اسٹرابیری
قاسم کی طبیعت کئی روز سے سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ گیارہ سالہ قاسم بیماری کے باعث ایسا لاغر و کم زور ہوا کہ زیادہ تر غشی کی سی کیفیت میں رہتا۔ محلے کے ڈاکٹر سے مکسچر اور رنگ برنگی گولیاں لاکے قاسم کو پابندی سے کھلائی جاتیں لیکن قاسم کی حالت میں فرق نہیں پڑا۔
رقیہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کے خود ادھ موئی سی ہوگئی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی جو قاسم سے چھوٹی تھیں، اپنے اکلوتے بھائی کی حالت سے غم گین تھیں۔ مولوی غُلام حسین کو بھی بیٹے کی بیماری تڑپاتی تھی۔
کئی مرتبہ لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ سڑک پار صاحبِ حیثیت لوگوں کی آبادی میں جاکر کسی سے مدد طلب کریں لیکن انھوں نے قطعیت سے انکار کردیا۔ وہ اللّہ پر توکل کرنے والے قانع انسان تھے اس لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دن قاسم نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو رقیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
’’امّاں!‘‘
’’ہاں میرے لعل!‘‘
’’امّاں بھوک لگی ہے۔‘‘
’’میں ابھی کھانا لائی۔‘‘
یہ کہہ کر رقیہ باورچی خانے میں گئی اور جلدی سے پتلی کھچڑی اُبال کے لے آئی۔ قاسم کو سہارا دے کر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی۔ تھوڑا سا کھانے کے بعد اس نے منھ ہٹالیا۔
’’کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہے؟‘‘
’’بس امّاں۔ کھالیا۔ ایک بات کہوں؟‘‘
’’ہاں بیٹے! کہو۔‘‘
’’امّاں میرا جی چاہ رہا ہے میں اسٹرابیری کھاؤں۔‘‘
یہ کہہ کر قاسم پُرامّید نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی مختصر سی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آئے تھے جب اُس نے پیٹ بھر کے کچھ اچّھی چیز کھائی ہو۔ رقیہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی:
’’ہاں ہاں کیوں نہیں، تُم ذرا اچّھے ہوجاؤ۔‘‘
قاسم نے لیٹ کے آنکھیں موند لیں۔ جیسے اسے بھی علم ہو کہ ماں اسے صرف بہلارہی ہے۔ بھلا جس گھر میں ایک سے دوسرے وقت کھانے کا آسرا نہیں ہوتا وہاں مہنگے پھلوں کا کیا تصور۔
ظہر کی نماز پڑھا کر مولوی غلام حسین گھر آئے تو رقیہ نے دبے دبے لفظوں میں قاسم کی خواہش کا ذکر کِیا۔ مولوی صاحب ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔
’’نیک بخت! تم تو جانتی ہو یہاں کھانے کا پورا نہیں پڑرہا۔ پھل کیسے خرید سکتے ہیں، وہ بھی اتنا مہنگا پھل۔ آج شاید رمضان کا چاند نظر آجائے۔ پھل پہلے ہی مہنگے تھے اب تو اور بھی مہنگے ہوجائیں گے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے لیکن میں کیا کروں۔ میرا بچہ کبھی کچھ نہیں مانگتا۔ بیماری کے دنوں میں اس نے پہلی مرتبہ کوئی خواہش کی ہے۔‘‘
’’اللہ سے دعا کرو۔ وہ مسبب الاسباب ہے ضرور کوئی سبیل نکالے گا۔‘‘
