WE News:
2025-06-09@21:12:19 GMT

سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

رمضان کا مہینہ قران مجید کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس پر غور و فکر  کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ارادہ ہے کہ اس مہینے میں قران مجید  کے بعض احکام پر گفتگو کی جائے۔ آج سود کی حرمت پر بات کریں گے جس کے متعلق قران مجید کا واضح فرمان ہے کہ سود کی حرمت بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:

’پس جو یہودی ہوئے ان کے ظلم کے سبب سے ہم نے ان پر بعض ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں، اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں‘۔  (سورۃ النسآء، آیت160-161)

اس کالم میں پہلے بائبل کے عہدنامۂ قدیم کی، یعنی یہودی بائبل، سے بعض تصریحات پیش کی جائیں گی اور ان کا قرانِ کریم کے ساتھ تعلق بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدنامۂ جدید، جسے یہودی تو نہیں مانتے لیکن مسیحی اسے بائبل کا حصہ سمجھتے ہیں، کی بعض تصریحات کی وضاحت پیش کی جائے گی جن سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دے دی تھی۔  تورات عہدنامۂ قدیم میں، جبکہ انجیل عہدنامۂ جدید میں شامل ہے۔

عہدنامۂ قدیم کی تصریحات

تورات کے سِفر استثنیٰ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:

’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے‘۔ (استثنا: باب 23، آیت 19)

تاہم اس کے معاً بعد والی آیت میں’پردیسی‘ سے سود لینا جائز قرار دیا گیا ہے:

’تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا‘۔ (ایضاً: آیت 20)

یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات

یہودیوں کی جانب سے ’اپنے بھائی‘ اور ’پردیسی‘ کے درمیان اس فرق کا قرآن مجید نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ بعض اہلِ کتاب امانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ان کو بڑا خزانہ بھی سپرد کیا جائے، تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے، لیکن ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دینار بھی دیا جائے، تو وہ اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان اُمّیوں (عربوں) کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے (سورۃ آل عمران، آیت75)۔ قران مجید نے اسے اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا ہے۔

سود کے متعلق تورات کی کئی دیگر آیات میں بھی احکامات ملتے ہیں۔ مثلاً سِفر خروج اور سِفر احبار میں بھی ’اپنے بھائیوں‘ سے سود لینے کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے۔ (خروج: باب 22، آیات 25-26؛ احبار: باب 25، آیات 35-36) سِفر استثنا میں ہر 7ویں سال مقروضوں کے قرضوں کی معافی کے احکامات ہیں۔ (استثنیٰ: باب 15، آیات 1-8)

اسی طرح یہودی بائبل کے دوسرے حصے، ’اسفارِ انبیاء‘، میں بھی یہ احکام ملتے ہیں۔ مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سود لینے والے اور دینے والے کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (یسعیاہ: باب 24، آیات 1-2) معلوم ہے کہ بعض احادیث میں بھی ’سود کھانے والے‘ اور ’کھلانے والے‘ کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوٰ و مؤکلہ)  یرمیاہ نبی کے صحیفے میں سود خوری کو لعنت کا ایک سبب قرار دیاگیا ہے۔ (یرمیاہ: باب 15، آیت 10) حزقیال نبی کے صحیفے میں خدا کے انصاف اور عدل کا قانون بیان کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ذلت اور رسوائی کے اسباب میں ایک بڑا سبب سودخوری ہے(حزقیال: باب 18 اور باب 22)۔  نحمیاہ نبی کے صحیفے (باب 5) معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی تباہی کے زمانے میں بنی اسرائیل بالعموم سودخوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔

مزید پڑھیے: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری

حبقوق نبی کے صحیفے میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اوروں کے مال سے مالدار ہوتے ہیں۔ (حبقوق:باب 2، آیات 6-7) قرآن مجید نے بھی سورۃ الروم کی آیت 39 میں سود خور کی ذہنیت کی وضاحت کے لیے ’تاکہ وہ بڑھے لوگوں کے اموال میں‘  کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ یہاں سود خوار کے مال کو ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کر موٹا ہوتا ہے۔

یہودی بائبل کے تیسرے حصے، ’اسفارِ حکمت‘، میں بھی سود کی ممانعت کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً زبور 15 میں آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ذکر کی ہے کہ وہ اپنی رقم سود پر نہیں دیتے۔ سِفر امثالِ سلیمان (باب 28، آیت 7) میں ’مسرفین‘ کی ایک علامت یہ ذکر کی ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انبیائے بنی اسرائیل نے مسلسل بنی اسرائیل کو سود کی حرمت اور اس کی قباحتوں سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ سود خوری میں مبتلا ہوتے رہے، اور یہ ان پر لعنت کا ایک بڑا سبب ہوا۔

عبرانی میں سود کےلیے الفاظ

ممتاز مسیحی محقق جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق عبرانی (یہودی) بائبل میں سود کے لیے 2 مختلف قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: نشک اور تربیت ۔ نشک میں ’کاٹ کھانے‘ کا مفہوم پنہاں ہے۔ تربیت میں بڑھوتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے مشتق ایک لفظ تربوت ہے جو نسل کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر اس میں تحقیر کا مفہوم پایا جاتا ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ معلوم ہے کہ عربی میں قرض کے مفہوم میں بھی کاٹنے کا معنی پایاجاتا ہے، اور سود کے لیے قرآن مجید نے ربا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں بڑھوتری کا مفہوم موجود ہے۔

