سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
رمضان کا مہینہ قران مجید کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس پر غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ارادہ ہے کہ اس مہینے میں قران مجید کے بعض احکام پر گفتگو کی جائے۔ آج سود کی حرمت پر بات کریں گے جس کے متعلق قران مجید کا واضح فرمان ہے کہ سود کی حرمت بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:
’پس جو یہودی ہوئے ان کے ظلم کے سبب سے ہم نے ان پر بعض ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں، اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں‘۔ (سورۃ النسآء، آیت160-161)
اس کالم میں پہلے بائبل کے عہدنامۂ قدیم کی، یعنی یہودی بائبل، سے بعض تصریحات پیش کی جائیں گی اور ان کا قرانِ کریم کے ساتھ تعلق بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدنامۂ جدید، جسے یہودی تو نہیں مانتے لیکن مسیحی اسے بائبل کا حصہ سمجھتے ہیں، کی بعض تصریحات کی وضاحت پیش کی جائے گی جن سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دے دی تھی۔ تورات عہدنامۂ قدیم میں، جبکہ انجیل عہدنامۂ جدید میں شامل ہے۔
عہدنامۂ قدیم کی تصریحاتتورات کے سِفر استثنیٰ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے‘۔ (استثنا: باب 23، آیت 19)
تاہم اس کے معاً بعد والی آیت میں’پردیسی‘ سے سود لینا جائز قرار دیا گیا ہے:
’تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا‘۔ (ایضاً: آیت 20)
یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات
یہودیوں کی جانب سے ’اپنے بھائی‘ اور ’پردیسی‘ کے درمیان اس فرق کا قرآن مجید نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ بعض اہلِ کتاب امانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ان کو بڑا خزانہ بھی سپرد کیا جائے، تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے، لیکن ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دینار بھی دیا جائے، تو وہ اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان اُمّیوں (عربوں) کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے (سورۃ آل عمران، آیت75)۔ قران مجید نے اسے اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا ہے۔
سود کے متعلق تورات کی کئی دیگر آیات میں بھی احکامات ملتے ہیں۔ مثلاً سِفر خروج اور سِفر احبار میں بھی ’اپنے بھائیوں‘ سے سود لینے کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے۔ (خروج: باب 22، آیات 25-26؛ احبار: باب 25، آیات 35-36) سِفر استثنا میں ہر 7ویں سال مقروضوں کے قرضوں کی معافی کے احکامات ہیں۔ (استثنیٰ: باب 15، آیات 1-8)
اسی طرح یہودی بائبل کے دوسرے حصے، ’اسفارِ انبیاء‘، میں بھی یہ احکام ملتے ہیں۔ مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سود لینے والے اور دینے والے کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (یسعیاہ: باب 24، آیات 1-2) معلوم ہے کہ بعض احادیث میں بھی ’سود کھانے والے‘ اور ’کھلانے والے‘ کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوٰ و مؤکلہ) یرمیاہ نبی کے صحیفے میں سود خوری کو لعنت کا ایک سبب قرار دیاگیا ہے۔ (یرمیاہ: باب 15، آیت 10) حزقیال نبی کے صحیفے میں خدا کے انصاف اور عدل کا قانون بیان کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ذلت اور رسوائی کے اسباب میں ایک بڑا سبب سودخوری ہے(حزقیال: باب 18 اور باب 22)۔ نحمیاہ نبی کے صحیفے (باب 5) معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی تباہی کے زمانے میں بنی اسرائیل بالعموم سودخوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔
مزید پڑھیے: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
حبقوق نبی کے صحیفے میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اوروں کے مال سے مالدار ہوتے ہیں۔ (حبقوق:باب 2، آیات 6-7) قرآن مجید نے بھی سورۃ الروم کی آیت 39 میں سود خور کی ذہنیت کی وضاحت کے لیے ’تاکہ وہ بڑھے لوگوں کے اموال میں‘ کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ یہاں سود خوار کے مال کو ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کر موٹا ہوتا ہے۔
یہودی بائبل کے تیسرے حصے، ’اسفارِ حکمت‘، میں بھی سود کی ممانعت کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً زبور 15 میں آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ذکر کی ہے کہ وہ اپنی رقم سود پر نہیں دیتے۔ سِفر امثالِ سلیمان (باب 28، آیت 7) میں ’مسرفین‘ کی ایک علامت یہ ذکر کی ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انبیائے بنی اسرائیل نے مسلسل بنی اسرائیل کو سود کی حرمت اور اس کی قباحتوں سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ سود خوری میں مبتلا ہوتے رہے، اور یہ ان پر لعنت کا ایک بڑا سبب ہوا۔
عبرانی میں سود کےلیے الفاظممتاز مسیحی محقق جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق عبرانی (یہودی) بائبل میں سود کے لیے 2 مختلف قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: نشک اور تربیت ۔ نشک میں ’کاٹ کھانے‘ کا مفہوم پنہاں ہے۔ تربیت میں بڑھوتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے مشتق ایک لفظ تربوت ہے جو نسل کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر اس میں تحقیر کا مفہوم پایا جاتا ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ معلوم ہے کہ عربی میں قرض کے مفہوم میں بھی کاٹنے کا معنی پایاجاتا ہے، اور سود کے لیے قرآن مجید نے ربا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں بڑھوتری کا مفہوم موجود ہے۔
کیا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دی تھی؟انجیلوں کی بعض آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی حرمت کا حکم منسوخ کردیا تھا (انجیل متی: باب 25، آیت 27؛ انجیل لوقا: باب 19، آیت 23) تاہم یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
اولاً: سیدنا مسیح علیہ السلام تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اس کی شرح و وضاحت کے لیے آئے تھے، جیسا کہ خود انہوں نے اپنے مشہور ’پہاڑی کے وعظ‘ میں صراحت کے ساتھ واضح کیا تھا۔
ثانیاً: جن آیات سے استدلال کیاجاتا ہے، ان میں سیدنا مسیح علیہ السلام صراحتاً سود کو جائز نہیں ٹھہراتے، بلکہ ایک تمثیل کے ضمن میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مفہوم (implication) کے ذریعے منطوق (explicit) کو منسوخ (abrogate) نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص جبکہ مفہوم کی دیگر تعبیرات ممکن ہوں۔
ثالثاً: جس یونانی لفظ tokos کا ترجمہ ’سود‘ کیا گیا ہے اس میں منافع اور بڑھوتری کا مفہوم شامل ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جائز تجارتی منافع کا ذکر کیا ہو، نہ کہ ناجائز سود کا۔ ان تمثیلات کی ایسی تعبیر بالکل ممکن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونانی لفظ بھی اصل میں کسی اور ارامی لفظ کا ترجمہ ہے کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے یونانی زبان میں نہیںِ بلکہ ارامی زبان میں یہ تمثیل بیان کی تھی۔ پس اگر اس یونانی لفظ کا مفہوم ’سود‘ ہی ہو، تب بھی محض ترجمے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کو جائز قرار دیا۔
اسلامی قانون کے ایک جزیے کی وضاحتیہاں ایک وضاحت اسلامی قانون کے ایک جزیے کے متعلق بھی ضروری ہے۔ حنفی فقہاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے ’دار الحرب‘ میں سود کو جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مختصر اشارات پیش کیے جاتے ہیں۔
اولاً: دار الحرب سے مراد ہر غیر مسلم علاقہ نہیں ہے، بلکہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ دارالاسلام سے برسرجنگ ہوں۔ جب جنگ میں فریقِ مخالف کا خون بہانا جائز ہوتا ہے، تو اس کے مال کو نقصان پہنچانا بھی جائز ہوتا ہے۔ پھر جب نقصان پہنچانا جائز ہوا تو اس کی رضامندی سے ایک درہم کے بدلے دو دراہم لینا تو بدرجۂ اولی جائز ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی ظاہری مشابہت کی بنا پر سود کہے، تو یہ غلط ہے کیونکہ درحقیقت یہ سود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
ثانیاً: اس مسئلے کا نہایت گہرا تعلق اس مسئلے کے ساتھ ہے کہ دارالاسلام کی عدالتیں کیا کسی ایسے تنازعے میں اختیار سماعت (Jurisdiction) رکھتی ہیں جو دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا؟ حنفی فقہاء اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے غیر مسلم علاقے میں، جو ہمارے ساتھ برسرجنگ نہ ہو، ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو اسے فتوی تو یہی دیا جائے گا کہ وہ اضافی رقم لوٹائے، مگر عدالت کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیاجاسکے گا، نہ ہی اسے سزا دی جاسکے گی۔ بعینہ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ساتھ دارالاسلام سے باہر زیادتی ہو اور بعد میں مجرم دارالاسلام میں داخل ہو، تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ تنازعہ دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا، اس لیے دارالاسلام کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔
غالباً یہودی احبار و فقہاء نے بھی حنفی فقہاء کی طرح رائے قائم کی تھی کہ برسرجنگ قوموں کے کسی فرد سے اس کی رضامندی سے اضافی رقم لینا سود کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، بالخصوص جب معاہدہ بنی اسرائیل کی علاقائی حدود سے باہر ہوا ہو۔ بعد میں اسے ایک عمومی رخصت سمجھا گیا کہ تمام غیر یہودیوں سے ہر جگہ سود لیاجا سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ابتدا میں تورات کی متعلقہ آیات کے حاشیے پر لکھی گئی ہوگی جو بعد میں متن میں داخل ہوگئی۔ و اللہ اعلم۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام رمضان سود سود کی حرمت قرآن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنی اسرائیل حضرت عیسی علیہ السلام سود کی حرمت مسیح علیہ السلام نے سود اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل سود کی حرمت کے متعلق قرار دیا سے باہر دیا گیا نہیں ہے میں بھی جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں کہ ذکر کی کیا ہے کے لیے کو سود گیا ہے سود کے اور اس اس لیے
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