منہائم حملہ: 'یہ تو جرمنی میں اب روز کا معمول بنتا جارہا ہے'
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) اس ہفتے جرمنی کی مغربی ریاستوں کے بہت سے قصبوں اور شہروں کی طرح، منہائم کو بھی سالانہ کارنیوال سیزن کے آخری رنگین اور پرمسرت دن منانے والوں سے بھرا ہونا چاہیے تھا۔
اگرچہ اس کی مرکزی تقریبات اتوار کو ہوئی تھیں، لیکن منہائم کے مرکزی علاقے میں پیر کو بھی جشن کا سماں تھا، تفریح کے سامان اور کھانے پینے کی گاڑیاں شہر کے مرکزی چوراہوں پر کھڑی تھیں۔
منہائم: لوگوں پر کار چڑھ دوڑنے سے ایک شخص ہلاک، متعدد زخمی
منہائم کا کارنیوال عام طور پر بدھ کا سورج طلوع ہونے سے پہلے منگل کو ختم ہوتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ قبل از وقت ختم ہو گیا، اور جشن کی بجائے خاموشی چھائی رہی۔
پیر کی سہ پہر منہائیم کے پاراڈے پلاٹز اسکوائر کے قریب ایک کار ہجوم کے درمیان سے گزرتی ہوئی نکل گئی جس سے دو افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہو گئے۔
(جاری ہے)
ایک 40 سالہ جرمن شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس اور سرکاری وکلاء کا الزام ہے کہ یہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا، حالانکہ اس کا کوئی "سیاسی" مقصد نہیں تھا۔ حکومتی اہلکار یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا حملہ آور نفسیاتی مریض تھا؟
جرمنی میں چاقو حملہ، ایک شامی شخص کا اعتراف جرم
منہائم کی مرکزی سڑک کو بند کردیا گیا اور وہاں پولیس تعینات کردی گئی۔
پولیس کی طرف سے منہائم کے باسیوں سے کہا گیا کہ وہ شہر کے مرکز کا رُخ نہ کریں اور اپنے گھروں پر رہیں۔کارنیوال کے لیے شہر آنے والے کچھ سیاح حملے کی خبر سن کر حیران تھے۔ لیکن بعض کا کہنا تھا، "یہ تو ہوتا ہے"۔
صدمہ، اداسی اور افسوسجیسا کہ کسی بڑے عوامی واقعے کے بعد ہوتا ہے، بہت سے مقامی لوگوں کو ان کے موبائل فونز پر پیغامات موصول ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دوسری طرف حکام نے وسیع پیمانے پر عوامی الرٹ جاری کیا۔جو لوگ جائے وقوعہ پر نہیں تھے ان کے لیے اس طرح کے الرٹ سے جہاں معلومات میں اضافہ ہوا وہیں کنفیوژن کا سبب بھی بنا۔
’میونخ کار حملہ نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے‘
انیس سالہ سالہ گیبریل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "(میری تشویش) یہ تھی کہ (کیا) میرا بھائی محفوظ ہے کیونکہ وہ بھی منہائم میں رہتا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔
" "میں نے پہلی کال اس کو کی، وہ خوش قسمتی سے محفوظ تھا۔"پیر کے حملے کے بعد ڈی ڈبلیو نے شہر کے مرکزی علاقے میں کئی مقامی لوگوں سے بات کی۔ بہت سے لوگوں نے غیر یقینی کا اظہار کیا جب کہ بعض لوگوں نے کم حیرت ظاہر کی۔
گیبریل نے کہا، " پاراڈے پلاٹز اسکوائر میں ایک کارنیوال تھا جہاں بہت سے لوگ موجود تھے، شراب پی رہے تھے، مستی کررہے تھے، اچھا وقت گزر رہا تھا، اور پھر اچانک ایسا ہو گیا۔
" "یہ ایک طرح سے تباہ کن تھا، اب آپ اس طرح کی خبر ہر ہفتے سنتے ہیں - کسی کو چھرا مارا جاتا ہے، کسی کو کچل دیا جاتا ہے۔"پال نامی ایک اور نوجوان نے کہا کہ اسے وہ وقت یاد ہے جب جرمنی میں خود کو"محفوظ محسوس کرتا تھا"۔
انہوں نے کہا، "مجھے اس کی توقع تھی کیونکہ ہم نے حال ہی میں یہاں جرمنی میں بہت سے حملے دیکھے ہیں۔
""مجھے اس سے سخت تکلیف پہنچی ہے کیونکہ یہ میرے شہر میں ہوا۔"
'یہ روزانہ کا معمول بنتا جارہا ہے'منہائم میں عوامی مقامات پر حملے کوئی نئے نہیں ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں شہر میں چاقو کے حملے کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سولنگن اور اسکافنبرگ میں بھی چاقوؤں کے حملوں میں ہلاکتیں ہوئی تھیں اور لوگ زخمی ہوئے تھے۔
