اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج بہت سے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ عالمی عدم مساوات کے ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کے پاس ملک کی 64 فیصد دولت ہے جبکہ 50 فیصد آبادی کی صرف چار فیصد دولت تک رسائی ہے۔
ایک طرف اشرافیہ ہیں جو رمضان کو بھی سماجی روابط بڑھانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
سحر و افطار کی بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان دعوتوں کے لیے ڈیزائنرز ہر سال رمضان کلیکشن کے نام سے کپڑے بھی متعارف کراتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں سحری اور افطاری کی بہت سی ڈیلز پیش کی جاتی ہیں۔ گھر میں منعقد کی گئی دعوتوں میں بھی انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب دعوتوں اور تقریبات کی تشہیر سوشل میڈیا پر بھی بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے، یعنی یہ طبقہ سارا مہینہ پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے پر لاکھوں روپے با آسانی خرچ کر دیتا ہے۔(جاری ہے)
دوسری طرف وہ غریب طبقہ ہے جو صدقہ خیرات اور امداد پر بہت حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جہاں سارے خاندان کے لیے دو سے تین وقت کا کھانا، موسم کے اعتبار سے مناسب کپڑے پہننا اور رہنے کے لیے مناسب جگہ بھی مشکل ہے۔
پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کے مطابق پاکستانی ہر سال 240 بلین روپے یعنی دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ فلاحی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
چونکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ماہ رمضان میں ہر نیکی کا صلہ کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اسی مہینے میں بڑھ چڑھ کر فلاحی کام کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جگہ جگہ مفت افطار کے لنگر دیکھنے کو ملتے ہیں۔افطاری اور پورے ماہ رمضان کا راشن بانٹنے کا بھی عام رواج ہے۔ یعنی ملک کا سب سے غریب طبقہ اس مہینے میں کی جانے والی مدد سے خوب مستفید ہوتا ہے۔
مفت چیزیں بانٹنے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ صدقہ خیرات اور راشن کو اپنا حق سمجھ کر تقاضا کیا جاتا ہے۔ بازار میں جا کر کوئی بھی چیز خریدنا چار پانچ فقیروں سے بحث کیے بغیر ناممکن ہو جاتا ہے۔ان دونوں طبقات کے درمیان ایک تنخواہ دار متوسط سفید پوش طبقہ رمضان کی مہنگائی سے سب سے زیادہ پستا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی عزت نفس کسی سے مدد کا مطالبہ کرنا گوارا نہیں کرتی اور نہ ہی یہ صدقہ خیرات قبول کرتے ہیں۔ یہ طبقہ عام طور پر کچھ بچت کر کے اور کفایت شعاری سے اپنا بھرم قائم رکھتا ہے مگر یہ کمر توڑ مہنگائی اس بھرم کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ ایک بال بچے دار انسان جس نے بچوں کے تعلیمی اخراجات، گھر کے بل ادا کرنے کے ساتھ چولہا بھی جلائے رکھنا ہے اس کے لیے یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کسی آزمائش سے کم نہیں۔سوشل میڈیا پر کی گئی امارت اور فضول خرچی کی تشہیر بھی عام انسان کی زندگی کو مزید اضطراب اور بے سکونی کا شکار کرتی ہے۔ ہر طرف مہنگے اور لذیذ کھانے اور برینڈڈ چیزیں دیکھنا اور ان تک رسائی نہ رکھنا چھوٹے بچوں میں بھی احساس کمتری پیدا کرتا ہے اور ان کا مخلتف اشیاء کے لیے تقاضا کرنا والدین کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طبقے کے کچھ لوگ جو گھریلو ملازمین رکھتے ہیں ان پر ان ملازمین کی طرف سے بھی رمضان میں راشن لے کے دینے کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کی طرف سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے اور ایک عام انسان کی زندگی کو آسان بنایا جائے تاکہ اس بابرکت مہینے کو سب لوگ ایک ہی طرح سے خوشی اور اطمینان کے ساتھ گزار سکیں۔ لیکن بد قسمتی سے کیا ہونا چاہیے ایک مفروضہ ہے اور اصل میں کیا ہوتا ہے وہی حقیقت ہے۔
اس سلسلے میں مخیر حضرات کوشش کر کے سارا زور صرف لنگر اور مفت بانٹنے کی بجائے سستے بازار اور کم قیمت اشیاء کی خریداری کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
تاکہ سفید پوش طبقہ عزت نفس مجروح کیے بغیر خوشی اور اطمینان کے ساتھ اس بابرکت مہینے کو گزار سکے۔معاشرے میں رائج عدم مساوات بڑھتی چلی جا رہی ہے اور مل کر ایک دوسرے کا خیال کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ مدد کر سکیں تو وہ صرف بازاروں میں فقیروں تک اس مدد کو محدود نہ کریں۔ سب سے پہلے اپنے آس پاس اپنے خاندان اور اپنے ہمسائے میں ان سفید پوش لوگوں کی خاموشی سے مدد کریں۔
مدد کے بہت سے باپردہ طریقے ہو سکتے ہیں جیسے کہ چپکے سے کسی بچے کی فیس ادا کر دیں، کسی کے گھر کی بجلی کا بل ادا کر دیں اور غیر اعلانیہ ان کی زندگیاں آسان بنائیں۔ بد قسمتی سے ہم صرف حکومت پر تکیہ کرکے اپنے ملک کی ایک بڑی آبادی کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سفید پوش کے لیے
پڑھیں:
تاریخی دفاعی معاہدے پر جشن: اسلام آباد جگمگا اٹھا، سعودی ٹاورز بھی سبز و سفید پرچموں سے مزین
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اہم ترین معاہدے کی خوشی میں پاکستان اور سعودی عرب میں غیرمعمولی مسرت اور جوش و خروش کا اظہار کیا جارہا ہے۔
سعودی عرب میں تمام ٹاورز کو پاکستان اور سعودی عرب کے خوبصورت پرچموں کے ساتھ سجایا گیا۔
دوسری طرف پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدے کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو دلکش انداز میں سجایا گیا ہے۔
اسلام آباد کی اہم شاہراہوں، انڈر پاسسز، چوراہوں اور انٹرچینجز کو دونوں ممالک کے قومی پرچموں اور برقی قمقموں سے روشن کیا گیا۔
شاہراہ دستور، مارگلہ ایونیو، جناح ایونیو، اسلام آباد ایکسپریس وے اور سری نگر ہائی وے سمیت مرکزی راستے روشنیوں سے جگمگا اٹھے۔
ڈپلومیٹک انکلیو، پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کو بھی دلکش لائٹس سے مزین کیا گیا جبکہ جناح کنونشن سینٹر، سرینہ ہوٹل، بلیو ایریا اور ایف سکس، ایف سیون کے کمرشل مراکز کو خوبصورتی سے سجایا گیا۔
سی ڈی اے کے عملے نے شہر کی آرائش کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور انتظامات کیے۔ شہریوں کے مطابق قومی پرچموں اور روشنیوں سے آراستہ یہ مناظر اسلام آباد کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں۔
یہ سجاوٹ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان لازوال دوستی اور بھائی چارے کو خراجِ تحسین ہے بلکہ مستحکم تعلقات اور مشترکہ ترقی کے عزم کی علامت بھی قرار دی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں