عمران خان آئے گا سب ٹھیک کرے گا، نظریات کو قید نہیں کر سکتے، وزیراعلیٰ کے پی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
پشاور:
وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ عمران خان آئے گا سب ٹھیک کرے گا، ریاست کو بھی کہتا ہوں نظریات کو قید نہیں کر سکتے۔
خیبر پختونخوا گیمز 2025 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ اصول، اخلاقیات اور نظریات زندگی کا حصہ ہے، آج وہ شخص جس کو بے گناہ قید کیا ہوا ہے وہ ہمارے درمیان موجود ہے، عمران خان قوم کے دلوں میں ہے وہ نظریہ سوچ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا گیمز آغاز ہوگیا ہے، تقریباً 2500 کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں، جو گیمز میں سونے کا تمغہ لے گا ہر ماہ 25 ہزار روپے دیں گے، کھیل میں ہار جیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
قبل ازیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے قیوم اسٹیڈیم پشاور سے رنگا رنگ تقریب میں خیبر پختونخوا گیمز 2025 کا آغاز کیا۔ تقریب میں صوبائی کابینہ اراکین، پارلیمنٹیرینز، سرکاری حکام، کھلاڑیوں اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
کھلاڑیوں کی تعداد اور مقابلوں کے لحاظ سے یہ صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا یونٹ ہے جس میں مجموعی طور پر 2380 کھلاڑی ایونٹ میں مد مقابل ہوں گے جن میں 1043 خواتین کھلاڑی شامل ہیں۔
صوبے کے سات ریجنز سے کھلاڑی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایونٹ کے تحت مرد کھلاڑیوں کیلئے 16 اور خواتین کیلئے 12 گیمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
مقابلے پشاور اسپورٹس کمپلیکس، عبد الولی خان اسپورٹس کمپلیکس چارسدہ، پشاور بورڈ اسپورٹس گراونڈ، حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس، پاکستان اسپورٹس بورڈ کوچنگ سینٹر، پی ایس بی ہال، پشاور یونیورسٹی اور کوہاٹ اسپورٹس کمپلیکس میں ہوں گے۔
گیمز میں اتھلیٹکس، فٹبال، ہاکی، والی بال، باسکٹ بال، کراٹے، تائیکوانڈو، باکسنگ، اسکواش، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، جمناسٹک، تھروبال، جوڈو، ووشو اور ہینڈ بال شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا گیمز سے خطاب میں وزیر کھیل سید فخر جہان کا کہنا تھا کہ خیبر گیمز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں، جو بہتر کھیلے گا ماہانہ 25 ہزار روپے دیں گے، حکومت کو ایک سال ہوا سب سے زیادہ کھیلوں کے مقابلے ہوئے۔
صوبائی وزیر کھیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کھیلوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، ڈیرہ جات اور پولو کے مقابلے کریں گے، ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم تیار ہے اور کوشش ہے زلمی کے تمام میچز پشاور میں ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا گیمز اسپورٹس کمپلیکس
پڑھیں:
نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کا اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کے نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا۔ حلف برداری کی تقریب میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے مرکزی صدر شمس الرحمٰن سواتی نے نومنتخب عہدیداران سے حلف لیا۔
منتخب عہدیداران میں جمشید خان صدر، سمیع اللہ جنرل سیکرٹری، مہر علی ہوتی سینئر نائب صدر، فلک تاج سینئر نائب صدر، ملک ہدایت نائب صدر، اور فضل اکبر خان چیف آرگنائزر شامل ہیں۔
اس موقع پر مرکزی صدر شمس الرحمن سواتی نے نومنتخب مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
موجودہ ظالمانہ، فرسودہ اور گلے سڑے نظام نے مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ پاکستان کے ساڑھے آٹھ کروڑ مزدوروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، مزدور تحریک کمزور ہو چکی ہے، اور محض روایتی مطالبات و احتجاج سے مزدور اپنا حق حاصل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مزدور، کسان اور ملازمین اس نظام کے خلاف متحد ہوں۔ 21، 22 اور 23 نومبر کو مینارِ پاکستان لاہور کے سائے میں متحد ہو کر شریک ہوں، اور حافظ نعیم الرحمٰن کی ‘‘بدلو نظام کو۔۔۔ تحریک’’ کا حصہ بنیں۔
شمس الرحمن سواتی نے مزید کہا کہ:
آج کروڑوں مزدور کم از کم اجرت اور سماجی بہبود کے حق سے محروم ہیں۔ مزدوروں کے بچے تعلیم سے، بیمار علاج سے، اور اکثریت سر چھپانے کی چھت سے محروم ہے۔ سرکاری ملازمین کو ملازمتوں کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، منافع بخش اداروں کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے، اور تعلیمی ادارے و اسپتال بھی فروخت کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام ٹریڈ یونینز، فیڈریشنز، اور ملازمین و کسانوں کی تنظیمیں متحد ہو کر اس ظالمانہ نظام کی بیخ کنی کریں۔
مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے اس گٹھ جوڑ کو توڑیں، اور ایک دیانتدار، امانتدار اور خدمت گزار قیادت کے ساتھ مل کر اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی ہم نے کوتاہی برتی تو کچھ باقی نہیں بچے گا۔
غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ظلم کے نظام کے خلاف عظیم الشان جدوجہد برپا کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کو صنعتی و زرعی ترقی کا ماڈل بنایا جا سکے، جہاں روزگار کے مواقع میسر ہوں، عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو، اور پسے ہوئے طبقات کو باعزت زندگی نصیب ہو۔