UrduPoint:
2025-07-26@14:18:44 GMT

سفید پوش طبقے کا رمضان

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

سفید پوش طبقے کا رمضان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج بہت سے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ عالمی عدم مساوات کے ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کے پاس ملک کی 64 فیصد دولت ہے جبکہ 50 فیصد آبادی کی صرف چار فیصد دولت تک رسائی ہے۔

ایک طرف اشرافیہ ہیں جو رمضان کو بھی سماجی روابط بڑھانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سحر و افطار کی بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان دعوتوں کے لیے ڈیزائنرز ہر سال رمضان کلیکشن کے نام سے کپڑے بھی متعارف کراتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں سحری اور افطاری کی بہت سی ڈیلز پیش کی جاتی ہیں۔ گھر میں منعقد کی گئی دعوتوں میں بھی انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب دعوتوں اور تقریبات کی تشہیر سوشل میڈیا پر بھی بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے، یعنی یہ طبقہ سارا مہینہ پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے پر لاکھوں روپے با آسانی خرچ کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف وہ غریب طبقہ ہے جو صدقہ خیرات اور امداد پر بہت حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جہاں سارے خاندان کے لیے دو سے تین وقت کا کھانا، موسم کے اعتبار سے مناسب کپڑے پہننا اور رہنے کے لیے مناسب جگہ بھی مشکل ہے۔

پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کے مطابق پاکستانی ہر سال 240 بلین روپے یعنی دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ فلاحی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔

چونکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ماہ رمضان میں ہر نیکی کا صلہ کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اسی مہینے میں بڑھ چڑھ کر فلاحی کام کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جگہ جگہ مفت افطار کے لنگر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

افطاری اور پورے ماہ رمضان کا راشن بانٹنے کا بھی عام رواج ہے۔ یعنی ملک کا سب سے غریب طبقہ اس مہینے میں کی جانے والی مدد سے خوب مستفید ہوتا ہے۔

مفت چیزیں بانٹنے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ صدقہ خیرات اور راشن کو اپنا حق سمجھ کر تقاضا کیا جاتا ہے۔ بازار میں جا کر کوئی بھی چیز خریدنا چار پانچ فقیروں سے بحث کیے بغیر ناممکن ہو جاتا ہے۔

ان دونوں طبقات کے درمیان ایک تنخواہ دار متوسط سفید پوش طبقہ رمضان کی مہنگائی سے سب سے زیادہ پستا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کی عزت نفس کسی سے مدد کا مطالبہ کرنا گوارا نہیں کرتی اور نہ ہی یہ صدقہ خیرات قبول کرتے ہیں۔ یہ طبقہ عام طور پر کچھ بچت کر کے اور کفایت شعاری سے اپنا بھرم قائم رکھتا ہے مگر یہ کمر توڑ مہنگائی اس بھرم کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ ایک بال بچے دار انسان جس نے بچوں کے تعلیمی اخراجات، گھر کے بل ادا کرنے کے ساتھ چولہا بھی جلائے رکھنا ہے اس کے لیے یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کسی آزمائش سے کم نہیں۔

سوشل میڈیا پر کی گئی امارت اور فضول خرچی کی تشہیر بھی عام انسان کی زندگی کو مزید اضطراب اور بے سکونی کا شکار کرتی ہے۔ ہر طرف مہنگے اور لذیذ کھانے اور برینڈڈ چیزیں دیکھنا اور ان تک رسائی نہ رکھنا چھوٹے بچوں میں بھی احساس کمتری پیدا کرتا ہے اور ان کا مخلتف اشیاء کے لیے تقاضا کرنا والدین کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طبقے کے کچھ لوگ جو گھریلو ملازمین رکھتے ہیں ان پر ان ملازمین کی طرف سے بھی رمضان میں راشن لے کے دینے کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کی طرف سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے اور ایک عام انسان کی زندگی کو آسان بنایا جائے تاکہ اس بابرکت مہینے کو سب لوگ ایک ہی طرح سے خوشی اور اطمینان کے ساتھ گزار سکیں۔ لیکن بد قسمتی سے کیا ہونا چاہیے ایک مفروضہ ہے اور اصل میں کیا ہوتا ہے وہی حقیقت ہے۔

اس سلسلے میں مخیر حضرات کوشش کر کے سارا زور صرف لنگر اور مفت بانٹنے کی بجائے سستے بازار اور کم قیمت اشیاء کی خریداری کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

تاکہ سفید پوش طبقہ عزت نفس مجروح کیے بغیر خوشی اور اطمینان کے ساتھ اس بابرکت مہینے کو گزار سکے۔

