سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
رمضان کا مہینہ قران مجید کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس پر غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ارادہ ہے کہ اس مہینے میں قران مجید کے بعض احکام پر گفتگو کی جائے۔ آج سود کی حرمت پر بات کریں گے جس کے متعلق قران مجید کا واضح فرمان ہے کہ سود کی حرمت بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:
’پس جو یہودی ہوئے ان کے ظلم کے سبب سے ہم نے ان پر بعض ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں، اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں‘۔ (سورۃ النسآء، آیت160-161)
اس کالم میں پہلے بائبل کے عہدنامۂ قدیم کی، یعنی یہودی بائبل، سے بعض تصریحات پیش کی جائیں گی اور ان کا قرانِ کریم کے ساتھ تعلق بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدنامۂ جدید، جسے یہودی تو نہیں مانتے لیکن مسیحی اسے بائبل کا حصہ سمجھتے ہیں، کی بعض تصریحات کی وضاحت پیش کی جائے گی جن سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دے دی تھی۔ تورات عہدنامۂ قدیم میں، جبکہ انجیل عہدنامۂ جدید میں شامل ہے۔
عہدنامۂ قدیم کی تصریحاتتورات کے سِفر استثنیٰ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے‘۔ (استثنا: باب 23، آیت 19)
تاہم اس کے معاً بعد والی آیت میں’پردیسی‘ سے سود لینا جائز قرار دیا گیا ہے:
’تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا‘۔ (ایضاً: آیت 20)
یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات
یہودیوں کی جانب سے ’اپنے بھائی‘ اور ’پردیسی‘ کے درمیان اس فرق کا قرآن مجید نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ بعض اہلِ کتاب امانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ان کو بڑا خزانہ بھی سپرد کیا جائے، تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے، لیکن ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دینار بھی دیا جائے، تو وہ اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان اُمّیوں (عربوں) کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے (سورۃ آل عمران، آیت75)۔ قران مجید نے اسے اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا ہے۔
سود کے متعلق تورات کی کئی دیگر آیات میں بھی احکامات ملتے ہیں۔ مثلاً سِفر خروج اور سِفر احبار میں بھی ’اپنے بھائیوں‘ سے سود لینے کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے۔ (خروج: باب 22، آیات 25-26؛ احبار: باب 25، آیات 35-36) سِفر استثنا میں ہر 7ویں سال مقروضوں کے قرضوں کی معافی کے احکامات ہیں۔ (استثنیٰ: باب 15، آیات 1-8)
اسی طرح یہودی بائبل کے دوسرے حصے، ’اسفارِ انبیاء‘، میں بھی یہ احکام ملتے ہیں۔ مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سود لینے والے اور دینے والے کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (یسعیاہ: باب 24، آیات 1-2) معلوم ہے کہ بعض احادیث میں بھی ’سود کھانے والے‘ اور ’کھلانے والے‘ کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوٰ و مؤکلہ) یرمیاہ نبی کے صحیفے میں سود خوری کو لعنت کا ایک سبب قرار دیاگیا ہے۔ (یرمیاہ: باب 15، آیت 10) حزقیال نبی کے صحیفے میں خدا کے انصاف اور عدل کا قانون بیان کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ذلت اور رسوائی کے اسباب میں ایک بڑا سبب سودخوری ہے(حزقیال: باب 18 اور باب 22)۔ نحمیاہ نبی کے صحیفے (باب 5) معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی تباہی کے زمانے میں بنی اسرائیل بالعموم سودخوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔
مزید پڑھیے: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
حبقوق نبی کے صحیفے میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اوروں کے مال سے مالدار ہوتے ہیں۔ (حبقوق:باب 2، آیات 6-7) قرآن مجید نے بھی سورۃ الروم کی آیت 39 میں سود خور کی ذہنیت کی وضاحت کے لیے ’تاکہ وہ بڑھے لوگوں کے اموال میں‘ کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ یہاں سود خوار کے مال کو ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کر موٹا ہوتا ہے۔
یہودی بائبل کے تیسرے حصے، ’اسفارِ حکمت‘، میں بھی سود کی ممانعت کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً زبور 15 میں آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ذکر کی ہے کہ وہ اپنی رقم سود پر نہیں دیتے۔ سِفر امثالِ سلیمان (باب 28، آیت 7) میں ’مسرفین‘ کی ایک علامت یہ ذکر کی ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انبیائے بنی اسرائیل نے مسلسل بنی اسرائیل کو سود کی حرمت اور اس کی قباحتوں سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ سود خوری میں مبتلا ہوتے رہے، اور یہ ان پر لعنت کا ایک بڑا سبب ہوا۔
