ایف آئی آر(دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
میرے والد کے گہرے دوست تو بھٹو صاحب بھی تھے مگر شیخ مجیب سے گہری دوستی کی بناء پر جو ان کو سزا ملی کہ وہ میری والدہ کے ساتھ عمر ے کی سعادت کے لیے یہاں سے روانہ ہوئے اور ان کو جہاز سے اتارا گیا۔ میرے والد بھی بڑے ضدی تھے انھوں نے بارڈر کراس کیا اور وہاں سے لندن روانہ ہو گئے، دو سال لندن میں جلا وطنی کے گزارے۔ وہ واپس آئے یہ کہہ کر کہ دیس میں پابند سلاسل ہونا جلا وطنی سے بہتر ہے۔
اس وقت سندھ کے وزیر ِ اعلیٰ میرے والد کے جگری دوست رئیس غلام رسول جتوئی کے بیٹے غلام مصطفی جتوئی تھے۔ان کی اتنی عنایت ضرور ہوئی کہ جیل کے بجائے ان کو گھارو کے ایک ریسٹ ہاؤس میں ہاؤس اریسٹ رکھا گیا۔ بھٹو صاحب اپنے بہت سے مخالفین کے ساتھ سخت رہے لیکن ان کا برتاؤ میرے والد کے ساتھ کچھ اور تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب پیپلز پارٹی بہت پریشان ہے۔ اقتدار کے سولہ برس آرام سے گزرگئے اور عمران خان کا دور بھی بہتر انداز گزرگیا۔ اب وفاق میں اتحاد بھی ہے۔ مگر آنے والا وقت پارٹی کے لیے مشکلات لا رہا ہے اور اس کی وجہ ہے ان کی بدتر کارکردگی (Bad Governess ) ۔ آخر کب تک پیپلز پارٹی کو بھٹو کے نام پر ووٹ ملتے رہیں گے۔
پورا صوبہ اس وقت پانی کے مسئلے پر بھرپور موقف رکھتا ہے۔ آج ہم میں وہ بے نظیر بھٹو موجود نہیں جو کالا باغ ڈیم کے خلاف سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر دھرنا دے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا پوتا ذوالفقار جونئیر اس موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہے اور بڑی تیزی سے عوام کے درمیان مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی آج وہ ہی کام کر رہی ہے جو کل تک جی ڈی اے کرتی تھی کہ وہ ایک ہائبرڈ حکومت کا حصہ ہے۔
سندھ کے پانی کے مسئلے پر پیپلز پارٹی سے بہتر اور واضح موقف پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان راجہ کاہے۔ اب سندھ میں بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا ہے کیونکہ پانی کے مسئلے پر سب متفقہ موقف رکھتے ہیں اور جو پارٹی اس موقف سے انحراف کرے وہ اپنی مقبولیت عوام کی نظروں میں کھو دے گی اور ایسا ہی کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے۔اس بات کو بے نظیر صاحبہ بہت اچھے سے سمجھتی تھیں لیکن یہی بات بلاول بھٹو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ وہ درباریوں میں رہ کر ایسا تصور کر رہے ہیں کہ شاید وہ سندھ کے مقبول ترین لیڈر ہیں، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
بڑے بڑے خاندان اور وڈیرے پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں اور وہ انتخابات کی انجینئر نگ بھی خوب جانتے ہیں ۔ یہ کسان آج تک ان وڈیروں کے تسلط سے آزاد نہ ہو سکے، حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمد کی ہاری تحریک بھی اثناء میں کہیں کھو گئی۔ سندھ ایک تھا ، جنرل ضیا ء الحق کے خلاف جب تمام وڈیرے، مزدور، دہقان ، مڈل کلاس نے ایم آرڈی تحریک کا آغاز کیا۔ غلام مصطفی جتوئی نے اس تحریک کی قیادت کی۔ یہ تحریک ایک لحاظ سے وڈیروں کی تحریک تھی کیونکہ اس وقت عوام کسی کے کنٹرول میں نہ تھے۔ ان کے محبوب لیڈر کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا تھا۔ عدالتیں بھلے ہی یہ کہتی رہیں کہ بھٹو ، قصوری کا قاتل ہے، لیکن عوام کو یہ پتا تھا کہ بھٹو بے قصور اور جنرل ضیا بھٹو کا قاتل ہے۔
مرتضیٰ جتوئی بھی ایم آرڈی تحریک کے روحِ رواں تھے مگر آج وہ پیپلز پارٹی کے عتاب کا شکار ہیں۔ جھوٹی ایف آئی آر ان کے خلاف درج کروائی گئی ہیں ان میں سے ایک ایف آئی آر تو گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل سوار سے مبلغ 35000/- روپے چھیننے کی درج کی گئی ہے۔اس ایف آئی آر کا متن یہ ہے کہ گن پوائنٹ پر چھینی گئی رقم میں چار لوگ شامل تھے، جس میں تین لوگوں کی شناخت نہ ہو سکی اور چوتھے شخص مرتضیٰ جتوئی تھے۔ سندھ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب مرتضیٰ جتوئی پر کوئی ایف آئی آر نہ کاٹی جائے کیونکہ عدالت کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ حکومت بوکھلا گئی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ تیزی سے مزاحمت کی طرف جا رہا ہے۔ قیادت کا فقدان ہے، کیونکہ ماضی میں مزاحمت کو پیپلز پارٹی کی قیادت حاصل تھی مگر اب یہ پارٹی خود مزاحمت کے گھیرے میں ہے اور اس کے خلاف کوئی قیادت نہیں ہے۔ سندھ میں پہلے دو احساس محرومیوں نے جنم لیا ایک ذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل اور دوسرا بے نظیرکا قتل۔ اب جو احساسِ محرومی یہاں جڑ پکڑ رہا ہے وہ یہ کہ سندھ کو یہ خدشہ ہے کہ سندھ سے دریا چھینا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی ایف ا ئی ا ر میرے والد کے ساتھ کے خلاف رہا ہے
پڑھیں:
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ کا دوسرا روز، گوشت کی تقسیم اور دعوتوں کا سلسلہ جاری
ملک بھر میں آج عیدالاضحیٰ کا دوسرا دن منایا جا رہا ہے، اس دوران گوشت کی تقسیم، دعوتوں اور میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ کا دوسرا دن بھی مذہبی جوش و خروش، جذبہ ایثار اور سماجی ہم آہنگی کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ آج بھی لاکھوں شہری سنتِ ابراہیمی کی پیروی کررہے ہیں جب کہ گوشت کی تقسیم، دعوتوں، میل جول اور خوشیاں منانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں دوسرے روز بھی سنتِ ابراہیمی کا عمل علی الصبح سے شروع ہو گیا، جس کے بعد مستحقین، غربا، ہمسایوں اور عزیز و اقارب میں گوشت تقسیم کیا گیا۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد، ملتان اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں آج بھی ویسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے، جیسا جوش و جذبہ گزشتہ روز تھا۔
عید کے دوسرے دن کا خاص رنگ دوستوں اور عزیز و اقارب سے ملاقاتیں و دعوتیں بھی ہیں۔ شہری آج گوشت سے بنے مختلف پکوانوں کا لطف اُٹھا رہے ہیں جن میں کڑاہی گوشت، بریانی، کباب اور قورمہ خاص طور پر شامل ہیں۔
خواتین گھروں میں عید کے خاص کھانے تیار کر رہی ہیں اور مختلف رشتہ داروں کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ بچوں کا جوش و خروش بھی برقرار ہے، جو جانوروں کی دیکھ بھال، گوشت کی تقسیم اور عیدی کے مزے میں مصروف ہیں۔
عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن بھی صفائی کے لیے بلدیاتی اداروں نے آلائشوں کو بروقت ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی ٹیمیں مقرر کر رکھی ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں صفائی کی صورتحال مجموعی طور پر بہتر ہے، تاہم بعض علاقوں سے شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
بلدیاتی اداروں کی جانب سے شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ آلائشوں کو مخصوص مقامات پر رکھیں تاکہ عملہ بروقت اٹھا سکے اور تعفن یا بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہو۔
عید کے دوسرے دن بھی ملک بھر میں سکیورٹی الرٹ ہے۔ پولیس، رینجرز اور دیگر اداروں کے اہلکار قربانی کے مقامات، فلاحی اداروں کے دفاتر اور دیگر حساس مقامات پر تعینات ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ ملک میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر سکیورٹی کی مجموعی صورتحال تسلی بخش رہی ہے۔
علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عیدالاضحیٰ محض ایک تہوار نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے اصل جذبہ تقویٰ، ایثار اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ عیدالاضحیٰ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کریں اور خاص طور پر مستحق افراد کا خیال رکھیں۔