معاشرے میں رائج عدم مساوات بڑھتی چلی جا رہی ہے اور مل کر ایک دوسرے کا خیال کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ مدد کر سکیں تو وہ صرف بازاروں میں فقیروں تک اس مدد کو محدود نہ کریں۔ سب سے پہلے اپنے آس پاس اپنے خاندان اور اپنے ہمسائے میں ان سفید پوش لوگوں کی خاموشی سے مدد کریں۔

مدد کے بہت سے باپردہ طریقے ہو سکتے ہیں جیسے کہ چپکے سے کسی بچے کی فیس ادا کر دیں، کسی کے گھر کی بجلی کا بل ادا کر دیں اور غیر اعلانیہ ان کی زندگیاں آسان بنائیں۔ بد قسمتی سے ہم صرف حکومت پر تکیہ کرکے اپنے ملک کی ایک بڑی آبادی کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سفید پوش کے لیے

پڑھیں:

لاش کی بو چھپانے کیلئے سفید پاؤڈر؟ موت کے بعد حمیرا اصغر کی واٹس ایپ ’ڈی پی‘ کیسے غائب ہوئی؟ تفتیشی ٹیم اُلجھ کر رہ گئی

کراچی(شوبز ڈیسک)کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں کئی ماہ پرانی لاش ملنے کے بعد اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی موت معمہ بنتی جا رہی ہے۔ اداکارہ کی پراسرار گمشدگی، ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹ پر ہونے والی سرگرمیوں اور لاش کے ساتھ برآمد ہونے والے مشکوک شواہد نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔

اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ان کے فلیٹ سے اس وقت ملی جب گمشدگی کی شکایت پر تفتیش شروع کی گئی۔ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اداکارہ کی موت سات یا آٹھ اکتوبر 2024 کو واقع ہوئی، جبکہ ان کا موبائل فون آخری بار 7 اکتوبر کی شام پانچ بجے استعمال ہوا۔ تاہم اس کے باوجود اداکارہ کے واٹس ایپ اکاؤنٹ پر فروری 2025 تک کچھ سرگرمیاں ریکارڈ کی گئیں، جس میں ان کی پروفائل تصویر (ڈی پی) کا غائب ہونا اور ”لاسٹ سین“ ہٹایا جانا شامل ہے۔

اداکارہ کے قریبی ساتھی اور ہیئر اسٹائلسٹ دانش مقصود کے مطابق، حمیرا کے واٹس ایپ پر 5 فروری کے بعد بھی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اداکارہ اکتوبر میں ہی وفات پا گئی تھیں تو یہ ڈیجیٹل تبدیلیاں کس نے کیں؟ کیا کسی نے ان کا موبائل استعمال کیا یا پھر اکاؤنٹ کسی اور ڈیوائس پر متحرک رہا؟

تفتیشی حکام اس پہلو پر بھی غور کر رہے ہیں کہ واٹس ایپ اکاؤنٹ اگر 120 دن تک غیر فعال رہے تو خود بخود ڈیلیٹ ہو جاتا ہے اور پروفائل تصویر بھی غائب ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اصول لاگو کیا جائے تو 7 اکتوبر 2024 سے 120 دن بعد، یعنی 4 فروری 2025 کو اکاؤنٹ غیر فعال ہوا ہوگا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا حمیرا اصغر کا فون کب تک انٹرنیٹ سے منسلک رہا۔

مزید یہ کہ فلیٹ سے ملنے والی لاش کے ساتھ مٹی کے برتنوں میں سفید سفوف بھی ملا ہے، جس پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اسے لاش کی بو کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پولیس حکام اب نہ صرف موت کے اصل اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اس ڈیجیٹل معمہ کو بھی سلجھانے میں مصروف ہیں کہ اداکارہ کے واٹس ایپ ڈی پی اور لاسٹ سین کیسے اور کب غائب ہوا؟

حمیرا اصغر کی المناک موت نے نہ صرف ان کے مداحوں کو افسردہ کر دیا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جن کے جوابات تاحال دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  •  چینی مہنگی ‘مارکیٹ سے غائب :ایک لاکھ ٹن درآمد کرنے کامزید ٹینڈر جاری
  • اسرائیل اور بھارت سے سفید چینی درآمد کرنے پر مکمل پابندی
  • ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا ایک اور ٹینڈر جاری
  • لاش کی بو چھپانے کیلئے سفید پاؤڈر؟ موت کے بعد حمیرا اصغر کی واٹس ایپ ’ڈی پی‘ کیسے غائب ہوئی؟ تفتیشی ٹیم اُلجھ کر رہ گئی