حکومت اخراجات میں کمی، رائٹ سائزنگ کرے، محصولات شارٹ فال اسی سہ ماہی میں پورا کرنا ہو گا: آئی ایم ایف
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آئی ایم ایف نے آڈٹ کیسز کی بھاری تعداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اخراجات میں کمی کے لیے حکومت سے اصلاحاتی اقدامات پر فوری عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے تکنیکی ادوار کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارتوں اور اداروں سے متعلق آڈٹس کے تقریباً 5 سے 6 لاکھ زیر التوا کیسز ہیں، آئی ایم ایف حکام نے واضح کیا کہ محصولات کی کمی کسی صورت نہیںہونا چاہئے، اخراجات میں کمی کیلئے رائٹ سائزنگ کی جائے۔ آئی ایم ایف نے آڈٹ میں پکڑی گئی بے ضابطگیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مالی سال کی آخری سہہ ماہی میں ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے جامع پلان بھی طلب کیا گیا ہے۔ حکومت کو جاری سہ ماہی میں شارٹ فال پورا کرنا ہوگا، اس حوالے سے ایف بی آر کو کمپلائنس رسک مینجمنٹ اور رسک امپروومنٹ پلان کے تحت اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف وفد کو بڑے شہروں میں ٹیکس نیٹ سے باہر بڑے ریٹیلرز پر بریفنگ دی گئی جبکہ آئی ایم ایف نے اسلام آباد، کراچی، لاہور میں ہائی رسک کیسز میں ریکوری کی ہدایت کی ہے تاکہ ہائی رسک کیسز سے ریکوری سے ریونیو شارٹ فال پورا کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے آڈٹ کی پھنسی رقوم کی تفصیل بھی طلب کرلی ہے، ساتھ ہی تاخیر پر سزاؤں کا تعین بھی مانگ لیا۔ آئی ایم ایف نے اس ٹاسک میں تاخیر پر جوابدہی کا سسٹم لاگو کرنے کا کہا ہے اور چیف اکاؤنٹنٹ جنرل کی فوری تعیناتی کے لئے بھی کہا ہے۔ وزارت توانائی اور وزارت پیٹرولیم کے ساتھ مذاکرات میں پاور اور پیٹرولیم سیکٹر کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف نے بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات کے حوالے سے آپریشنلائزیشن آف بینک ریزولیشن فریم ورک پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ ایف بی آر حکام نے بتایا کہ عدالتوں میں 4 ہزار ارب روپے کے ٹیکس معاملات زیر التوا ہیں، جن میں سے 300 ارب روپے کی ریکوری متوقع ہے۔ مشروبات اور سگریٹ پر ٹیکس سے 100 ارب روپے اکٹھے کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ زیادہ تخمینوں کی وجہ سے مجموعی طور پر 990 ارب روپے کا شارٹ فال ہوسکتا ہے۔ تاہم اس شارٹ فال کو ٹیکسز کی ریکوری ممکن بنا کر کم کیا جائے گا۔ اسلامک بینکنگ کے اقدامات اور طریقہ کار پر آئی ایم ایف وفد کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ سٹیٹ بینک کے ساتھ ری فنانس سکیم ٹرانزیشن اینڈ ڈویلپمنٹ فنانس پر بھی غور کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے بینکنگ کے لیے آپریشنلائزیشن آف بینک ریزولیشن فریم ورک پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاور سیکٹر کے حوالے سے ذرائع نے کہا کہ بجلی ٹیرف میں 8 سے 10 روپے فی یونٹ کمی کرنے کے منصوبے پر فنڈ حکام کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ پیٹرولیم ڈویژن سے ملاقات میں پیٹرولیم اور گیس سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پر غور کیا جائے گا۔ گیس سیکٹر کے 3 ہزار ارب روپے کے گردشی قرض کو ختم کرنے کے پلان پر غور کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف نے ا شارٹ فال کیا جائے ارب روپے جائے گا
پڑھیں:
ٹی بلز کی نیلامی: حکومت نے ایک کھرب سے زائد کی بولیوں میں سے 200 ارب روپے حاصل کرلیے
حکومت نے بدھ کو منعقدہ ٹریژری بلز (ٹی بلز) کی نیلامی میں 175 ارب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 201.8 ارب روپے جمع کرلیے، یوں مقررہ ہدف سے زیادہ رقم جمع ہوئی تاہم کٹ آف منافع کی شرح تقریباً برقرار رکھی، اس نیلامی میں بولیاں ایک کھرب روپے سے زائد موصول ہوئیں، لیکن حکومت نے مقررہ حد کے اندر رہتے ہوئے ہی فنڈز حاصل کیے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کُل ایک ہزار 71 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں جن میں سے 145.86 ارب روپے مسابقتی بولیوں اور 56 ارب روپے غیر مسابقتی بولیوں کے ذریعے منظور کیے گئے، یوں کُل 201.8 ارب روپے حاصل ہوئے۔
اسٹیٹ بینک کے حالیہ مانیٹری پالیسی بیان میں بتایا گیا کہ حکومت کو 2.4 کھرب روپے فراہم کیے گئے جس سے کمرشل بینکوں سے قرض لینے پر انحصار کم کرنے میں مدد ملی۔
مالی سال 2026 کے پہلے 2 ماہ میں حکومت نے شیڈول بینکوں کو 39.9 ارب روپے خالص قرض واپس کیا جبکہ گزشتہ مالی سال اسی مدت میں 717.8 ارب روپے خالص قرض لیا گیا تھا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والے معاشی دباؤ اور کمزور ریونیو کلیکشن کے باعث جلد ہی حکومتی قرض لینے کی شرح دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔
بدھ کی نیلامی میں 197 ارب روپے مالیت کے پرانے ٹی بلز میچور ہورہے تھے، جبکہ حکومت نے اس کے مقابلے میں 201.8 ارب روپے جمع کیے، سرمایہ کاروں کی دلچسپی ایک ماہ اور 12 ماہ کی مدت والے بلز میں نمایاں رہی۔
ایک ماہ کے بلز کے لیے 414.3 ارب روپے کی بولیاں آئیں لیکن صرف 11.7 ارب روپے منظور کیے گئے، 12 ماہ کے بلز کے لیے 293.3 ارب روپے کی بولیاں لگیں مگر صرف 2.8 ارب روپے قبول کیے گئے۔ حکومت نے 3 ماہ کے بلز کے لیے 189.5 ارب روپے کی بولیوں کے مقابلے میں 99.2 ارب روپے اور 6 ماہ کے بلز کے لیے 174 ارب روپے کی بولیوں کے مقابلے میں 32 ارب روپے حاصل کیے۔
بینکاروں کے مطابق نجی شعبے کی جانب سے قرض لینے کی کم طلب کے باعث بینکنگ سیکٹر میں وافر لیکویڈیٹی موجود ہے، صنعتکار گروپس اب بھی شرح سود میں کمی کا مطالبہ کررہے ہیں جو گزشتہ ہفتے سے 11 فیصد پر برقرار ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب مہنگائی صرف 3.2 فیصد کے قریب ہے تو 11 فیصد کی بلند شرح سود کاروباری سرمایہ کاری کو مہنگا بنا رہی ہے اور اس کے باعث معیشت کی ترقی رکی ہوئی ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں نے ستمبر میں افراط زر بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے جس کا تخمینہ 6 سے 7 فیصد لگایا جا رہا ہے، اس کی بڑی وجہ معیشت پر سیلابی نقصانات کے اثرات کو قرار دیا جا رہا ہے۔
Post Views: 5