عبرانی میں سود کےلیے الفاظممتاز مسیحی محقق جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق عبرانی (یہودی) بائبل میں سود کے لیے 2 مختلف قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: نشک اور تربیت ۔ نشک میں ’کاٹ کھانے‘ کا مفہوم پنہاں ہے۔ تربیت میں بڑھوتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے مشتق ایک لفظ تربوت ہے جو نسل کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر اس میں تحقیر کا مفہوم پایا جاتا ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ معلوم ہے کہ عربی میں قرض کے مفہوم میں بھی کاٹنے کا معنی پایاجاتا ہے، اور سود کے لیے قرآن مجید نے ربا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں بڑھوتری کا مفہوم موجود ہے۔
کیا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دی تھی؟انجیلوں کی بعض آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی حرمت کا حکم منسوخ کردیا تھا (انجیل متی: باب 25، آیت 27؛ انجیل لوقا: باب 19، آیت 23) تاہم یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
اولاً: سیدنا مسیح علیہ السلام تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اس کی شرح و وضاحت کے لیے آئے تھے، جیسا کہ خود انہوں نے اپنے مشہور ’پہاڑی کے وعظ‘ میں صراحت کے ساتھ واضح کیا تھا۔
ثانیاً: جن آیات سے استدلال کیاجاتا ہے، ان میں سیدنا مسیح علیہ السلام صراحتاً سود کو جائز نہیں ٹھہراتے، بلکہ ایک تمثیل کے ضمن میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مفہوم (implication) کے ذریعے منطوق (explicit) کو منسوخ (abrogate) نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص جبکہ مفہوم کی دیگر تعبیرات ممکن ہوں۔
ثالثاً: جس یونانی لفظ tokos کا ترجمہ ’سود‘ کیا گیا ہے اس میں منافع اور بڑھوتری کا مفہوم شامل ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جائز تجارتی منافع کا ذکر کیا ہو، نہ کہ ناجائز سود کا۔ ان تمثیلات کی ایسی تعبیر بالکل ممکن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونانی لفظ بھی اصل میں کسی اور ارامی لفظ کا ترجمہ ہے کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے یونانی زبان میں نہیںِ بلکہ ارامی زبان میں یہ تمثیل بیان کی تھی۔ پس اگر اس یونانی لفظ کا مفہوم ’سود‘ ہی ہو، تب بھی محض ترجمے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کو جائز قرار دیا۔
اسلامی قانون کے ایک جزیے کی وضاحتیہاں ایک وضاحت اسلامی قانون کے ایک جزیے کے متعلق بھی ضروری ہے۔ حنفی فقہاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے ’دار الحرب‘ میں سود کو جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مختصر اشارات پیش کیے جاتے ہیں۔
اولاً: دار الحرب سے مراد ہر غیر مسلم علاقہ نہیں ہے، بلکہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ دارالاسلام سے برسرجنگ ہوں۔ جب جنگ میں فریقِ مخالف کا خون بہانا جائز ہوتا ہے، تو اس کے مال کو نقصان پہنچانا بھی جائز ہوتا ہے۔ پھر جب نقصان پہنچانا جائز ہوا تو اس کی رضامندی سے ایک درہم کے بدلے دو دراہم لینا تو بدرجۂ اولی جائز ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی ظاہری مشابہت کی بنا پر سود کہے، تو یہ غلط ہے کیونکہ درحقیقت یہ سود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
ثانیاً: اس مسئلے کا نہایت گہرا تعلق اس مسئلے کے ساتھ ہے کہ دارالاسلام کی عدالتیں کیا کسی ایسے تنازعے میں اختیار سماعت (Jurisdiction) رکھتی ہیں جو دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا؟ حنفی فقہاء اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے غیر مسلم علاقے میں، جو ہمارے ساتھ برسرجنگ نہ ہو، ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو اسے فتوی تو یہی دیا جائے گا کہ وہ اضافی رقم لوٹائے، مگر عدالت کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیاجاسکے گا، نہ ہی اسے سزا دی جاسکے گی۔ بعینہ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ساتھ دارالاسلام سے باہر زیادتی ہو اور بعد میں مجرم دارالاسلام میں داخل ہو، تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ تنازعہ دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا، اس لیے دارالاسلام کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔
غالباً یہودی احبار و فقہاء نے بھی حنفی فقہاء کی طرح رائے قائم کی تھی کہ برسرجنگ قوموں کے کسی فرد سے اس کی رضامندی سے اضافی رقم لینا سود کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، بالخصوص جب معاہدہ بنی اسرائیل کی علاقائی حدود سے باہر ہوا ہو۔ بعد میں اسے ایک عمومی رخصت سمجھا گیا کہ تمام غیر یہودیوں سے ہر جگہ سود لیاجا سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ابتدا میں تورات کی متعلقہ آیات کے حاشیے پر لکھی گئی ہوگی جو بعد میں متن میں داخل ہوگئی۔ و اللہ اعلم۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام رمضان سود سود کی حرمت قرآن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنی اسرائیل حضرت عیسی علیہ السلام سود کی حرمت مسیح علیہ السلام نے سود اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل سود کی حرمت کے متعلق قرار دیا سے باہر دیا گیا نہیں ہے میں بھی جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں کہ ذکر کی کیا ہے کے لیے کو سود گیا ہے سود کے اور اس اس لیے
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