پشاور:

خیبرپختونخوا کی کابینہ کے اجلاس میں خیبرپختونخوا کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹانسز ترمیمی بل منظور کرلیا گیا، بل میں منشیات کی خرید وفروخت، کاروبار اور اسمگلنگ پرالگ الگ سزاؤں کا پہلی مرتبہ تعین کیا گیا ہے۔ 

کابینہ کے اجلاس میں خیبرپختونخوا کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹانسز ترمیمی بل وزیر برائے ایکسائز اینڈ انسداد منشیات خلیق الزماں نے پیش کیا،  بل میں منشیات کی مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کی گئی ہے اور  منشیات کی اقسام اور مقدار کی مناسبت سے سزا کا تعین کیا گیا ہے۔ 

نارکوٹکس سبسٹانس بل کے شق نمبر 9 میں ترمیم کرتے ہوئے ایک کلو سے زائد منشیات پر پھانسی اورعمر قید میں نرمی تجویز کی گئی ہے، قبل ازیں ایکٹ کے شق نمبر 9 کے سیکشن ڈی میں ایک کلو گرام سے زائد منشیات برآمد ہونے پر پھانسی اورعمرقید کی سزا دی جاتی تھی۔ 

 نارکوٹکس سبسٹانس بل میں دس سے بیس کلو گرام ریکریشنل منشیات پر چودہ سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، اسی طرح 20 کلو گرام سے زائد ریکریشنل ڈرگز پر زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا اور دو لاکھ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ 

بل میں ایک کلو گرام  سے کم پوست برآمد ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال قید اور بیس ہزار جرمانہ، پندرہ کلو گرام پوست سے زائد برآمد ہونے پر زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا اور تین لاکھ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ 

اسی طرح دس کلو گرام سے زائد چرس  ہونے پر زیادہ سے زیادہ عمر قید اور آٹھ لاکھ تک جرمانہ، پانچ کلو گرام سے زائد حشیش آئل برآمد ہونے پر پر زیادہ سے زیادہ عمر قید سزا اور چار لاکھ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ 

نارکوٹکس سبسٹانس بل میں آآٹھ کلو گرام افیون برآمد ہونے پرعمر قید تک کی سزا، چار کلو گرام سے زائد ہیروئن برآمد ہونے پر عمر قید، چھ کلو گرام سے زائد ہیروئن پر عمر قید یا پھانسی کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

بل میں پانچ کلو گرام سے زائد کوکین برامد ہونے پر عمر قید یا پھانسی کی سزا، چار کلو گرام سے زائد سائیکو ٹراپیک سبسٹانس برآمد پر عمر قید یا پھانسی کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ 

بل میں کنٹرول سبسٹانس میں استعمال ہونے والی 12 اشیاء کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں منشیات برآمد  ہونے پر سخت ترین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ 

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پر زیادہ سے زیادہ عمر قید کلو گرام سے زائد تجویز کی گئی ہے برآمد ہونے کیا گیا ہے قید کی سزا ہونے پر

پڑھیں:

وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء

متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب سیلاب؛ نقصانات سے اموات کی تعداد 118 ہوگئی، 47لاکھ سے زائد افراد متاثر
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • خیبرپختونخوا: آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں پھر اربوں روپے کی بدعنوانی کی نشاندہی
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں چند سو سے زیادہ دہشتگرد موجود نہیں، آئی جی
  • تھانہ گلبرگ پولیس کی کارروائیاں، جرائم میں ملوث 7 ملزمان گرفتار
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟
  • پاراچنار، آئی ایس او کے زیرِ اہتمام جشنِ معصومین (ع)
  • ²بلوچستان: تربت میں گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں 5 افراد جاں بحق