رقیہ کچھ نہ بولی۔ مولوی صاحب کا دل بھی اندر سے کٹ گیا تھا لیکن مجبور تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے سو وہ بھی خاموش ہی رہے۔ اسی دن مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہوا۔ رمضان کا چاند دیکھ کے مولوی غلام حسین نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو مسنون دعائیں پڑھ کے ان کے دل سے ایک ہی دعا نکلی ’’اے پروردگار! میں تجھ سے اپنے لِیے کُچھ نہیں مانگتا لیکن میرے بیٹے کی خواہش پوری کردے۔‘‘ نہ جانے کیوں اُن کا دل بھر آیا اور بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔ اگلے دن پہلا روزہ تھا۔ افطار سے ذرا پہلے، ایک بہت شان دار سی گاڑی، جس کے پیچھے ایک ٹرک تھا، آکے مسجد کے دروازے پہ رُکی۔ ایک خوش پوش شخص اس میں سے اترا اور مسجد کے اندر آیا۔ اس وقت مسجد میں مؤذن محمد صابر تھے۔ اس شخص نے مسجد کے پیش امام کے بارے میں پوچھا، محمد صابر مولوی صاحب کو بلا لائے۔ اس شخص نے مولوی صاحب سے کہا:
’’آپ نے مشہور صنعت کار سیٹھ ابراہیم کا نام تو سُنا ہوگا جو کاٹن کنگ کہلاتے ہیں، میں ان کا مینجر افتخارعالم ہوں۔ سیٹھ صاحب کے والد کے دل کا آپریشن تھا۔ انھوں نے منّت مانی تھی کہ اگر آپریشن کام یاب رہا تو وہ پورا رمضان اس بستی کے مکینوں کو افطار کروائیں گے۔ آج سے بستی والوں کا افطار سیٹھ صاحب کی طرف سے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ انھوں نے افطار اور کھانے کا سامان ٹرک سے اُتارنا شروع کیا۔ پھر اس نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ وہ دو بڑے بڑے خوان، جو کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے، اٹھائے مولوی صاحب کی طرف بڑھا۔ افتخار عالم نے کہا:
’’مولوی صاحب یہ خوان آپ کے لِیے سیٹھ صاحب نے بھجوائے ہیں۔‘‘
ہوا سے ایک خوان سے ذرا سا کپڑا ہٹا۔ پھلوں کا ایک انبار تھا جس میں اسٹرابیری کا ایک بڑا سا ڈبّا بھی نظر آرہا تھا۔
۔۔۔
ریٹ
’’صاحب صاحب! یہ ذرا میری فائل دیکھ لیں۔ روز چکّر لگارہا ہوں۔ آپ نے جتنے پیسے کہے میں وہ بھی لے آیا ہوں۔ اب تو میرا کام کردیں۔‘‘
پریشان حال ضعیف العُمر شخص نے افسر سے کہا جس کے پیشانی پہ بل پڑے ہوئے تھے۔ افسر نے اُس کے ہاتھ میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھا اور تُرش روئی سے کہا:
’’جاؤ یہاں سے ابھی ٹائم نہیں ہے بعد میں آنا۔‘‘
بوڑھا گڑگڑانے لگا کلرک نے اسے جھڑک دیا:
’’تم سے کہا ہے ناں ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے جاؤ یہاں سے۔‘‘
وہ ناامید ہوکر پیچھے ہوا اور دفتر کے دروازے سے باہر نکل کے احاطے میں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بینچ پہ بیٹھ کے پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تب صاحب کا منہ چڑھا پیون اس کے قریب ا کے بیٹھ گیا اور کہا:
’’بابا جی کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’صاحب کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے میرا کام اٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ فائل میں پہیے لگا دو تو تمھارا کام ہوجائے گا اب میں پیسے لے کر آیا ہوں لیکن صاحب نے میرا کام پھر بھی نہ کیا۔ اللّہ جانتا ہے میں کس کس سے قرض لے کے یہ رقم اکٹھی کرکے لایا ہوں۔‘‘
پیون نے پوچھا:
’’کتنی رقم ہے؟‘‘
بوڑھے نے مُٹھی میں دبے ہوئے نوٹ اس کے سامنے کردیے۔ پیون نے ادھر ادھر دیکھ کر چھپا کے نوٹ گننا شروع کیے اور پھر اسی طرح بوڑھے کی مٹھی میں تھما دیے۔
’’بابا تمھیں پتا نہیں ہے رمضان میں ہر چیز کا ریٹ ڈبل ہوجاتا ہے اور تم اسی پرانے ریٹ پہ کام کروانا چاہ رہے ہو۔ اب یہ ریٹ پرانے ہوگئے، تمھیں اپنی فائل کو پہیے لگانے ہیں تو یہ رقم ڈبل کرنا ہوگی۔‘‘
بوڑھا نااُمّیدی سے مٹھی میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھنے لگا
۔۔۔
کمائی کا مہینہ
’’یہ دکھائیں۔‘‘
گاہک نے شیلف پہ رکّھے ہوئے ایک تھان کی طرف اشارہ کیا۔ شیخ صاحب نے ملازم لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس نے وہ کپڑا گاہک کے سامنے لا رکھا۔ چند مزید تھان کھلوانے کے بعد ایک کپڑا گاہک کو پسند آیا لیکن قیمت سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ بس لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ گاہک کا کہنا تھا اسی برانڈ کا کپڑا اس نے ڈیڑھ مہینے پہلے آدھی قیمت پہ خریدا تھا۔ بہت مشکل سے پانچ سو پہ بات بنی۔ دن بھر گاہکوں سے قیمت پر تکرار ہوتی رہی۔ یہ کسی ایک دکان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ مارکیٹ کی ہر دکان پہ یہ ہی صورت حال تھی۔ شام کو شیخ صاحب کے پڑوسی دکان دار نے ان سے پوچھا:
’’شیخ صاحب! کتنی سیل ہوئی؟‘‘
’’اللہ کا کرم ہے۔ رمضان کی برکت سے اچّھا منافع ہوگیا۔‘‘
شیخ صاحب کا جواب سُن کر ملازم لڑکے نے دل میں سوچا واقعی رمضان کی برکت ہے کہ دُگنے داموں پہ مال فروخت ہورہا ہے۔
۔۔۔
حصّہ
’’امرود کیا حساب دیے؟‘‘
’’دو سو روپے کلو۔‘‘
’’دو سو روپے؟؟؟ اور سیب؟‘‘
’’ڈھائی سو روپے۔ مشہدی سیب ہے۔‘‘
’’تم لوگوں نے تو حد کردی ہے اتنی مہنگائی۔ ہر چیز کے دام دُگنے۔‘‘
’’صاحب کیا کریں، قیمت ہم نے نہیں بڑھائی۔ ہمیں بھی یہ پھل مہنگے پڑ رہے ہیں جبھی اِس دام بیچ رہے ہیں۔‘‘
عبدالرحیم نے بہت رسان سے کہا، لیکن گاہک کا غصہ کم نہ ہوا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے پھل لے کے پیسے دیے اور چلا گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ رمضان میں ہر دن قیمت پہ خریدار اور دکان دار کی یوں ہی تکرار ہوتی تھی۔ افطار سے کُچھ پہلے جب بازار بند ہونے لگا تو عبدالرحیم نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور ٹھیلا بند کرنے لگا۔ تبھی ایک سپاہی اُس کے قریب آیا۔
’’ہاں بھئی! نکالو میرا حصہ۔‘‘
عبدالرحیم نے ایک بڑے سے تھیلے میں پھل اور ایک نیلا نوٹ اُس کی طرف بڑھادیا۔
’’یہ کیا؟ مجھے اتنے کم پیسے نہیں چاہییں۔ اس کو ڈبل کرو۔‘‘
عبدالرحیم نے لجاجت سے کہا:
’’آج یہ رکھ لو۔ زیادہ پھل نہیں بِکے۔ کل سے پھل اور زیادہ قیمت پہ بیچوں گا تو تمھارا حصہ بھی بڑھادوں گا۔‘‘
۔۔۔
اب کیا ہوگا
فضلو کے گھر میں سوگ کا سا عالم تھا۔
’’ارے رحیم کے ابا اب کیا ہوگا۔‘‘
’’مجھے کیا پتا کیا ہوگا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے اور نہ تنگ کر۔‘‘
’’ارے تو میں نے تجھے تھوڑا ہی پریشان کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ اب کیا ہوگا۔ ابھی تو ہمیں نجو کی شادی بھی کرنا تھی اور اشرف کو بھی کاروبار کروانا تھا نجو کے بعد پھر ہمیں رضیہ کا بھی جہیز جوڑنا تھا لیکن اب کیا ہوگا۔‘‘
’’دیکھ چپ ہوجا میرا سر نہ کھا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ میں کیا جانوں کیا ہوگا۔‘‘
’’ارے تو میں نے کیا کہا ہے۔ تجھ سے پوچھا ہی تو ہے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ تُو مجھ سے کیوں لڑ رہا ہے۔‘‘
’’تو چپ نہیں ہوگی۔ آگے سے بکواس کِیے جائے گی۔‘‘
یہ کہتے کہتے فضل دین اپنی جگہ سے اُٹھا اور بشیراں کے چہرے پہ ایک تھپڑ جڑدیا۔ بشیراں پلٹ کے گری اور یوں چلانا شروع کردیا جیسے اسے ذبح کِیا جارہا ہو۔ جوابی کارروائی کے طور پر وہ بھی برتن پھینک کے مارنے لگی۔ اتنا شورشرابا ہوا کہ محلے کے گھروں تک آوازیں پہنچیں۔ برابر والے گھر سے صابر نے آکے دروازہ پر پڑا ٹاٹ کا پردہ اُٹھایا اور اندر داخل ہوگیا۔
’’او بھائی فضل دین! خیریت تو ہے، شور کی آوازیں آرہی ہیں۔‘‘
بشیراں نے کچھ نہ کہا اور منہ پھیرلیا۔ فضل دین موڑھے پہ بیٹھ گیا۔ صابر دونوں کی شکلیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا فضل نے اسے بھی چارپائی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بیٹھ گیا اور بولاؒ:
’’ہاں بھائی! اب تو بتادو آخر کیا بات ہے جو اتنی رات گئے تم لوگ اتنے زور زور سے لڑ رہے ہو، پورے محلے میں آوازیں گونج رہی ہیں۔‘‘
فضل دین نے بہت افسردگی سے کہا:
’’بھائی تمھیں تو پتا ہی ہے سعودی عرب اور امارات میں پاکستانیوں کے ویزے بند ہوگئے ہیں تو پھر یہ کہ رمضان کے مہینے میں وہاں جاکے اللّہ کے نام پہ ہم لوگ اتنا مانگ لاتے تھے کہ پورا سال عیش کی زندگی گزارتے تھے لیکن اب تو ویزے ہی بند ہوگئے۔ ہم اس ایک مہینے میں اتنا کماتے تھے جو پورے سال کی کمائی سے زیادہ ہوتا تھا لیکن اب کیا کریں گے ہم یہ ہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔‘‘
۔۔۔
عبادت کا مہینہ
’’حرا! پکوڑے تلنا شروع کردو، افطار میں زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘
صفیہ بیگم نے اپنی بہو سے پکار کے کہا۔ جی اچّھا کہہ کے حرا اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اس کے سسرال میں افطار میں بہت اہتمام ہوتا تھا۔ انواع و اقسام کی چیزوں کے علاوہ دو تین طرح کے شربت، افطار کے بعد کھانا اور چائے۔ حرا عشاء کے بعد تک بھی فارغ نہیں ہوپاتی تھی۔ اُن کے ہاں آئے دن افطار پہ لوگ مدعو ہوتے۔ اس دن بھی حرا کی ساس صفیہ بیگم کی دو بہنوں اور ایک بھائی کے گھر والے افطار پہ مدعو تھے، لہٰذا افطار کا دسترخوان خاصا وسیع تھا۔ پھر کھانے میں بھی دو تین پکوان تھے۔ نماز اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکے سب لوگ گپ شپ کرنے لگے۔ حرا سب کو چائے دے کے کچن میں آگئی۔ برتن دھونا اور کچن کی صفائی باقی تھی اور سحری کے کھانے کی تیّاری بھی ابھی سے کرنا تھی۔ حرا کی ساس نے حرا کو سُنانے کے لیے زور سے کہا:
’’رمضان کے مہینے میں جتنی بھی عبادت کرو، کم ہے لیکن ہماری بہو بیگم کو نفل نماز یا تلاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک پڑھنے کو کہو تو انھیں کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا ہے۔ ارے گھر کے کام بھلا ہوتے ہی کیا ہیں۔‘‘
حرا نے ایک تلخ مُسکراہٹ کے ساتھ ان کی بات سنی اور برتن دھونے لگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عبدالرحیم نے اب کیا ہوگا مولوی صاحب اشارہ کیا انھوں نے نہیں ہے کے بعد سے کہا ہے میں کی طرف وہ بھی کچھ نہ
پڑھیں:
ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔
انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔
عالمی تحقیق اور ابتدا
ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔
پاکستان میں ضرورت
پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔
مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔
سماجی اور مذہبی رکاوٹیں
پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک اور علما کا موقف
کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔
مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔
یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