حاضر ہو یا غائب، حسینہ واجد کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا، ڈاکٹر یونس
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں موجود ہوں یا کہیں اور ان پر مقدمہ لازمی طور پر چلایا جائے گا۔
ڈاکٹر یونس نے کہا کہ ٹرائل نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بس مسئلہ صرف یہ ہے کہ آیا وہ ان کی موجودگی میں چلایا جاتا ہے یا غیر موجودگی میں۔
انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کے ساتھیوں، خاندان کے افراد اور کلائنٹس سب سے تفتیش کی جائے گی۔
ڈاکٹر یونس نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش نے باضابطہ طور پر بھارت سے حسینہ کی حوالگی کی درخواست کی تھی لیکن نئی دہلی کی جانب سے اس کا باضابطہ جواب نہیں ملا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانونی طور پر بھارت اسے حوالے کرنے کا پابند ہے۔
مزید پڑھیے: جماعت اسلامی کا بنگلہ دیش کے قیام سے اب تک کے واقعات پر وائٹ پیپر شائع کرنے کا مطالبہ
’ہاؤس آف مررز‘ کے نام سے مشہور متنازعہ حراستی مرکز کے دورے کے حوالے سے ڈاکٹر یونس نے کہا کہ وہاں حالات حیران کن اور بدترین تھے۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کے معاملے میں پیچیدگیوں کے باوجود بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک اہمیت ہے۔
ماضی کے حکومتی اقدامات کے متاثرین کے لیے انصاف کے حوالے سے ڈاکٹر یونس نے اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں تاہم ان کی قلیل مدتی انتظامیہ سست قانونی عمل کی وجہ سے مکمل احتساب کی ضمانت نہیں دے سکی۔
انہوں نے حسینہ کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں ان کے مالی معاملات اور اثاثوں کی مکمل جانچ کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: ناہید اسلام ایڈوائزری کونسل سے مستعفی، نئی سیاسی جماعت کی سربراہی کریں گے
روہنگیا بحران پر ڈاکٹر یونس نے تصدیق کی کہ بنگلہ دیش مہاجرین کی واپسی کے لیے محفوظ زون قائم کرنے کے لیے میانمار کے باغی گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کاکس بازار میں بڑھتے ہوئے تشدد، منشیات کی تجارت اور نیم فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے کشیدگی برقرار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس حسینہ واجد حسینہ واجد پر مقدمہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش حسینہ واجد حسینہ واجد پر مقدمہ ڈاکٹر یونس نے بنگلہ دیش کے حسینہ واجد نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملے تیز ہو گئے ہیں جہاں سے ہزاروں خاندانوں کو ان کے بھوکے بچوں سمیت جنوبی علاقوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں ایک اور جہنم زار ان کا منتظر ہے۔
جنوبی غزہ میں موجود یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا ہے کہ شمالی علاقوں سے بڑے پیمانے پر انخلا کے نتیجے میں انتہائی بدحال لوگوں کی زندگی کو مہلک خطرات لاحق ہیں۔
700 یوم تک متواتر جنگ کا سامنا کرنے والے پانچ لاکھ بچوں کو ایک سے دوسری تباہ حال جگہ پر جانے کے لیے کہنا غیرانسانی رویہ ہے۔ Tweet URLاسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر کے 10 لاکھ لوگوں کو علاقے سے انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں جس کے بعد علاقے سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
ڈیڑھ لاکھ افراد کی نقل مکانیامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق گزشتہ چند روز میں 70 ہزار لوگوں نے جنوبی علاقوں کا رخ کیا ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے عرصہ میں ایک لاکھ 50 ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ واحد دستیاب راستے شاہراہ الراشد کے ذریعے سفر کر رہے ہیں جس پر بہت زیادہ رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یونیسف کی ترجمان نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایک ایسی ماں سے ہوئی جو غزہ شہر سے اپنے پانچ بچوں کے ساتھ چھ گھنٹے کا پیدل سفر کر کے جنوبی علاقے میں آئی تھی۔ یہ تمام لوگ میلے کچیلے، پیاسے اور بھوکے تھے جبکہ دو بچوں کے پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے ساتھ المواصی اور گردونواح پر مشتمل نام نہاد محفوظ علاقے کی جانب نقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے جہاں حالات پہلے ہی خراب ہیں۔
المواصی میں مایوسی کا سمندرٹیس انگرام نے کہا ہے کہ غزہ شہر سے انخلا کرنے والے لوگ مایوس کن حالات میں جنوبی غزہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ جگہ عارضی خیموں کے سمندر کے مترادف ہے جہاں بنیادی سہولیات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد مقیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچوں میں غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
یونیسف کا اندازہ ہے کہ اس وقت تقریباً 26 ہزار بچوں کو شدید غذائی قلت کا علاج درکار ہے جن میں 10 ہزار کا تعلق غزہ شہر سے ہے جہاں گزشتہ ماہ کے آخر میں غذائی تحفظ کے ماہرین قحط کی تصدیق کر چکے ہیں۔غذائی قلت کے علاج سے محرومیٹیس انگرام نے بتایا کہ انخلا کے احکامات اور عسکری کارروائیوں کی وجہ سے رواں ہفتے غزہ شہر میں غذائیت کی فراہمی کے مراکز بند ہو گئے ہیں۔
اس طرح غذائی قلت کا شکار بچوں سے علاج کے مواقع چھن گئے ہیں۔ اگرچہ امدادی کارکن موقع پر موجود ہیں اور بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہر بمباری اور ہر رکاوٹ کے ساتھ یہ کام مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، گزشتہ اتوار کو امدادی ٹیموں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ 17 کارروائیاں طے کی تھیں جن میں سے چار کے لیے ہی اجازت مل سکی جبکہ سات کو مسترد کر دیا گیا۔
دیگر امدادی مشن راستوں میں رکاوٹوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیے گئے۔ترجمان نے بتایا ہے کہ غزہ میں لوگ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دو ہفتے قبل المواسی پر حملے میں آٹھ بچے اس وقت مارے گئے جب وہ پانی کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف تین سال تھی۔