اسٹرابیری
قاسم کی طبیعت کئی روز سے سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ گیارہ سالہ قاسم بیماری کے باعث ایسا لاغر و کم زور ہوا کہ زیادہ تر غشی کی سی کیفیت میں رہتا۔ محلے کے ڈاکٹر سے مکسچر اور رنگ برنگی گولیاں لاکے قاسم کو پابندی سے کھلائی جاتیں لیکن قاسم کی حالت میں فرق نہیں پڑا۔
رقیہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کے خود ادھ موئی سی ہوگئی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی جو قاسم سے چھوٹی تھیں، اپنے اکلوتے بھائی کی حالت سے غم گین تھیں۔ مولوی غُلام حسین کو بھی بیٹے کی بیماری تڑپاتی تھی۔
کئی مرتبہ لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ سڑک پار صاحبِ حیثیت لوگوں کی آبادی میں جاکر کسی سے مدد طلب کریں لیکن انھوں نے قطعیت سے انکار کردیا۔ وہ اللّہ پر توکل کرنے والے قانع انسان تھے اس لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دن قاسم نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو رقیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
’’امّاں!‘‘
’’ہاں میرے لعل!‘‘
’’امّاں بھوک لگی ہے۔‘‘
’’میں ابھی کھانا لائی۔‘‘
یہ کہہ کر رقیہ باورچی خانے میں گئی اور جلدی سے پتلی کھچڑی اُبال کے لے آئی۔ قاسم کو سہارا دے کر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی۔ تھوڑا سا کھانے کے بعد اس نے منھ ہٹالیا۔
’’کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہے؟‘‘
’’بس امّاں۔ کھالیا۔ ایک بات کہوں؟‘‘
’’ہاں بیٹے! کہو۔‘‘
’’امّاں میرا جی چاہ رہا ہے میں اسٹرابیری کھاؤں۔‘‘
یہ کہہ کر قاسم پُرامّید نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی مختصر سی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آئے تھے جب اُس نے پیٹ بھر کے کچھ اچّھی چیز کھائی ہو۔ رقیہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی:
’’ہاں ہاں کیوں نہیں، تُم ذرا اچّھے ہوجاؤ۔‘‘
قاسم نے لیٹ کے آنکھیں موند لیں۔ جیسے اسے بھی علم ہو کہ ماں اسے صرف بہلارہی ہے۔ بھلا جس گھر میں ایک سے دوسرے وقت کھانے کا آسرا نہیں ہوتا وہاں مہنگے پھلوں کا کیا تصور۔
ظہر کی نماز پڑھا کر مولوی غلام حسین گھر آئے تو رقیہ نے دبے دبے لفظوں میں قاسم کی خواہش کا ذکر کِیا۔ مولوی صاحب ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔
’’نیک بخت! تم تو جانتی ہو یہاں کھانے کا پورا نہیں پڑرہا۔ پھل کیسے خرید سکتے ہیں، وہ بھی اتنا مہنگا پھل۔ آج شاید رمضان کا چاند نظر آجائے۔ پھل پہلے ہی مہنگے تھے اب تو اور بھی مہنگے ہوجائیں گے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے لیکن میں کیا کروں۔ میرا بچہ کبھی کچھ نہیں مانگتا۔ بیماری کے دنوں میں اس نے پہلی مرتبہ کوئی خواہش کی ہے۔‘‘
’’اللہ سے دعا کرو۔ وہ مسبب الاسباب ہے ضرور کوئی سبیل نکالے گا۔‘‘
رقیہ کچھ نہ بولی۔ مولوی صاحب کا دل بھی اندر سے کٹ گیا تھا لیکن مجبور تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے سو وہ بھی خاموش ہی رہے۔ اسی دن مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہوا۔ رمضان کا چاند دیکھ کے مولوی غلام حسین نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو مسنون دعائیں پڑھ کے ان کے دل سے ایک ہی دعا نکلی ’’اے پروردگار! میں تجھ سے اپنے لِیے کُچھ نہیں مانگتا لیکن میرے بیٹے کی خواہش پوری کردے۔‘‘ نہ جانے کیوں اُن کا دل بھر آیا اور بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔ اگلے دن پہلا روزہ تھا۔ افطار سے ذرا پہلے، ایک بہت شان دار سی گاڑی، جس کے پیچھے ایک ٹرک تھا، آکے مسجد کے دروازے پہ رُکی۔ ایک خوش پوش شخص اس میں سے اترا اور مسجد کے اندر آیا۔ اس وقت مسجد میں مؤذن محمد صابر تھے۔ اس شخص نے مسجد کے پیش امام کے بارے میں پوچھا، محمد صابر مولوی صاحب کو بلا لائے۔ اس شخص نے مولوی صاحب سے کہا:
’’آپ نے مشہور صنعت کار سیٹھ ابراہیم کا نام تو سُنا ہوگا جو کاٹن کنگ کہلاتے ہیں، میں ان کا مینجر افتخارعالم ہوں۔ سیٹھ صاحب کے والد کے دل کا آپریشن تھا۔ انھوں نے منّت مانی تھی کہ اگر آپریشن کام یاب رہا تو وہ پورا رمضان اس بستی کے مکینوں کو افطار کروائیں گے۔ آج سے بستی والوں کا افطار سیٹھ صاحب کی طرف سے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ انھوں نے افطار اور کھانے کا سامان ٹرک سے اُتارنا شروع کیا۔ پھر اس نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ وہ دو بڑے بڑے خوان، جو کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے، اٹھائے مولوی صاحب کی طرف بڑھا۔ افتخار عالم نے کہا:
’’مولوی صاحب یہ خوان آپ کے لِیے سیٹھ صاحب نے بھجوائے ہیں۔‘‘
ہوا سے ایک خوان سے ذرا سا کپڑا ہٹا۔ پھلوں کا ایک انبار تھا جس میں اسٹرابیری کا ایک بڑا سا ڈبّا بھی نظر آرہا تھا۔
۔۔۔
ریٹ
’’صاحب صاحب! یہ ذرا میری فائل دیکھ لیں۔ روز چکّر لگارہا ہوں۔ آپ نے جتنے پیسے کہے میں وہ بھی لے آیا ہوں۔ اب تو میرا کام کردیں۔‘‘
پریشان حال ضعیف العُمر شخص نے افسر سے کہا جس کے پیشانی پہ بل پڑے ہوئے تھے۔ افسر نے اُس کے ہاتھ میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھا اور تُرش روئی سے کہا:
’’جاؤ یہاں سے ابھی ٹائم نہیں ہے بعد میں آنا۔‘‘
بوڑھا گڑگڑانے لگا کلرک نے اسے جھڑک دیا:
’’تم سے کہا ہے ناں ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے جاؤ یہاں سے۔‘‘
وہ ناامید ہوکر پیچھے ہوا اور دفتر کے دروازے سے باہر نکل کے احاطے میں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بینچ پہ بیٹھ کے پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تب صاحب کا منہ چڑھا پیون اس کے قریب ا کے بیٹھ گیا اور کہا:
’’بابا جی کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’صاحب کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے میرا کام اٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ فائل میں پہیے لگا دو تو تمھارا کام ہوجائے گا اب میں پیسے لے کر آیا ہوں لیکن صاحب نے میرا کام پھر بھی نہ کیا۔ اللّہ جانتا ہے میں کس کس سے قرض لے کے یہ رقم اکٹھی کرکے لایا ہوں۔‘‘
پیون نے پوچھا:
’’کتنی رقم ہے؟‘‘
بوڑھے نے مُٹھی میں دبے ہوئے نوٹ اس کے سامنے کردیے۔ پیون نے ادھر ادھر دیکھ کر چھپا کے نوٹ گننا شروع کیے اور پھر اسی طرح بوڑھے کی مٹھی میں تھما دیے۔
’’بابا تمھیں پتا نہیں ہے رمضان میں ہر چیز کا ریٹ ڈبل ہوجاتا ہے اور تم اسی پرانے ریٹ پہ کام کروانا چاہ رہے ہو۔ اب یہ ریٹ پرانے ہوگئے، تمھیں اپنی فائل کو پہیے لگانے ہیں تو یہ رقم ڈبل کرنا ہوگی۔‘‘
بوڑھا نااُمّیدی سے مٹھی میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھنے لگا
۔۔۔
کمائی کا مہینہ
’’یہ دکھائیں۔‘‘
گاہک نے شیلف پہ رکّھے ہوئے ایک تھان کی طرف اشارہ کیا۔ شیخ صاحب نے ملازم لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس نے وہ کپڑا گاہک کے سامنے لا رکھا۔ چند مزید تھان کھلوانے کے بعد ایک کپڑا گاہک کو پسند آیا لیکن قیمت سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ بس لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ گاہک کا کہنا تھا اسی برانڈ کا کپڑا اس نے ڈیڑھ مہینے پہلے آدھی قیمت پہ خریدا تھا۔ بہت مشکل سے پانچ سو پہ بات بنی۔ دن بھر گاہکوں سے قیمت پر تکرار ہوتی رہی۔ یہ کسی ایک دکان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ مارکیٹ کی ہر دکان پہ یہ ہی صورت حال تھی۔ شام کو شیخ صاحب کے پڑوسی دکان دار نے ان سے پوچھا:
’’شیخ صاحب! کتنی سیل ہوئی؟‘‘
’’اللہ کا کرم ہے۔ رمضان کی برکت سے اچّھا منافع ہوگیا۔‘‘
شیخ صاحب کا جواب سُن کر ملازم لڑکے نے دل میں سوچا واقعی رمضان کی برکت ہے کہ دُگنے داموں پہ مال فروخت ہورہا ہے۔
۔۔۔
حصّہ
’’امرود کیا حساب دیے؟‘‘
’’دو سو روپے کلو۔‘‘
’’دو سو روپے؟؟؟ اور سیب؟‘‘
’’ڈھائی سو روپے۔ مشہدی سیب ہے۔‘‘
’’تم لوگوں نے تو حد کردی ہے اتنی مہنگائی۔ ہر چیز کے دام دُگنے۔‘‘
’’صاحب کیا کریں، قیمت ہم نے نہیں بڑھائی۔ ہمیں بھی یہ پھل مہنگے پڑ رہے ہیں جبھی اِس دام بیچ رہے ہیں۔‘‘
عبدالرحیم نے بہت رسان سے کہا، لیکن گاہک کا غصہ کم نہ ہوا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے پھل لے کے پیسے دیے اور چلا گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ رمضان میں ہر دن قیمت پہ خریدار اور دکان دار کی یوں ہی تکرار ہوتی تھی۔ افطار سے کُچھ پہلے جب بازار بند ہونے لگا تو عبدالرحیم نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور ٹھیلا بند کرنے لگا۔ تبھی ایک سپاہی اُس کے قریب آیا۔
’’ہاں بھئی! نکالو میرا حصہ۔‘‘
عبدالرحیم نے ایک بڑے سے تھیلے میں پھل اور ایک نیلا نوٹ اُس کی طرف بڑھادیا۔
’’یہ کیا؟ مجھے اتنے کم پیسے نہیں چاہییں۔ اس کو ڈبل کرو۔‘‘
عبدالرحیم نے لجاجت سے کہا:
’’آج یہ رکھ لو۔ زیادہ پھل نہیں بِکے۔ کل سے پھل اور زیادہ قیمت پہ بیچوں گا تو تمھارا حصہ بھی بڑھادوں گا۔‘‘
۔۔۔
اب کیا ہوگا
فضلو کے گھر میں سوگ کا سا عالم تھا۔
’’ارے رحیم کے ابا اب کیا ہوگا۔‘‘
’’مجھے کیا پتا کیا ہوگا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے اور نہ تنگ کر۔‘‘
’’ارے تو میں نے تجھے تھوڑا ہی پریشان کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ اب کیا ہوگا۔ ابھی تو ہمیں نجو کی شادی بھی کرنا تھی اور اشرف کو بھی کاروبار کروانا تھا نجو کے بعد پھر ہمیں رضیہ کا بھی جہیز جوڑنا تھا لیکن اب کیا ہوگا۔‘‘
’’دیکھ چپ ہوجا میرا سر نہ کھا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ میں کیا جانوں کیا ہوگا۔‘‘
’’ارے تو میں نے کیا کہا ہے۔ تجھ سے پوچھا ہی تو ہے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ تُو مجھ سے کیوں لڑ رہا ہے۔‘‘
’’تو چپ نہیں ہوگی۔ آگے سے بکواس کِیے جائے گی۔‘‘
یہ کہتے کہتے فضل دین اپنی جگہ سے اُٹھا اور بشیراں کے چہرے پہ ایک تھپڑ جڑدیا۔ بشیراں پلٹ کے گری اور یوں چلانا شروع کردیا جیسے اسے ذبح کِیا جارہا ہو۔ جوابی کارروائی کے طور پر وہ بھی برتن پھینک کے مارنے لگی۔ اتنا شورشرابا ہوا کہ محلے کے گھروں تک آوازیں پہنچیں۔ برابر والے گھر سے صابر نے آکے دروازہ پر پڑا ٹاٹ کا پردہ اُٹھایا اور اندر داخل ہوگیا۔
’’او بھائی فضل دین! خیریت تو ہے، شور کی آوازیں آرہی ہیں۔‘‘
بشیراں نے کچھ نہ کہا اور منہ پھیرلیا۔ فضل دین موڑھے پہ بیٹھ گیا۔ صابر دونوں کی شکلیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا فضل نے اسے بھی چارپائی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بیٹھ گیا اور بولاؒ:
’’ہاں بھائی! اب تو بتادو آخر کیا بات ہے جو اتنی رات گئے تم لوگ اتنے زور زور سے لڑ رہے ہو، پورے محلے میں آوازیں گونج رہی ہیں۔‘‘
فضل دین نے بہت افسردگی سے کہا:
’’بھائی تمھیں تو پتا ہی ہے سعودی عرب اور امارات میں پاکستانیوں کے ویزے بند ہوگئے ہیں تو پھر یہ کہ رمضان کے مہینے میں وہاں جاکے اللّہ کے نام پہ ہم لوگ اتنا مانگ لاتے تھے کہ پورا سال عیش کی زندگی گزارتے تھے لیکن اب تو ویزے ہی بند ہوگئے۔ ہم اس ایک مہینے میں اتنا کماتے تھے جو پورے سال کی کمائی سے زیادہ ہوتا تھا لیکن اب کیا کریں گے ہم یہ ہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔‘‘
۔۔۔
عبادت کا مہینہ
’’حرا! پکوڑے تلنا شروع کردو، افطار میں زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘
صفیہ بیگم نے اپنی بہو سے پکار کے کہا۔ جی اچّھا کہہ کے حرا اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اس کے سسرال میں افطار میں بہت اہتمام ہوتا تھا۔ انواع و اقسام کی چیزوں کے علاوہ دو تین طرح کے شربت، افطار کے بعد کھانا اور چائے۔ حرا عشاء کے بعد تک بھی فارغ نہیں ہوپاتی تھی۔ اُن کے ہاں آئے دن افطار پہ لوگ مدعو ہوتے۔ اس دن بھی حرا کی ساس صفیہ بیگم کی دو بہنوں اور ایک بھائی کے گھر والے افطار پہ مدعو تھے، لہٰذا افطار کا دسترخوان خاصا وسیع تھا۔ پھر کھانے میں بھی دو تین پکوان تھے۔ نماز اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکے سب لوگ گپ شپ کرنے لگے۔ حرا سب کو چائے دے کے کچن میں آگئی۔ برتن دھونا اور کچن کی صفائی باقی تھی اور سحری کے کھانے کی تیّاری بھی ابھی سے کرنا تھی۔ حرا کی ساس نے حرا کو سُنانے کے لیے زور سے کہا:
’’رمضان کے مہینے میں جتنی بھی عبادت کرو، کم ہے لیکن ہماری بہو بیگم کو نفل نماز یا تلاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک پڑھنے کو کہو تو انھیں کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا ہے۔ ارے گھر کے کام بھلا ہوتے ہی کیا ہیں۔‘‘
حرا نے ایک تلخ مُسکراہٹ کے ساتھ ان کی بات سنی اور برتن دھونے لگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عبدالرحیم نے اب کیا ہوگا مولوی صاحب اشارہ کیا انھوں نے نہیں ہے کے بعد سے کہا ہے میں کی طرف وہ بھی کچھ نہ
پڑھیں:
غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ نہایت نازک اور پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ یہ معاہدہ جسے عالمی برادری نے ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا تھا، عملاً ایک ایسی آزمائش بن گیا ہے جس پر فلسطین کے مستقبل، خطے کے استحکام اور عالمی طاقتوں کی نیتوں کا دار و مدار ہے۔
جنگ بندی بظاہر ایک سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر غزہ کے عوام کے لیے یہ اب تک مکمل راحت کا باعث نہیں بن سکی۔ ملبے میں دبے انسان، اجڑی بستیاں، برباد اسپتال اور امدادی قافلوں پر عائد پابندیاں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ امن کے وعدے اب بھی زمین پر اترنے سے قاصر ہیں۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے تین بنیادی مراحل میں امن کی جانب بڑھنے پر اتفاق کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں مکمل فائر بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی۔
دوسرے مرحلے میں اسرائیلی افواج کا تدریجی انخلا، شہریوں کی واپسی اور جنگ زدہ علاقوں کی بحالی طے پائی تھی۔ تیسرے مرحلے میں مستقل امن، تعمیر نو اور غزہ کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہونا تھا۔ معاہدے کی ضمانت کے لیے قطر، مصر اور امریکا ثالث بنے اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی نگرانی کی جائے گی، لیکن زمینی حقائق نے جلد ہی ظاہر کر دیا کہ یہ معاہدہ صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی لحاظ سے کئی رکاوٹوں میں گھرا ہوا ہے۔
