33 سال بعد رمضان المبارک میں قدرت کا نایاب فلکیاتی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اس سال ماہ رمضان المبارک میں ایک نایاب فلکیاتی مظہر رونما ہونے کے قوی امکانات ہیں جو ہر 33 سال بعد ایک بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ مظہر قمری اور شمسی کیلنڈرز کے درمیان ایک غیر معمولی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے، جس میں رمضان المبارک کا آغاز شمسی کیلنڈر کے مطابق مارچ کے مہینے کے ساتھ ہوگا۔
دنیا میں تاریخ اور دنوں کا حساب رکھنے کے لیے 2اہم کیلنڈرز استعمال ہوتے ہیں، شمسی (عیسوی کیلنڈر)اور قمری (ہجری کیلنڈر)۔ شمسی کیلنڈر سورج کی حرکت پر مبنی ہے جب کہ قمری کیلنڈر چاند کے حساب سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ان دونوں کیلنڈرز کے مہینوں کا آغاز ایک ساتھ نہیں ہوتا لیکن ہر 33 سال بعد یہ دونوں کیلنڈرز ایک خاص ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ماہرین فلکیات کے مطابق رمضان 2025 کا آغاز یکم مارچ سے ہونے کے قوی امکانات ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہجری مہینہ رمضان اور شمسی ماہ مارچ ایک ہی تاریخ سے شروع ہوں گے۔ یہ ایک نایاب موقع ہے جو ہر 33 سال بعد پیش آتا ہے۔ اس کی وجہ چاند اور سورج کے مداروں میں ایک خاص قسم کی ہم آہنگی ہے، جو ریاضیاتی درستگی کا ایک غیر معمولی مظہر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مظہر چاند اور زمین کی حرکتوں میں موجود غیر معمولی ریاضیاتی درستی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہر 33 سال بعد چاند اور سورج کے مداروں میں ایک خاص ترتیب بنتی ہے، جس کی وجہ سے قمری اور شمسی کیلنڈرز کے مہینے ایک ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ ہمیشہ رمضان میں نہیں ہوتا، لیکن ہر 33 سال میں کسی نہ کسی مہینے میں ایسا ضرور ہوتا ہے۔
رمضان2025 کا یہ نایاب آغاز نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ فلکیات کے شوقین افراد کے لیے بھی ایک خاص موقع ہوگا۔ یہ مظہر قدرت کے نظام کی خوبصورتی کو ظاہر کرتا ہے، جو انسان کو قدرت کے اسرار پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شمسی کیلنڈر ہر 33 سال بعد ایک خاص
پڑھیں:
نریندر مودی کی ریلی سے پہلے 6 صحافیوں کو نظربند کرنا اُنکی گھبراہٹ کا مظہر ہے، کانگریس
سپریا شرینیت نے کہا بہار میں نہ سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نہ ہی ملازمتیں بن رہی ہیں، نوجوانوں کا مستقبل بحران میں ہے کیونکہ ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے مظفر پور میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہوئی انتخابی ریلی سے قبل 6 صحافیوں کو نظربند کئے جانے کی خبر پر کانگریس نے اپنا تلخ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ عمل نریندر مودی اور بہار کی این ڈی اے حکومت کی گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے۔ اس معاملے میں کانگریس کی سینیئر لیڈر اور قومی ترجمان سپریا شرینیت نے آج مظفر پور میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس دوران میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل مظفر پور سے خبر آئی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ریلی سے قبل 6 صحافیوں کو نظربند کیا گیا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ نریندر مودی آخر کیوں گھبراتے ہیں، جو صحافی سوال پوچھتے ہیں، حقیقت حال سامنے رکھتے ہیں، سچائی کو عوام تک لے جاتے ہیں، ان سے نریندر مودی کیوں گھبراتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے سپریا شرینیت نے کہا کہ نریندر مودی اُن لوگوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو سوال کرتے ہیں "آپ تھکتے کیوں نہیں، آپ کوئی ٹانک پیتے ہیں کیا، آپ جیب میں بٹوا رکھتے ہیں کیا"۔ کانگریس لیڈر نے سوال اٹھایا کہ نریندر مودی اور انتظامیہ کو کس بات کا خوف تھا، کیا وہ اس لئے خوفزدہ تھے کہ جو چینی مل کے مزدور مظاہرہ کر رہے تھے، صحافی ان کی سچائی سامنے رکھ دیتے تو ماحول بدل جاتا، کیا جمہوریت میں سوال نہیں پوچھے جائیں گے، کیا انتظامیہ طے کرے گا کہ میڈیا کہاں نظر آئے گا اور کہاں نہیں، وہ آگے کہتی ہیں کہ جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے، جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے، طاقت ہے، ریسورس ہے، ان سے سوال پوچھنے کا کام میڈیا کا ہے۔
انہون نے کہا "میں کہنا چاہتی ہوں کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ بے خوف صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے، ان کی حمایت کرے گی، آپ کے سوال پوچھنے کے حق کو بلند کرے گی"۔ بہار کے موجودہ حالات اور نوجوانوں کے تاریک مستقبل کا ذکر بھی سپریا شرینیت نے پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں نہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور نہ ہی ملازمتیں بن رہی ہیں، نوجوانوں کا مستقبل بحران میں ہے کیونکہ ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔ بی اے کی ڈگری 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے، نرسنگ کی ڈگری 3.5 لاکھ سے 4 لاکھ روپے، پیرامیڈیکل کی ڈگر 25 ہزار روپے، ٹیکنیشین کی ڈگری 30 ہزار روپے، بی فارما کی ڈگری 3.5 لاکھ روپے، بی ایڈ کی ڈگری 1.5 لاکھ روپے سے 2 لاکھ روپے میں بیچی جا رہی ہے۔