افغان پناہ گزین پاکستان میں کتنا وقت رہ سکیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت پاکستان کی جانب سے زبانی طور پر افغان مہاجرین کو 28 فروری تک ملک چھوڑے کی ڈیڈلائن دی گئی تھی، جس کی وجہ سے ملک بھر بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی میں عارضی طور پر مقیم افغان باشندوں میں غیر یقینی اور خوف کی صورتحال ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ جن افغان شہریوں کے پاس ویزا یا کسی دوسرے ملک منتقلی کا خط ہے وہ 31 مارچ تک ان شہروں سے نکل جائیں۔ مگر افغان سفارت خانے نے پاکستان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے یکطرفہ قرار دیا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے حالات آسان بنانے کی کوشش کررہا ہے اور افغان حکام سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ واپس جانے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
پاکستان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانوں کو عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی فراہم کی گئی ہے اور انہیں ہراساں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
واضح رہے کہ اب حکومت پاکستان کی جانب سے صرف ویزا ہولڈر یا پھر کسی دوسرے ملک منتقلی کا خط حاصل کرنے والے افغانوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
’موجودہ وقت میں ہماری حالت ایسی ہے جیسے ایک مچھلی کی بغیر پانی کے ہوتی ہے‘
اسلام آباد میں مقیم ایک افغان خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس صورتحال نے ہماری حالت بالکل ویسی ہی کردی ہے، جیسے ایک مچھلی کی حالت بغیر پانی کے ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی بھی یہیں رہائش پذیر ہیں لیکن اس ساری صورتحال نے انہیں اس تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ آگے ان کے ساتھ اب کیا ہونے جارہا ہے، اور ابھی کتنا کچھ باقی ہے جس کا انہوں نے سامنا کرنا ہے۔
’ہمیں نہیں پتا کہ ہمیں اب آخر کرنا کیا ہے، یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ہم کسی قید خانے میں بند ہو چکے ہیں اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس قید خانے سے اگر نکل بھی گئے تو جائیں گے کہاں، کیونکہ اپنی منزل سے ہم بھٹک چکے ہیں اور اب کہاں جانا ہے؟ اس حوالے سے بالکل بھی کچھ نہیں سمجھ آرہا۔‘
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان بھی واپس نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں ہماری جان کو خطرہ ہے۔
’اتنے برسوں بعد اچانک ہمیں نکالا جانا صدمے کا باعث ہے‘
جڑواں شہروں میں گزشتہ 20 برس سے رہنے والے ایک افغان کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً 20 برس پہلے پاکستان آئے تھے اور پاکستان نے انہیں خوش آمدید کہا تھا مگر یوں اچانک سے اب اتنے برسوں بعد ہمیں یہاں سے نکالا جارہا ہے جو ان افراد کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے جو ایک مدت سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس ساری ہلچل اور پولیس کے چھاپوں کی وجہ سے انہوں نے فروری کے شروع میں ہی اپنی فیملی کو پشاور منتقل کردیا تھا۔
’میرا یہاں کاروبار ہے، اگر میں خود بھی پشاور چلا جاؤں تو ہم چند ہفتوں بعد ہی سڑک پر آجائیں گے۔ فی الحال میں نے اس وقت اپنے ایک افغان دوست کے گھر پناہ لی ہوئی ہے تاکہ گرفتاری سے بچا رہوں، کیونکہ میرے اس افغان دوست کے پاس پاکستانی ویزا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ ان کو بھی 31 مارچ تک کا وقت دیا گیا ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا یہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 20 سال زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے جو پاکستان میں گزرا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے تو سب بھول چکا ہے، بچے بھی یہاں پلے بڑھے ہیں اور سب سے اہم بات کاروبار بھی چھوٹا ہی سہی مگر چل رہا تھا، اور زندگی بہترین تھی۔ کابل کے حالات تو اب ایسے نظر نہیں آرہے کہ وہاں جایا جائے۔
’پاکستان سے واپس افغانستان نہیں امریکا جاؤں گا‘
ایک مزید افغان باشندے نے افغانوں کے حوالے سے اس ساری صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ فی الفور ان افراد کو پاکستان سے نکالے جانے کی ہدایت کی گئی تھی جن کے پاس یو این ایچ سی آر کا کارڈ تھا، لیکن جن افراد کے پاس ویزا ہے وہ جون تک اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہ سکتے ہیں۔
’چونکہ یو این ایچ سی آر کارڈ ہولڈرز یہاں برسوں سے مقیم ہیں اور انہیں افغانستان میں کسی قسم کا کوئی تھریٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہیں پاکستان واپس افغانستان بھیج رہا ہے اور وہ بغیر کسی پریشانی کے بآسانی جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ افغان مہاجرین کے لیے بہت پریشان کن صورتحال بن چکی ہے، لیکن امریکا میں بات چیت جاری ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ وہ پاکستان کے بعد امریکا ہی جائیں گے۔
پاکستان میں موجود کتنے افغان شہری بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں؟
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کے مطابق پاکستان میں موجود افغان شہری جو بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں، قریباً 80 ہزار کو مختلف ممالک اپنے ہاں آبادکاری کے لیے لے گئے ہیں جبکہ 40 ہزار کے لگ بھگ اب بھی پاکستان میں ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023 کے بعد سے کم از کم 8 لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
دفتر خارجہ نے ایک بیان میں یہ بھی کہاکہ منتقلی کے منتظر افغانوں نے پاکستانی حکام کی طرف سے وسیع پیمانے پر ہراسگی کی اطلاع دی ہے جبکہ وہ صرف الزام ہے۔
5 مزیدپڑھیں:ہزار روپے میں کچن کا کیا سامان آ سکتا ہے، اور وہ کتنے دن چلے گا؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان میں انہوں نے ہیں اور کے پاس ہے اور
پڑھیں:
افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا ہے کہ طورخم بارڈر غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی بیدخلی کیلئے کھولا گیا ہے۔ کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی۔ بیدخلی کا عمل جاری رہنا چاہئے تاکہ اس بہانے دوبارہ نہ ٹک سکیں۔ اس وقت ہر چیز معطل ہے۔ ویزا پراسس بھی بند ہے۔ جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا۔ افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا۔ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلے تو غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا۔ افغانستان کا مؤقف تھا کہ غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ پاکستان کا ہے۔ اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونرشپ سامنے آ گئی۔ سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے افغانستان کر رہا ہے۔ اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً خیبر پی کے کے عوام میں سخت غصہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے خیبر پی کے صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ حل صرف واحد ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی بند ہو۔ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکتے تو یہ قابل ترجیح ہو گا۔ بھارت کے پراکسی وار کے ثبوت کی اگر ضرورت پڑی تو دیں گے۔ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں۔ مودی تو چپ ہی کر گیا ہے۔ اس محاذ پر پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ترجمان افغان طالبان کے گمراہ کن بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر تمام پاکستانی متفق ہیں۔ اس اتفاق رائے میں پاکستان کی قوم‘ سیاسی اور فوجی قیادت شامل ہے۔ افغان طالبان بھارتی پراکسیز کے ذریعے دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ طالبان حکومت اندرونی دھڑے بندی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ خواتین‘ بچوں اور اقلیتوں پر جبر افغان طالبان کا اصل چہرہ ہے۔ طالبان چار برس بعد بھی عالمی وعدے پورے نہ کر سکے اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ہے۔ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے۔
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) طورخم بارڈر سے 20 روز بعد غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی واپسی شروع ہو گئی۔ تاہم طورخم سرحد تجارت اور پیدل آمدورفت کیلئے بدستور بند رہے گی۔ ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر بلال شاہد نے کہا ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کو ملک میں غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے جنہیں امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انہیں افغانستان جانے کی اجازت دیدی گئی۔ دوسری طرف چمن بارڈر سے ایک روز میں 10 ہزار 700 افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوایا گیا۔