معاہدے پر دستخط کے چندگھنٹوں بعد ہی فائر بندی کی خلاف ورزیاں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اسرائیلی افواج نے کئی علاقوں میں چھاپے مارے، بمباری کی اطلاعات آئیں اور امدادی قافلوں کو روکا گیا۔ دوسری طرف حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل انسانی امداد کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ وہ حماس کی فوجی سرگرمیوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یوں ایک بار پھر’’ سلامتی‘‘ اور ’’سیاست‘‘ کے درمیان وہی قدیم تضاد ابھرا جس نے ہمیشہ اس خطے کے امن کو برباد کیا ہے۔
شمالی غزہ کے ہزاروں مہاجرین اب بھی بے گھر ہیں۔ ان میں وہ خاندان شامل ہیں جو پچھلے برس کے فضائی حملوں میں اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔ معاہدے کے تحت انھیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ملنی تھی، مگر اسرائیلی فوج نے متعدد راستے بند کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امدادی رسائی بحال نہ ہوئی تو انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ حماس کے عسکری ڈھانچے کی موجودگی واپسی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر شہریوں کو داخل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
حماس نے ابتدائی طور پر قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے میں تعاون کیا۔ درجنوں اسرائیلی یرغمالی رہا ہوئے اور اس کے بدلے میں کئی فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی۔ مگر جب یہ عمل سست پڑا تو بداعتمادی نے جنم لیا۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکا اور یورپی یونین، نے ابتدا میں اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ قطر اور مصر اب بھی ثالثی میں متحرک ہیں، مگر وہ بھی دونوں فریقوں کے دباؤ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امن کی بنیاد اعتماد ہے، اور اعتماد اس وقت مفقود ہے۔‘‘ یہی وہ نکتہ ہے جو غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔
عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، ایک طرف وہ گروہ جو فوجی تسلط کو کم کرنے کے حق میں نہیں، اور دوسری جانب وہ عناصر جو عالمی دباؤ کے تحت کسی حد تک نرمی چاہتے ہیں۔ اسی طرح حماس کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا جنگ بندی کو عارضی حکمت عملی سمجھا جائے یا ایک مستقل سیاسی پیش رفت کے طور پر قبول کیا جائے۔ ان باہمی تضادات نے فضا کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہاں کے بے قصور شہریوں پر مسلط جنگ نے صرف عمارتوں اور بستیوں کو نہیں بلکہ امید اور زندگی کے احساس کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں جنگ بندی معاہدہ امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاہدے پر حقیقی اور پائیدار عملدرآمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالمی طاقتیں اور مسلم ممالک اپنا کردار سنجیدگی سے ادا نہیں کرتے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی اس خطے میں کوئی جنگ بندی ہوئی، وہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیونکہ طاقتور فریقوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور عالمی برادری نے بھی محض بیانات پر اکتفا کیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس غلطی کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ عالمی طاقتیں، خصوصاً وہ ممالک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں، ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی نگرانی کریں اور کسی بھی خلاف ورزی پر فوری کارروائی یقینی بنائیں۔ اسی طرح مسلم دنیا کو محض بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا لازمی ہے۔ جب تک قابض افواج غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے نہیں جاتیں، وہاں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی نگران مشن تشکیل دینا ہوگا جو اس بات کی تصدیق کرے کہ انخلا حقیقی ہے، جزوی نہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ بعض اوقات اسرائیل محدود پیمانے پر انخلا کا اعلان کر کے بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ اس بار عالمی طاقتوں کو اس عمل کی مکمل نگرانی کرنا ہوگی اور مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر اسرائیل پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنا ہوگا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تعمیر نو کے عمل کو بین الاقوامی ذمے داری کے طور پر قبول کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے تحت ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جو تعمیر نو کے منصوبوں کی نگرانی کرے، فنڈز کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائے اور مقامی اداروں کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ اس عمل میں شفافیت اور جوابدہی انتہائی ضروری ہے تاکہ امدادی رقم بدعنوانی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک اگر اپنے فنی ماہرین، انجینئرز اور طبی عملے کو غزہ بھیجیں تو اس سے عملی سطح پر بڑی مدد مل سکتی ہے۔
مسلم ممالک کے لیے اب یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اگر وہ واقعی امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات کے محافظ ہیں تو انھیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر فلسطینی مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔ اسلامی دنیا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، صرف سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مؤثر بنایا جائے، اگر مشترکہ اقتصادی، سفارتی اور انسانی لائحہ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین میں ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جنھوں نے ہمیشہ اصولی موقف اپنایا، ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ قیادت کا کردار ادا کریں اور دنیا کو بتائیں کہ انصاف، امن اور انسانی اقدار کے لیے مسلم دنیا ایک ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غزہ کی جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں اگر واقعی امن چاہتی ہیں تو انھیں اپنی پالیسیوں میں توازن لانا ہوگا اور انسانی جانوں کی حرمت کو سیاست پر فوقیت دینی ہوگی۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر امت کی اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے، اب دنیا کی باری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔ فلسطینی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، اب وقت ہے کہ ان کی جدوجہد کو منزل تک پہنچایا جائے۔ جنگ بندی کا معاہدہ اگر خلوص، سنجیدگی اور مشترکہ کوششوں سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کا پیغام بن سکتا ہے۔