کیا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دی تھی؟

انجیلوں کی بعض آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی حرمت کا حکم منسوخ کردیا تھا (انجیل متی: باب 25، آیت 27؛ انجیل لوقا: باب 19، آیت 23) تاہم یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر

اولاً: سیدنا مسیح علیہ السلام تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اس کی شرح و وضاحت کے لیے آئے تھے، جیسا کہ خود انہوں نے اپنے مشہور ’پہاڑی کے وعظ‘ میں صراحت کے ساتھ واضح کیا تھا۔

ثانیاً: جن آیات سے استدلال کیاجاتا ہے، ان میں سیدنا مسیح علیہ السلام صراحتاً سود کو جائز نہیں ٹھہراتے، بلکہ ایک تمثیل کے ضمن میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مفہوم (implication) کے ذریعے منطوق (explicit) کو منسوخ (abrogate) نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص جبکہ مفہوم کی دیگر تعبیرات ممکن ہوں۔

ثالثاً: جس یونانی لفظ tokos کا ترجمہ ’سود‘ کیا گیا ہے اس میں منافع اور بڑھوتری کا مفہوم شامل ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جائز تجارتی منافع کا ذکر کیا ہو، نہ کہ ناجائز سود کا۔ ان تمثیلات کی ایسی تعبیر بالکل ممکن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونانی لفظ بھی اصل میں کسی اور ارامی لفظ کا ترجمہ ہے کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے یونانی زبان میں نہیںِ بلکہ ارامی زبان میں یہ تمثیل بیان کی تھی۔ پس اگر اس یونانی لفظ کا مفہوم ’سود‘ ہی ہو، تب بھی محض ترجمے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کو جائز قرار دیا۔

اسلامی قانون کے ایک جزیے کی وضاحت

یہاں ایک وضاحت اسلامی قانون کے ایک جزیے کے متعلق بھی ضروری ہے۔ حنفی فقہاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے ’دار الحرب‘ میں سود کو جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مختصر اشارات پیش کیے جاتے ہیں۔

اولاً: دار الحرب سے مراد ہر غیر مسلم علاقہ نہیں ہے، بلکہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ دارالاسلام سے برسرجنگ ہوں۔ جب جنگ میں فریقِ مخالف کا خون بہانا جائز ہوتا ہے، تو اس کے مال کو نقصان پہنچانا بھی جائز ہوتا ہے۔ پھر جب نقصان پہنچانا جائز ہوا تو اس کی رضامندی سے ایک درہم کے بدلے دو دراہم لینا تو بدرجۂ اولی جائز ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی ظاہری مشابہت کی بنا پر سود کہے، تو یہ غلط ہے کیونکہ درحقیقت یہ سود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات

ثانیاً: اس مسئلے کا نہایت گہرا تعلق اس مسئلے کے ساتھ ہے کہ دارالاسلام کی عدالتیں کیا کسی ایسے تنازعے میں اختیار سماعت (Jurisdiction) رکھتی ہیں جو دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا؟ حنفی فقہاء اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے غیر مسلم علاقے میں، جو ہمارے ساتھ برسرجنگ نہ ہو، ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو اسے فتوی تو یہی دیا جائے گا کہ وہ اضافی رقم لوٹائے، مگر عدالت کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیاجاسکے گا، نہ ہی اسے سزا دی جاسکے گی۔ بعینہ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ساتھ دارالاسلام سے باہر زیادتی ہو اور بعد میں مجرم دارالاسلام میں داخل ہو، تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ تنازعہ دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا، اس لیے دارالاسلام کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔

غالباً یہودی احبار و فقہاء نے بھی حنفی فقہاء کی طرح رائے قائم کی تھی کہ برسرجنگ قوموں کے کسی فرد سے اس کی رضامندی سے اضافی رقم لینا سود کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، بالخصوص جب معاہدہ بنی اسرائیل کی علاقائی حدود سے باہر ہوا ہو۔ بعد میں اسے ایک عمومی رخصت سمجھا گیا کہ تمام غیر یہودیوں سے ہر جگہ سود لیاجا سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ابتدا میں تورات  کی متعلقہ آیات کے حاشیے پر لکھی گئی ہوگی جو بعد میں متن میں داخل ہوگئی۔ و اللہ اعلم۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام رمضان سود سود کی حرمت قرآن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنی اسرائیل حضرت عیسی علیہ السلام سود کی حرمت مسیح علیہ السلام نے سود اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل سود کی حرمت کے متعلق قرار دیا سے باہر دیا گیا نہیں ہے میں بھی جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں کہ ذکر کی کیا ہے کے لیے کو سود گیا ہے سود کے اور اس اس لیے

پڑھیں:

عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔

یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔

 قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔

عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟

قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔

 فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔

 عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔

عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔

 اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔

صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