ماہرین نےعوامی فائدے اور قومی سلامتی کیلئے نئے صوبوں کا قیام ناگزیرقراردیدیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) میں بدھ کے روز حکومت اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے ایک مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے میں سیاستدانوں، عوامی پالیسی کے ماہرین، اساتذہ اور میڈیا کے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مکالمے میں اویس احمد غنی، سابق گورنرخیبر پختونخوا اوربلوچستان شکیل درانی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس او پی آر ای ایس ٹی اشتیاق احمد خان، سابق وفاقی سیکرٹری دانیال عزیز، سابق وفاقی وزیرمحمد حسن، سابق سفیر زبیدہ جلال، سابق وفاقی وزیر سفیر آصف درانی، افغانستان کے لیے سابق خصوصی نمائندہ حافظ احسن احمد، کارپوریٹ اور قانونی وکیل ڈاکٹر شوکت سڈل، معروف قانون دان مرتضیٰ سولنگی، سابق نگراں وزیر اور نوید کشف، سی ای او دنیا ٹی وی نے خطاب کیا۔
مقررین نے ملک میں انتظامی اور حکومتی مسائل کے حل کے لیے ایک قدرتی حل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئے صوبوں کا قیام عوامی فائدے اور قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
مکالمے میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کا صوبہ 196 ممالک سے زیادہ بڑا ہے، اس لیے اگر موجودہ تنازعات کا حل نکالنا ہے تو سرحدوں کا از سر نو تعین اور وسائل کی تقسیم ضروری ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
شرکا نے کہا کہ کچھ ممکنہ اختیارات میں موجودہ انتظامی یونٹس کو نئے صوبوں میں تبدیل کرنا یا مختلف اضلاع کو ملا کر نئے صوبے بنانا شامل ہیں۔ تاہم، اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ مقامی سیاسی اشرافیہ ہے جو نئے صوبوں کے قیام کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ اسی طرح علاقائی سیاسی جماعتیں بھی مرکزی جماعتوں سے متفق نہیں ہیں، جس کے باعث اس مسئلے کو حل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
مکالمے میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو قیادت فراہم کرنی چاہیے اور ایک کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے تاکہ نئے صوبوں کے قیام پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد عملی اقدامات کیے جا سکیں۔
آئی پی آر آئی کے صدرسفیر ڈاکٹر رضا محمد نے اس مکالمے کا آغاز کیا جبکہ اس کی میزبانی ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ نے کی، جنہوں نے نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت کے پیچھے انتظامی، اقتصادی اور سیاسی عوامل پر روشنی ڈالی۔
مکالمے میں شریک افراد نے کہا کہ اگر افغانستان، انڈونیشیا اور ترکی جیسے ممالک میں 34، 38 اور 81 صوبے ہو سکتے ہیں، تو پاکستان میں بھی مزید صوبے بنائے جانا چاہیے۔
اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ حکومتی نظام میں مؤثر مقامی حکومتوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے انتظامی مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، اور مالی وسائل کی غیر واضح تقسیم بھی موجودہ بحران کا ایک بڑا سبب ہے۔
تجزیہ کاروں نے رائے دی کہ نئے صوبے بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو قیادت کرنی ہوگی، نئے انتظامی ڈھانچے سے عوامی سہولیات میں نمایاں بہتری متوقع ملے گا۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے بہتر طرزِ حکمرانی ممکن ہوگی۔
مکالمے میں کہا گیا کہ پاکستان میں صوبوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم، اضافہ ضروری ہے، انتظامی ڈویژنز کو صوبوں میں بدلنے سے گورننس کی کارکردگی بہتر ہوگی، وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور انتظامی مسائل سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ماہرین نے نئے صوبوں کے قیام کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی تجویزدی، نئے صوبوں سے گورننس کے بحران کا خاتمہ اور عوامی بہبود میں بہتری متوقع ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سبزی خور بنیں، بیماریوں سے بچیں: ماہرین صحت کی تحقیق نے سبزیوں کی اہمیت اجاگر کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سبزیاں صرف غذائی ضرورت ہی نہیں بلکہ کئی بیماریوں سے بچاؤ کا قدرتی ذریعہ بھی ہیں۔ جدید sطبی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ متوازن غذا میں سبزیوں کی شمولیت نہ صرف جسمانی صحت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ذہنی سکون اور طویل زندگی کی ضمانت بھی بنتی ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق وہ افراد جو روزانہ تازہ سبزیاں اپنی خوراک میں شامل کرتے ہیں، وہ دل کی بیماریوں، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کئی اقسام کے سرطان جیسے مہلک امراض سے بہتر طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ خصوصاً پتوں والی سبزیاں جیسے پالک، ساگ اور میتھی میں آئرن، وٹامن K، فولیٹ اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو خون کو صاف کرنے، جسمانی توانائی بڑھانے اور قوت مدافعت کو مضبوط کرنے میں مددگار ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کے مطابق پاکستانی معاشرے میں گوشت خوری کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو مختلف امراض کے اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص کو دن میں کم از کم تین سے پانچ اقسام کی سبزیاں اپنی غذا میں شامل کرنی چاہئیں۔
ماہر غذائیت ڈاکٹر سدرہ احمد کاکہنا ہےکہ “سبزیوں میں نہ صرف کیلوریز کم ہوتی ہیں بلکہ یہ ریشے (فائبر) سے بھرپور ہوتی ہیں، جو نظام ہضم کو بہتر بناتی ہیں اور وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں،خاص طور پر خواتین اور بچے اگر سبزیوں کو روزمرہ غذا کا لازمی حصہ بنائیں تو ہڈیوں، جلد اور بالوں کی صحت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ اقوام جو سبزیوں پر مشتمل خوراک کو ترجیح دیتی ہیں، وہاں اوسط عمر دیگر قوموں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
سبزیوں کے چند نمایاں فوائد بتاتے ہوئے طبی ماہرین نے کہاکہ دل کے امراض سے تحفظ
خون کی صفائی ہوتی ہے، قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، جلد، بالوں اور آنکھوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور موٹاپے اور قبض سے نجات ملتی ہے ، اس کے علاوہ ذیابیطس اور کینسر کے خطرات میں کمی ہوتی ہے۔
ماہرین والدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ بچوں کو بچپن سے ہی سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ مستقبل میں صحت مند زندگی گزار سکیں۔ سبزیاں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہیں، اور ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