بانی پی ٹی آئی غریب عوام کے 64 ارب کھا گئے، احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی غریب عوام کے 64 ارب روپے کھا گئے ۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے غریب عوام کے 64 ارب روپے پر ڈاکا ڈالا، پی ٹی آئی والے کس منہ سے اپنے لیڈر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نارووال میں سڑک کے افتتاح کے بعد جلسے سے خطاب میں احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ ن سے جب بھی حکومت چھینی جاتی ہے پاکستان پر تباہی اور بربادی اپنے سائے ڈال لیتی ہے، ایک اناڑی کو ملک کی چابیاں دے کر کرسی پر بٹھا دیا گیا وہ خود کہتا تھا کہ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ حکومت کیسے چلاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی ڈرائیونگ اسکول کی گاڑی نہیں تھی کہ پاکستان کا وزیراعظم بنا کر کسی کو وزیر اعظم بننے کی تربیت کا موقع دیا جائے۔
احسن اقبال کا کہنا ہے کہ 4 سالوں میں ملک کی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اس شخص نے پاکستانی قوم کو تقسیم کرکے چپے چپے پر جگ ہنسائی کروائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوسروں کو چور ڈاکو کہتا تھا رسیدیں مانگتا تھا جب اس کی رسیدیں دکھانے کی باری آئی تو پتہ چلا اس نے پاکستان پر64 ارب کا ڈاکا ڈالا ہے۔
عمران خان نے غریب عوام کے 64 ارب روپے پرڈاکا ڈال کر کھایا، عمران خان کا یہ جرم نہ امریکامعاف کر سکتا ہے نہ برطانیہ معاف کر سکتا ہے نہ پاکستان کے عوام معاف کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکا ، برطانیہ میں کوئی لیڈر 64 ارب روپے کا ڈاکا خزانے میں ڈالے گا تو اپنی قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج پی ٹی آئی والے کس منہ کے ساتھ اپنے لیڈر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، آپ کو شیخ رشید کا بیان یاد ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ ہماری حکومت چلی گئی ورنہ لوگوں نے ہمیں بڑے پتھر مارنے تھے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: غریب عوام کے 64 ارب احسن اقبال نے کہا پی ٹی ا ئی نے کہا کہ ارب روپے
پڑھیں:
ریاستی ستون نے پاکستان میں مصنوعی بحران پیدا کیے، احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں مصنوعی بحران ریاستی ستون نے پیدا کیے، ملک کے سیاسی بحران کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی عدلیہ کی جانب سے پیدا کیے گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار میں یوم تکبیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 2017 سے عدلیہ کو سیاست میں ملوث کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، یہی بات چھبیسویں آئینی ترمیم کی وجہ بنی۔
احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایسے فیصلے کیے جو سپریم کورٹ کو ہی درست کرنے پڑے، پاکستان میں بحران مصنوعی تھا جو ریاست کے کسی ایک ستون نے پیدا کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے سیاسی بحران کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی عدلیہ کی جانب سے پیدا کیے گئے، آج اس بات پر سب متفق ہیں کہ ملک کو استحکام کی طرف لے کر جائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کہہ چکے ہیں کہ وہ خود کو سیاست سے الگ رکھتے ہیں، عدلیہ کا کندھا بھی کسی سیاسی جنگ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
’پاکستان کلیدی تجارتی اور لاجسٹک مرکز بننے کے لیے پرعزم ہے‘
قبل ازیں اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ پانچویں سی اے آر ای سی انسٹیٹیوٹ سالانہ تحقیقی کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان "اُڑان پاکستان” وژن کے تحت پائیدار ترقی، علاقائی روابط، ڈیجیٹل تجارت اور سبز توانائی کے فروغ کے ذریعے وسطی و جنوبی ایشیا کے لیے ایک کلیدی تجارتی اور لاجسٹک مرکز بننے کے لیے پرعزم ہے۔
