ناظم آباد کا سسٹم ذوالفقار راہو کے سپرد،50لاکھ میں رام
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
ذوالفقار راہو نے ناظم آباد کے بلڈروں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں جرأت میں خبروں کی اشاعت پر ڈی جی ایس بی سی اے کو بوکھلاہٹ کا شکار
ناظم آباد کا سسٹم ذوالفقار راہو کو دینے کے لئے مشتاق درانی نے ڈی جی ایس بی سی اے کو 50لاکھ روپے ہفتے پر رام کر لیا، ناظم آباد میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈرز نے ذوالفقار راہو سے رابطے تیز کر دیے.
ذرائع کے مطابق جرأت میں خبروں کی اشاعت نے ڈی جی ایس بی سی اے کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے ، جس کے بعد ڈی جی ایس بی سے اے نے اپنے ہی محکمے میں مخبروں کی تلاش کی ذمہ داری ڈائریکٹر ڈیمولیشن سجاد خان کے سپرد کی ہے اور ناظم آباد سے رقم جمع کرنے کی ذمہ داری مشتاق درانی کے سپرد کی ہے جس نے سسٹم کے پرانے کھلاڑی ذوالفقار راہو سے ایک میٹنگ کرکے اسے ناظم آباد میں تعیناتی دینے کا وعدہ کیا ہے، جس کے بعد مشتاق درانی نے ڈی جی ایس بی سی اے کو ذوالفقار راہو کے حوالے سے رام کر لیا ہے اور 50لاکھ روپے ہفتہ رشوت کی مد میں دینے کا وعدہ کیا ہے،
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے بعد سے ذوالفقار راہو نے ناظم آباد کے بلڈروں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں، اس وقت ناظم آباد میں جن پلاٹوں سے ذوالفقار راہو نے تعیناتی سے قبل ہی رقم ڈی جی ایس بی سی اے اور مشتاق درانی کے نام پر وصول کی ہے، ان میں پلاٹ نمبر4/11بلاک 3Bناظم آباد اور پلاٹ نمبر 6/14بلاک 3G ناظم آباد شامل ہیں۔
ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
ذوالفقار جونیئر کا سیاسی مستقبل
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ جماعت ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو سے خاصی مختلف نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی والدہ غنویٰ بھٹو اپنے شوہر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ چلا رہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن ڈاکٹر مبشر حسن اس جماعت کے سیکریٹری جنرل تھے مگر غنویٰ بھٹو کئی برسوں سے ملک میں نہیں ہیں، اس بناء پر ان کی جماعت اب فعال نظر نہیں آتی۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے دادا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی جماعت مسلم لیگ سے کیا تھا، وہ ایک وقت میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔
تاریخ کی کتابوں اور اخبارات کی فائلوں کے عرق ریزی سے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں جنرل ایوب خان کی حمایت کی تھی مگر معاہدہ تاشقند پر اختلاف کی بناء پر وہ ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان ‘‘ کے نعرے پر پیپلز پارٹی قائم کی۔ کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی۔ 1968کی جنرل ایوب خان مخالف تحریک میں ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے مگر ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔
جنرل یحییٰ خان کے 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب سے کامیاب ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نوجوانوں کے ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ بھٹو نے پاکستان کے مغربی حصے میں عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم، صحت، زرعی اور صنعتی شعبوں میں انقلابی اصلاحات کیں اور ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا اور 1971میں ہونے والی شکست کے بعد مسلح افواج کو دوبارہ فعال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی۔ بلوچستان کی حکومت کو توڑا گیا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک متنازع عدالتی فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے بڑے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے بھائی شاہنواز بھٹو عظیم انقلابی رہنما چی گویرا سے متاثر تھے۔ 70 کی دہائی کے اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق میر مرتضیٰ بھٹو سوشلزم کے زبردست حامی تھے۔ بھٹو صاحب کی قیام گاہ 70 کلفٹن کے لان کے ایک کونے میں جھونپڑی بنائی ہوئی تھی جس میں وہ کچھ دیر قیام کرتے تھے۔ جب 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو بھٹو صاحب نے ہدایت کی تھی کہ مرتضیٰ اور شاہنواز فورا لندن چلے جائیں۔ بھٹو نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو والدہ کے ساتھ ملک میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔ مرتضیٰ اور شاہنواز فورا لندن چلے گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ اور شاہنواز کابل چلے گئے۔ اس وقت افغانستان میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اسی دوران پی آئی اے کا طیارہ اغواء کیا گیا، جس کی ذمے داری میر مرتضیٰ بھٹو پر ڈالی گئی اور ایک گوریلا تنظیم الذوالفقار کا ذکر ہونے لگا۔ پی آئی اے کے طیارے کے اغواء کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ہزاروں کارکنوں کے علاوہ معروف دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو گرفتار کر لیا۔
حزب اختلاف کی 11 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک استقلال اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی وغیرہ شامل تھے نے 1981میں ایک احتجاجی تحریک شروع کی تھی مگر یہ تحریک اس وقت مؤثر ثابت نہ ہوئی، البتہ 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک نے عالمی رائے عامہ کو جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ادھرکابل حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو فرانس کے دارالحکومت پیرس چلے گئے۔
وہاںشاہنواز بھٹو پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ 1986 میں بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں۔ لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی مگر صدر غلام اسحاق خان نے 18 ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کردیا۔ جب بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ 1993میں برسرِ اقتدار آئیں تو بیگم نصرت بھٹو نے اعلان کیا کہ مرتضیٰ بھٹو پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے مرتضیٰ کے پاکستان آنے کی سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر مخالفت کی مگر سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت ہونے پر میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے۔ میر مرتضیٰ اپنے والد کی طرح زور دار تقریر کرتے تھے۔ ان کی تقاریر میں غریبوں کے ساتھ ظلم اور ان کے استحصال کا خوب ذکر ہوتا تھا، یوں بہت سے نوجوان ان کے گروہ میں شامل ہوگئے تھے۔ نامعلوم قوتوں نے پولیس کے کچھ افسروں کے ساتھ مل کر ان کی قیام گاہ 70 کلفٹن کے سامنے روکا اور ایک پولیس مقابلے میں مرتضیٰ بھٹو جاں بحق ہوگئے، پھر ان کی اہلیہ غنویٰ بھٹو نے شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھالی۔
غنویٰ بھٹو سیاست کے پردہ سیمی سے لاپتہ ہوئیں۔ مرتضیٰ بھٹو کی بڑی صاحبزادی فاطمہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ کچھ حلقے ہر انتخاب کے موقعے پر یہ خبر عام کرتے ہیں کہ فاطمہ بھٹو سیاست میں آرہی ہیں مگر فاطمہ بھٹو نے اپنے آپ کو ایک شاعرہ، لکھاری اور دانشور کے طور پر پیش کیا۔ ان کی بعض نظموں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ ذوالفقار جونیئر کا سارا فلسفہ عدم تشدد اور رواداری پر مبنی رہا ہے۔
ذوالفقار جونیئر نے سماجی اجتماعات اور مذہبی تہواروں میں گرم جوشی سے حصہ لینا شروع کیا۔ وہ نیاز کی حلیم اور شربت تقسیم کرتے نظر آنے لگے۔ ذوالفقار جونیئر نے ٹریڈ یونینز کے رہنماؤں کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین سے قریبی رابطے قائم کیے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بائیں بازو کے مختلف گروہوں کے رہنماؤں سے طویل مذاکرات کیے۔ انھیں دیکھ کر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
ذوالفقار جونیئر نے سیاست میں عوامی رویہ اختیار کرکے ایک منفرد حیثیت حاصل کی ہے۔ چند ماہ قبل دریائے سندھ میں نہریں نکالنے کی مزاحمتی تحریک میں ذوالفقار جونیئر نے بھرپور کردار ادا کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناء پر عوام اور حکومت میں پیدا ہونے والا خلاء بڑھ گیا ہے۔
ذوالفقار جونیئر اگر مسلسل محنت کرتے ہیں تو سندھ کے ہر شہر میں ان کی ضرور پذیرائی ہوگی، اگر ان کی بہن فاطمہ ان کے ساتھ آجائیں تو یہ دونوں بہن بھائی پیپلز پارٹی کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔ ذوالفقار جونیئر پیپلز پارٹی کی حکومت کی بیڈ گورننس اور ملک کے غیر شفاف نظام جیسے مسائل کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں مگر موجودہ صورت حال میں ذوالفقار جونیئر اور ان کے ساتھیوں کو طویل عرصے تک جدوجہد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