بحث آج بھی جاری ہے کہ 2022 ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لائی جاتی تو ان کی حکومت اپنی بری کارکردگی کے سبب اپنے ہی بوجھ تلے دب کر گر جاتی، مقبولیت کا بت بھی پاش پاش ہو جاتا ہے۔ حقائق کے جائزے سے پتہ چلتا ہے یہ سوچ محض خام خیالی ہے۔ فوج نے پراجیکٹ عمران 1990 ء کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے شروع کیا تھا لیکن مشرف کے مارشل لا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو گئی۔ دوسرے فوجی آمروں کی طرح مشرف بھی سخت بے عزت ہو کر اقتدار سے رخصت ہوئے تو فطری طور پر ادارے کو اس کا سبب بننے والے سیاسی عناصر پر غصہ تھا۔ 2011 ء میں جنرل کیانی کے دور میں آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے یہ پراجیکٹ ایک بار پھر پوری رفتار سے شروع کیا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں جنرل ظہیر السلام نے بدنام زمانہ دھرنوں کے ذریعے عروج پر پہنچا دیا۔ اسی عرصے میں سی پیک اور دیگر بڑے ترقیاتی کاموں نے حکومت مخالفین کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ آئی ایم ایف کو الودع کہنا اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ ججوں سے مل کر حکومت گرا دی گئی۔ میڈیا کو پی ٹی آئی کے سوا دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو کرپٹ اور غدار کہنے کی ہدایات بہت پہلے ہی دی جا چکی تھیں۔ اس حوالے سے جنرل عاصم باجوہ کا کردار کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 2018ء میں گن پوائنٹ پر پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید، جنرل آصف غفور پر مشتمل گینگ پراجیکٹ کامیاب بنانے کے لیے ہر طرح کے ناجائز ہتھکنڈوں پر تل گیا۔ عدالتیں ٹائوٹ ججوں سے بھر کر 2030ء تک کے لیے فول پروف بندوبست کر لیا گیا۔ پلان اوپن تھا باجوہ جائے گا تو فیض حمید آئے گا اور کئی سال تک رہے گا۔ آصف غفور کا نام ڈی جی آئی ایس آئی گونجنا شروع ہو گیا۔ نواز شریف سے زرداری تک سب کے لیے جیل لکھ دی گئی۔ فوج اور عمران خان، مولانا فضل الرحمن کو بھی گرفتار کرنا چاہتے تھے مگر ایک آدھ بار نیب کے نوٹس کے ذریعے لٹمس ٹیسٹ کر کے رک گئے۔ ایک پیج کی حکومت میں کوئی غیرت تھی نہ حمیت، امریکہ جا کر مقبوضہ کشمیر فارغ کر آئے، پاکستان کو پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ڈالا۔ فوجی قیادت کو اوپر تلے جھٹکوں سے جلد اندازہ ہو گیا کہ عمران خان حکمرانی والا میٹریل نہیں۔ کہاں دھرنے، دنگے، برے القابات دینے کا شوقین لاابالی رن مرید اور کہاں وزیر اعظم کا باوقار اور سنجیدہ عہدہ، خرابی حد سے زیادہ بڑھی تو فوج دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ رابطے رکھنے اور ڈیل کرنے پر مجبور ہو گئی۔ جنرل فیض حمید کی قبل از وقت جانشینی نے ادارے کے اندر بھی مسائل کھڑے کر دئیے۔ باجوہ اور فیض دونوں عمران کے ساتھ تھے ایک مزید توسیع چاہتا تھا دوسرا آرمی چیف کے عہدے پر آنا چاہتا تھا۔ دونوں اپنی اپنی گیم لگا رہے تھے۔ جنرل فیض حمید نے آصف زرداری کو پیشکش کی تھی کہ صدراتی نظام کے لیے آئین بدلا جائے تو پہلا صدر عمران خان ہو گا، دوسرا پیپلز پارٹی سے لیں گے۔ زرداری کو خوب اندازہ تھا کہ عمران بااختیار صدر اور فیض حمید آرمی چیف بن گئے تو پھر ان سے پیچھا چھڑانا، ناممکن ہو جائے گا۔ زرداری نے تمام اہم سیاستدانوں کو منصوبے سے آگاہ کیا۔ اسی دوران اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو گئے۔ اسی شر سے خیر برآمد ہوا۔ عمران، باجوہ، فیض تینوں فارغ ہو گئے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ فیض حمید آرمی چیف بن جاتے تو ماضی کی روایات کے عین مطابق سب سے پہلے اپنے محسن عمران خان سے نجات حاصل کرتے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ملک کو نادہندگی کے دھانے پر لے آئی، پاکستان خوفناک عالمی تنہائی کا شکار تھا۔ جنرل فیض حمید آرمی چیف بن جاتے تو انتقامی کارروائیوں کا ہولناک دور شروع ہو جانا تھا۔ پراجیکٹ عمران اتنا گہرا اور زہریلا ہے کہ آج تک آئے روز نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اس کے حامی کئی جنرل اور جج رسوا ہو کر تاریخ کے کوڑے دان میں جا گرے لیکن اندرون و بیرون ملک سازشیں آج بھی جاری ہے۔ شہباز حکومت نے نہ صرف ملک کو نادہندگی سے بچایا بلکہ سفارتی طور پر بھی متحرک کر دیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے نو مئی جیسے سنگین واقعات کے باوجود غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جسے بعض حلقے کمزوری یا دو عملی بھی کہتے ہیں۔ عمران، باجوہ اور فیض کو یاد کر کے حساب لگائیں نو مئی جیسا واقعہ اس دور میں ہوا ہوتا تو ریاست کا ردعمل کیا ہونا تھا۔ شہباز حکومت اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی کئی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ غلط تھا درست نہیں۔ عمران خان نے تو وہ کلٹ پیدا کر دیا ہے کہ اگر ان کے دور میں خدا نخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا تو یوتھیوں نے کہنا تھا دیکھا خان نے ڈکٹیشن نہیں لی۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان اور اس کے 23 کروڑ عوام رل جاتے۔ ملک کو کسی بہت بڑے حادثے سے بچانے کے لیے عمران کو ہٹانے کے بعد دوسری جماعتوں کا سامنے آنا آپشن نہیں مجبوری بن چکا تھا۔ نیا پاکستان کا تجربہ بُری طرح سے ناکام ہونے کے باوجود ہائبرڈ نظام آج بھی چل رہا ہے۔ اقتدار اور اختیارات میں سول حکمرانوں کا حصہ گھٹائے جانے کا سلسلہ رکنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جنرل فیض حمید فیض حمید ا ا رمی چیف کی حکومت کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی رہنماوں نے عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد کی تصدیق کر دی
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے تصدیق کردی ہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دونوں بیٹے پاکستان آرہے ہیں۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق عمران خان کی بہن علیمہ خان، پارٹی رہنما سلمان اکرم راجا اور بیرسٹر علی ظفر نے سلمان اور قاسم کے پاکستان آنے کی تصدیق کردی۔انہوں نے کہا کہ دونوں بیٹوں کی بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں دونوں بیٹوں سے ملاقات کی پٹیشن دائر کر رہے ہیں۔وکلا نے کہا کہ دونوں بیٹوں کی پاکستان آمد اور ان کے قیام کی تفصیلات فوری نہیں بتا سکتے۔
بابوسرٹاپ پر سیلابی ریلے میں بہنے والی ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش 2 دن بعد مل گئی
علیمہ خان نے کہا کہ دونوں بیٹوں کی والد سے ملاقات آئینی حق ہے، ہم چاہتے ہیں بیٹوں کی ملاقات میں کوئی قانونی رکاوٹ نا ہو، ہائی کورٹ سے ملاقات کی اجازت کی پٹیشن کسی بھی وقت دائر ہوسکتی ہے۔
اڈیالہ جیل کے باہر بیرسٹر علی ظفر، علیمہ خان و دیگر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں سلمان اکرم راجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم صبح دس بجے کے اڈیالہ جیل آئے ہیں ابھی تک اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات ہیں فیملی اور وکلاء سماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، آئین کا تقاضا ہے ٹرائل اوپن ہو لیکن ٹرائل اندر ہو رہا ہے اور وکلاء کو باہر بٹھایا ہوا ہے۔
کمبوڈیا اور تھائی لینڈکے درمیان متنازع سرحدی علاقے میں شدید جھڑپیں ،متعدد شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں میں بھی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، میڈیا کو بھی روکا ہوا ہے آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، شاہ محمود قریشی کے خلاف ابھی 8 سے نو مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ ان مقدمات میں بھی گرفتار ہیں، یہ غلط بات ہے کہ شاہ محمود قریشی پارٹی کو لیڈ کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کا عہدہ قائم ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا ٹرائل میڈیا، فیملی اور وکلاء کے بغیر ہو، اندر جرح ہورہی ہے گواہ پیش ہو رہے ہیں، یہ ٹرائل غیر قانونی، غیر جمہوری عمل ہے۔
چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کی بنگلہ دیش کے وزیرکھیل آصف محمود سے ملاقات،کرکٹ کے فروغ و ایمپائرز ڈویلپمنٹ پروگرامز کیلئے تعاون پر اتفاق
علیمہ خان نے بھی اس موقع پر گفتگو میں کہا کہ توشہ خانہ ٹو ناجائز کیس ہے، ہمیں نہیں معلوم اندر کیا ہو رہا ہے، ہم اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں کس چیز کا خوف ہے، یہ صرف ٹکریں مار رہے ہیں، جب تک بانی کو رہائی نہیں ملتی ہم کھڑے رہیں گے یہ لوگ ہمیں ڈرا نہیں سکتے۔
مزید :