کانفرنس کا موضوع "کاریک کنیکٹیویٹی: تجارت اور تجارتی سہولت کا فروغ” تھا، جس میں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی )،کاریک انسٹیٹیوٹ، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ )، اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے اشتراک سے اعلیٰ سطحی نمائندگان، ماہرینِ معیشت، اسکالرز اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج کا دور "علاقائی حقیقت پسندی” کا ہے، جہاں دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، جغرافیائی سیاسی تناؤ، اور ٹیکنالوجی میں انقلاب جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایسی صورتحال میں وسطی ایشیائی علاقائی اقتصادی تعاون ممالک کو اپنی باہمی تجارت اور تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔وفاقی وزیر نے توجہ دلائی کہ کاریک ممالک (چین کے علاوہ) کے درمیان باہمی تجارت صرف 7 فیصد ہے، جب کہ آسیان ممالک میں یہ شرح 22 فیصد سے زائد ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ کمی جغرافیہ کی نہیں، بلکہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی، ناقص لاجسٹکس، اور غیر مربوط ضوابط کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے معروف معیشت دان پال کولیئر کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اُڑان پاکستان – ترقی کا نیا وژن ہے۔
انہوں نے "اُڑان پاکستان” کے پانچ ستونوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی جس میں برآمدات ،ترقی کا انجن ،مساوات اور بااختیاری ، تمام طبقات کی شمولیت، ای-پاکستان ، ڈیجیٹل انقلاب کی جانب پیش قدمی، ماحولیات،خوراک، پانی اور موسمیاتی تحفظ اور توانائی و انفراسٹرکچر و صنعتی ترقی کا ایندھن شامل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 3.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور سالانہ 20 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہیں، جب کہ 2.2 ملین نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت دی جا چکی ہے۔
وفاقی وزیر نے پاکستان سنگل ونڈو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کسٹمز کلیرنس کا وقت آٹھ دن سے گھٹ کر صرف 48 گھنٹے رہ گیا ہے، اور اب اسے وسطی ایشیائی راہداریوں سے جوڑا جا رہا ہے تاکہ پورے کاریک خطے میں ڈیجیٹل تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔
ٹی آئی آ ر کنونشن کے تحت پاکستان نے چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان سینکڑوں ٹرکوں کی بین الاقوامی نقل و حمل کو ممکن بنایا ہے، جس سے لاگت میں 30 فیصد اور وقت میں 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری ایک علاقائی اثاثہ ہے، جس کے ذریعے 3,000 کلومیٹر سے زائد سڑکیں تعمیر ہو چکی ہیں، 11 گیگا واٹ بجلی شامل کی جا چکی ہے، اور گوادر بندرگاہ کو ایک علاقائی گیٹ وے بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعتی تعاون اور خصوصی اقتصادی زونز پر مبنی ہے، جس میں کاریک ممالک کو پاکستان کی ویلیو چینز میں شامل ہونے اور عالمی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کی دعوت دی گئی۔
وفاقی وزیر نے توانائی کو خطے کی ترقی کی "ریڑھ کی ہڈی” قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کاسا-100جیسے منصوبے پاکستان، افغانستان، کرغزستان، اور تاجکستان کو جوڑ رہے ہیں۔انہوں نے کاریک گرین انرجی کوریڈور کے قیام کی تجویز دی تاکہ شمالی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کو جنوبی صارفین سے جوڑا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ ڈیجیٹل معیشت کی اہمیت اب تجارت جتنی ہی ہو چکی ہے۔ای-پاکستان کے تحت،سرکاری خدمات کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے،فری لانسرز نے 2024 میں 1 ارب ڈالر سے زائد کی آمدنی حاصل کی،ریگولیٹری سینڈ باکس اور اسٹارٹ اپ انوویشن کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کارک ڈیجیٹل ٹریڈ کوریڈور کی تجویز بھی دی، جو اسمارٹ لاجسٹکس، ای-کسٹمز، اور ڈیجیٹل سرٹیفیکیشن پر مبنی ہو گا۔انہوں نے کہا کہ خطے میں اعتماد سازی کا عمل تعلیم اور عوامی سطح پر روابط سے شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کے معیارات کو ہم آہنگ کیا جائے،طلبہ اور اساتذہ کے تبادلے کو فروغ دیا جائے،پالیسی سازی میں تحقیق کا کردار بڑھایا جائے۔
احسن اقبال نے تمام شریک ممالک، اداروں اور پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ محض منصوبوں تک محدود نہ رہیں، بلکہ عملدرآمد، ہم آہنگی، اور مشترکہ قیادت کو ترجیح دیں۔
انہوں نے کہا کہ آئیے ایسا کاریک خطہ بنائیں جو صرف اشیاء اور خدمات نہیں بلکہ خواب، مواقع اور مستقبل کو آپس میں جوڑتا ہو۔پاکستان کا عزم دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کاریک وژن 2030 سے مکمل طور پر وابستہ ہے اور خطے میں معاشی ترقی، پائیداری، اور روابط کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کرتا رہے گا۔