کاروں کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ فروری میں میونخ میں ایک کار نے ایک ماں اور بچے کو کچل دیا تھا۔ گزشتہ سال دسمبر میں ماگڈے برگ میں پرہجوم کرسمس مارکیٹ میں ایک شخص نے کار چڑھا دی تھی جس میں تقریباً 300 افراد زخمی اور چھ ہلاک ہو گئے تھے۔
کرسمس مارکیٹ حملہ: چار ہلاکتیں، جرمن چانسلر ماگڈے برگ کے دورے پر
اگرچہ یہ حملہ سیاسی یا مذہبی محرکات سے غیر متعلق معلوم ہوتا ہے، لیکن لوگ ایسے حملوں کو قبول کر چکے ہیں - یا کم از کم ان کی توقع رکھتے ہیں۔
گیبریل نے کہا، "یہ جرمنی میں اب روزانہ کا معمول بنتا جارہا ہے۔"
شہر کے مرکزی علاقے کے ایک اور حصے میں، 30 سالہ ایلیک اور ان کی اہلیہ نے اپنے شہر کے ساتھ اظہار یکجہتی اور حملے کے متاثرین کے لیے منعقد عوامی جلسے میں شرکت کی۔
ایلیک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مرنے والوں کے لیے عوامی جلسے میں صرف تین موم بتیاں رکھی گئی تھیں۔
ایلیک نے کہا، "میری بیوی کی سہیلی نے سب کچھ اپنے سامنے دیکھا، وہ ششدر رہ گئی۔ میری بیوی کو یقین نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔" "اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا 'کیا ماگڈے برگ جیسی صورت حال تھی؟"
""جرمنی میں ایسا اکثر ہونا بہت شرمناک ہے۔
ایلیک نے کہا کہ عوامی حملے، مقصد سے قطع نظر، شہروں میں مقامی لوگوں کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔"
ج ا ⁄ ص ز (میتھیو وارڈ)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مرکزی ہوتا ہے کے لیے بہت سے شہر کے ہو گیا نے کہا
پڑھیں:
پہلگام حملہ: بھارت کے فالس فلیگ بیانے کا پردہ چاک
پہلگام حملہ: بھارت کے فالس فلیگ بیانے کا پردہ چاک WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز
پہلگام میں نہتے سیاحوں پر حالیہ حملہ جس میں 27 ہلاکتیں ہو چکی ہیں بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ ہے، جہاں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام دھر دینا معمول بن چکا ہے۔
یہ عمل دراصل بھارت کی ہائبرڈ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا، داخلی عوامی توجہ ہٹانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے، بھارت کی تاریخ اس طرح کےجھوٹے پراپیگنڈے سے بھری پڑی ہے۔
2007 کا سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ، جس میں 68 افراد جاں بحق ہوئے اور بعد میں ہندو انتہا پسند، حتیٰ کہ بھارتی فوج کا میجر رمیش بھی اس میں ملوث پایا گیا، 2008 کے ممبئی حملے، جنہیں انسدادِ دہشتگردی قوانین کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا اور 2013 میں سی بی آئی کے سابق افسر کے انکشافات نے کئی پردے ہٹا دیے،2018 میں انتخابات سے پہلے سیاحوں پر حملے، پلوامہ 2019 کا واقعہ، جہاں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، اور بعد میں خود بھارت کے سابق گورنر نے حقائق سے پردہ اٹھایا، 2023 میں راجوری کا واقعہ، جو بی جے پی کے انتہا پسندانہ بیانیے کے عین مطابق سامنے آیااور اب 2025 کا پہلگام حملہ کسی ڈرامے سے کم نہیں
یہ سب واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بھارت کی ریاستی مشینری فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن والے علاقے میں، جہاں ہر ساتویں شہری پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے، ایسے حملے کیسے ممکن ہیں۔۔۔؟ بھارت کا بیانیہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ حقائق کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔
بھارت نے ہمیشہ ایسے جعلی حملے اہم غیر ملکی معززین کے دوروں کے دوران رچائے، اور اس بار بھی امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے اس طرح کی کارروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی میڈیا اس ریاستی بیانیے کو تقویت دینے والا اہم پروپگینڈا ہتھیار ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حالیہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد بے بنیاد اور اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے مترداف ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری مزاحمتی گروپ نے قبول کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ مقامی سطح پر پیش آیا۔ بھارت کو اس بات پر شرم آنی چاہیے کہ مقبوضہ وادی میں سات سے آٹھ لاکھ فوجی تعینات ہونے کے باوجود وہ نہتے سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے فتنہ الخوراج اور بی ایل اے جیسے دہشتگرد گروہوں کو منظم اور عسکری حکمت عملی سے زیر کرلیا ہے اور پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی تعمیری تعلقات قائم ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے بھی معاملات ٹھیک روش پر چل رہے ہیں ملک میں بھی سیاسی استحکام آرہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے ناکام مگر طے شدہ عسکری آپشن آزمانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ پاکستان کو اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے غیر مستحکم کرے اور فوجی محاذ پر الجھائے مگر بھارت یہ بات بھول جاتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج شہادت کو عزیز رکھتی ہے اور ہندوتوا کے فاشزم کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا اس کیلئے باعث فخر ہے۔
پہلگام واقعہ کے حوالے سے کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے یہ دعویٰ جھوٹ، بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا نظر آتا ہے، دیکھا جائے تو یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہوا ہے، اگر نقشہ کو دیکھا جائے تو حیران کن بات سامنے آئے گی کہ یہ علاقے پاکستانی سرحد سے کافی دور واقع ہے۔ یہ علاقے کسی طرح بھی پاکستان کا سرحدی شہر نہیں بنتا جہاں باآسانی کو سرحد پار کرکے یہ سب کچھ کر جائے۔ پہگام پاکستانی سرحد سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے اور سری نگر کے مغرب میں تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ درمیان بھارت کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشتگرد باآسانی وہاں پہنچ کر یہ سب کچھ کر جائیں۔ اس لیے یہ واقعہ یقینی طور پر مقامی سطح پر ہوا ہے، چاہے وہ کشمیری عسکریت پسندوں کے ذریعے ہو یا بی جے پی کے حامیوں کی کسی کارروائی کا نتیجہ ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمستونگ: پولیو ٹیم پر حملہ، سکیورٹی پر مامور 2 لیویز اہلکار شہید مستونگ: پولیو ٹیم پر حملہ، سکیورٹی پر مامور 2 لیویز اہلکار شہید وزیراعظم نے حکومتی کارکردگی کے نظام میں بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی امریکی کانگریس مین جیک برگمین کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج اسلام آباد میں عوامی سہولت کے لیے کئی بڑے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ عمران خان کی نااہلی پر احتجاج؛ پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائدCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم