب حیثیت بنایا ہے تو اس لیے کہ آپ کے دل میں اس کی باقی مخلوق کا درد ہو، آپ ان کا خیال رکھیں ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے۔

ماہ رمضان کے لیے لوگوں کو سامان دے رہے ہیں تو اس بات کا بھی خیال رہے کہ اس میں اس خاندان کے افراد کی تعداد کے مطابق عید کے لیے کپڑے خرید کر دے دیے جائیں ، ساتھ سلائی کے لیے رقم دے دی جائے، یہ ممکن نہ ہو تو عید کے کپڑوں کے لیے رقم دے دی جائے اور اگر اس کی سکت نہ ہو تو اپنی الماریاں کھولیں اور ان میں ایسے لباس دیکھیں جو ان الماریوں میں برس ہا برس سے لٹک رہے ہیں، انھیں پہننے کی باری نہیں آتی یا وہ آپ کو پورے نہیں ہیں مگر آپ نے اس امید پر رکھ چھوڑے ہیں کہ ایک نہ ایک دن آپ ان میں پورے آسکیں گے۔

آپ ذرا سوچیں ، اگر آپ غریب ہوں، ماہ رمضان کی آمد ہو او ر آپ کے گھر ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ تین یا اس سے بھی زائد لوگ رمضان پیکیج بھجوا رہے ہوں ۔ آپ کے لیے اس میں موجود بہت سی اشیاء غیر ضروری ہوں ، انتہائی ضرورت کی چیزوں کا فقدان ہو تو آپ ان پیکیج کا کیا کریں گے؟ فالتو چیزوں کو لے کر واپس انھی دکانوں پر جائیں گے جہاں سے وہ چیزیں خریدی گئی ہیں۔

کسی غریب کو رمضان پیکیج دینا ہو، کسی کی بیٹی کی شادی یا کسی کی بیماری میں اس کی مدد کرنا ہو تو اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ اسے نقد رقم دیں۔ جتنی آپ کی زکوۃ بنتی ہے، جب آپ کسی گروپ کی صورت میں کام کررہے ہوں اور رمضان پیکیج دے رہے ہوں، بہتر ہے کہ آپ سب مل کو وہ رقم جمع کریں اور دو چار خاندانوں کو اتنا دے دیں کہ وہ سکون سے ماہ رمضان بھی گزار سکیں اور عید بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان پیکیج ماہ رمضان ان پیکیج رہے ہوں کے لیے

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے