نریندر مودی کا دورہ ناکام رہا!
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
جاوید محمود
تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ نریندر مودی کا امریکہ کا حالیہ دورہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے وعدے پر ثابت قدم ہیں کہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم غیر ملکی شہریوں کی وسیع پیمانے پر ملک بدری کوجاری رکھا جائے گا۔ اب تک امریکہ نے تقریبا 18,000انڈین شہریوں کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ غیر قانونی راستوں سے امریکہ داخل ہوئے تھے، اپنے دورے کے دوران ایک موقع پہ نریندر مودی نے کہا تھا کہ انڈیا امریکہ میں غیر قانونی طور پر موجود اپنے شہریوں کو واپس لے گا اور انسانی اسمگلنگ کے نظام کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرے گا۔ واشنگٹن کے دورے کے دوران ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی عام خاندانوں کے بچے ہیں اور وہ بڑے خوابوں اور وعدوں کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ انہی دنوں 104 انڈین شہریوں کو فوجی طیارے کے ذریعے بھارت ڈیپورٹ کیا گیا ۔غیر قانونی تارکین وطن امریکہ کی آبادی کا 3فیصد اور بیرون ملک پیدا ہونے والی ابادی کا 22 فیصد ہیں۔ پیورریسرچ سینٹر اور سینٹر فار مائیگریشن سینٹر اف نیویارک کا اندازہ ہے کہ 2022تک تقریبا 700,000 افراد تھے جو میکسیکو اور ایلسلوا ڈور کے بعد تیسرا سب سے بڑا گروپ بنتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تخمینوں میں وسیع فرق غیر دستاویزی انڈین آبادی کے حقیقی حجم کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر پی او اور سی ایم سی کے اندازے درست ہیں تو امریکہ میں ہر چار میں سے ایک انڈین تارکین وطن غیر قانونی طریقے سے آیا ہے ۔انڈین تارکین وطن امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے گروپوں میں سے ایک ہیں جو 1999میں 600,000سے بڑھ کر 2022میں 32لاکھ ہو گئے ہیں۔
میکسیکو کی سرحد سے متصل ایروزونا کیلیفورنیا ،نیو میکسیکو اورٹیکساس کی جنوبی سرحد پر تارکین وطن سب سے زیادہ آتے ہیں ۔اس کے بعد امریکہ اور کینیڈا کی سرحد ہے جو 11ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ انڈین تارکین وطن کی آبادی والی ریاستوں کیلیفورنیا 112,000ٹیکساس، 61000نیوجرسی 55,000،نیویارک 43,000اورایلنوائے 31,000میں بھی غیر مجاز انڈین تارکین وطن کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن ریاستوں میں 20فیصد سے زیادہ انڈین تارکین وطن غیر مجاز یا ان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں، ان میں ٹینسسی انڈیانا جارجیا وسکانسن اور کیلیفورنیا شامل ہیں ۔امریکی امیگریشن نظام سرحد پرحراست میں لیے گئے ان افراد کو قابل اعتماد فیئر اسکریننگ سے گزرنے کی اجازت دیتا ہے جو اپنے آبائی ممالک سے ظلم و ستم کی وجہ سے وہاں آئے ہیں یا پناہ کے متلاشی ہیں پاس ہونے والے افراد عدالت سے پناہ کی درخواست کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پناہ کی درخواستوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرحدی خدشات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انتظامی اعداد و شمار انڈین پناہ گزینوں کی کی صحیح آبادی کا انکشاف نہیں کرتے ہیں لیکن بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں عدالتی ریکارڈ کچھ آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ اضافہ امریکہ میں سب سے زیادہ ڈرامائی ہے لیکن اسی طرح کے رجحانات کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی دیکھے گئے ہیں، جہاں انڈین شہری پناہ حاصل کرنے والے سب سے بڑے گروپوں میں شامل ہیں ۔تارکین وطن کے لیے ایک اہم ایپ کو بند کر دیا گیا ہے اور ایپ اسٹور سے ہٹا دیا گیا جس کے نتیجے میں تقریبا تین لاکھ زیر التواملاقاتیں منسوخ کر دی گئیں، جن میں پہلے سے جاری سیاسی پناہ کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ انڈیا کے وزیر خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ 2009سے 2022کے درمیان تقریبا 16,000انڈین شہریوں کوامریکہ سے ملک بدر کیا گیا۔ صدراوباما کے دور حکومت میں ہر سال اوسطا 750ٹرمپ کے پہلے دور میں 1550اور بائیڈن کے دور میں 900افراد کو ملک بدر کیا گیا ۔مالی سال 2023اور 2024 کے درمیان انڈین تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن 2020میں تقریباً 2,300تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا ،اگرچہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے میں باتیں ہوئیں تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد تارکین وطن کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے بے میں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے گوانتا نامو بے میں ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا۔ جہاں 30ہزار افراد کو رکھا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر بنایا جانے والا حراستی مرکز وہاں موجود ہائی سیکیورٹی جیل سے الگ ہوگا، جہاں ان جرائم پیشہ غیر قانونی تارکین وطن کو رکھا جائے گا جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔ یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتا ناموبے کو غیر قانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے سب پہلے سے موجود مرکز کی توسیع کی جائے گی ۔ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ آئی سی ای سنبھالے گی۔ اپنے دوسرے دور میں ٹرمپ نے دفتر میں پہلے دن امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پردستخط کیے جس میں ایک قانون کو منسوخ کرنا شامل تھا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں اسکولوں اور اسپتالوں میں بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنہیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انہیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا ۔ٹام ہومن بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے خلاف حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک ہیں اور انہیں ٹرمپ نے بارڈر زار کا عہدہ دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ بغیر دستاویزات والے افراد کو تلاشی کرنے اور پکڑنے کی کارروائی سب سے پہلے شکاگو میں ہوگی ۔اس شہر اور ریاست پر ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔ میئر پرنٹن جانسن اور گورنر جے بی بلٹس نے کہا ہے کہ وہ سینکچوری سٹی کے قوانین کی حمایت کرتے ہیں جنہیں ویلکمنگ سٹی آرڈیننس کہا جاتا ہے۔ یہ واضح نظر آرہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت امیگریشن پالیسی کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور وہ ہنگامی بنیادوں پر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔یہ اتفاق ہے کہ نریندر مودی کا دورہ ایسے موقع پر ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کی کسی بات کی طرف توجہ نہیں دی۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے انڈین شہریوں کو محفوظ کرنے میں ناکام رہے اس طرح نریندرمودی کا یہ دورہ ناکام رہا۔
.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین وطن انڈین تارکین وطن تارکین وطن کو تارکین وطن کے انڈین شہریوں سب سے زیادہ امریکہ میں شہریوں کو افراد کو ہے کہ وہ ملک بدر مودی کا کیا گیا کے لیے کے دور
پڑھیں:
امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
امریکی صدر کی جانب سے ایک بار پھر غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی حمایت کے بعد صیہونی فوج نے غزہ شہر پر حملے شدید کر دیے ہیں اور کل رات شدید فضائی حملوں کے بعد آج زمینی پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو شروع ہوئے 711 دن ہو چکے ہیں اور کل رات سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ شہر پر شدید ترین بمباری کی ہے جبکہ آج سے زمینی حملے اور پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ غزہ شہر پر صیہونی فوج کے حملوں میں شدت ایسے وقت آئی ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہے۔ کل رات کی شدید بمباری میں صبح تک دسیوں فلسطینی شہید ہو جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ حملے پوری طرح امریکہ کی حمایت سے کیے جا رہے ہیں۔ صیہونی جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور توپ خانے نے غزہ شہر کے کئی حصوں جیسے الدرج محلے میں واقع الزہرا اسکول اور رہائشی عمارتوں، النصیرات مہاجر کیمپ کے شمالی حصے، شہر کے مرکز میں شیخ رضوان محلے، مغرب میں الشاطی مہاجر کیمپ، جنوب میں تل الہوا، دیر البلح شہر میں السوق روڈ اور غزہ شہر کے شمال میں الامن العام علاقے میں رہائشی عمارات، البریج مہاجر کیمپ اور کئی دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ شہر کے الشوای چوک سے ملبے کے نیچے سے دو بچوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 30 افراد اب تک ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
اسی طرح غزہ شہر کے جنوب میں الخضریہ محلے میں 4 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے شمال میں الامن العام محلے میں ملبے کے نیچے سے 8 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 40 فلسطینی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیانیے میں صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتس کے گستاخانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا شہر امریکہ کے دیے گئے میزائلوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے لیکن ہماری عوام استقامت اور مزاحمت کے ذریعے دشمن کے اوہام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔" یاد رہے صیہونی رژیم کے وزیر جنگ نے غزہ شہر پر شدید فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا تھا کہ "غزہ آگ میں جل رہا ہے۔" اخبار ایگسیوس نے صیہونی حکام کے بقول دعوی کیا ہے کہ صیہونی فوج پیر کے دن غزہ شہر پر فوجی قبضہ جمانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کر دے گی۔ اس اخبار نے مزید لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ شہر پر زمینی کاروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس امریکی اخبار کے بقول امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت غزہ پر زمینی حملے کی حمایت کرتی ہے اور تاکید کی ہے کہ صیہونی فوج کم ترین وقت میں غزہ شہر پر قبضہ مکمل کرے۔ اخبار ایگسیوس نے اسی طرح ایک اعلی سطحی اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے بقول فاش کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے اسرائیلی حکام سے غزہ پر زمینی حملہ روک دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار ایگسیوس کو بتایا تھا کہ: "ٹرمپ حکومت اسرائیل کو نہیں روکے گی اور اسے غزہ جنگ سے متعلق اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی اجازت دے گی۔" ایگسیوس نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار کے بقول لکھا: "غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی جنگ ہے اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ داری نیتن یاہو پر ہو گی۔"