لاہور ہائیکورٹ بار کے سالانہ انتخابات:میلہ سج گیا، ووٹنگ جاری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) لاہور ہائیکورٹ کے سالانہ انتخابات کا میلہ سج گیا جس کے لئے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار کے سالانہ انتخابات کیلئے ووٹنگ کا عمل 9 بجے شروع ہوا جو شام پانچ بجے تک بلا تعطل جاری رہے گا۔صدر کے عہدے سمیت تین نشستوں پر سات امیدوار مد مقابل ہیں، صدر کے عہدہ کے لئے عاصمہ جہانگیر گروپ کے ثاقب اکرم گوندل اور حامد خان گروپ کے آصف نسوانہ میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
سیکرٹری کی نشست پر 2 امیدواروں فرخ الیاس چیمہ اور قاسم اعجاز سمرا مدمقابل ہیں، نائب صدر کی نشست پر 3 امیدوار شیخ حسیب بن یوسف، عبد الرحمان رانجھا اور عبدالرزاق چدھڑ آمنے سامنے ہیں جبکہ فنانس سیکرٹری کی نشست پرحسام بن شعیب کمبوہ بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔
چیئرمین الیکشن بورڈ شہزاد احمد منڈ کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار کے کل ممبران کی تعداد 44 ہزار 232 ہے جبکہ انتخابات میں 30 ہزار 763 رجسٹرڈ ووٹرز بائیومیٹرک سسٹم کے تحت ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 2 ہزار 287 خواتین اور 28 ہزار 476 مرد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے، انتخابی عمل کے لئے سات پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں، ووٹنگ کے لئے 120 کمپیوٹر نصب کئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے 3 بار عمران خان سے اجازت لی: اپوزیشن لیڈر
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: لاہور ہائیکورٹ کے لئے
پڑھیں:
پاکستانی ماہرین نے سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغی تیار کرلی
فیصل آباد:پاکستانی ماہرین نے پولٹری فارمنگ کے شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیہی علاقوں کے لیے موزوں نئی مرغی کی نسل متعارف کروا دی ہے، جو سال بھر میں 200 سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے اس منفرد بریڈ کو ’’یونی گولڈ‘‘ کا نام دیا ہے، جو کم فیڈ پر پلتی ہے اور شدید موسم، خاص طور پر گرمی کو بخوبی برداشت کر سکتی ہے۔
نئی نسل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عام دیسی مرغی کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ انڈے دیتی ہے، جبکہ خوراک کی طلب نسبتاً کم ہے، جو اسے چھوٹے فارمرز کے لیے ایک بہترین انتخاب بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یونی گولڈ بریڈ دیہی علاقوں میں پولٹری انڈسٹری کے فروغ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے انڈوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے، جو ملکی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نسل کو ملک بھر کے فارمنگ کرنے والوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر دیسی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہو اور دیہی معیشت کو فروغ ملے۔
یہ مرغی نہ صرف ماحول کے لحاظ سے ہم آہنگ ہے بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان اور کم لاگت ہے۔