جعفر ایکسپریس کا روٹ کب تک بحال ہوجائے گا؟ ریلوے حکام نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
11مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جا نے والی جعفر ایکسپریس کو عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنا گیا، تاہم 36گھنٹوں تک جا ری رہنے والے سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد شر پسند عناصر سے یر غمال ٹرین کا قبضہ چھوڑوا لیا گیا اور مسافروں کو بحفاظت رہا کروا لیا گیا۔
سیکیورٹی فورسز کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن کا سلسلہ جا ری ہے، حملے کے روز دہشتگردوں نے ریلوے ٹریک کو آئی ای ڈی سے اڑایا، جس کے نتیجے میں ٹریک کا 300 فٹ متاثر ہواجبکہ حملے میں انجن سمیت ٹرین کی 5 بوگیاں متاثر ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں:جعفر ایکسپریس حملہ: ٹرین کا ڈرائیور معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا
ریلوے حکام کے مطابق کوئٹہ سے پشاور اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی ٹرین سروس ٹریک متاثرہو نے کی وجہ سے معطل ہے، ٹریک کی بحال کا کام سیکیورٹی کلیئرنس سے مشروط ہے، سیکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد پہلے متاثرہ ٹرین کو ٹریک سے ہٹایا جائےگا بعد ازاں تباہ شدہ ریلوے ٹریک کو بحال کیا جائیگا۔
ممکنہ طور پر ٹریک کی بحالی کے لیے 24گھنٹے کا وقت لگ سکتا ہے تاہم متاثرہ ٹریک دیکھے بنا وقت کا تعین مشکل ہے۔
صحافیوں کا دورہدوسری جانب صحافیوں کو متاثرہ علاقے کا دورہ کروایا گیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ صحافیوں نے متاثرہ علاقے کا دورہ کر کے ٹرین اور جائے وقوعہ کا بغور جائز لیا۔
یہ بھی پڑھیں:مسافر ٹرینوں کو ہائی جیک کرنے اور دہشتگردی کا نشانہ بنانے کے واقعات کی تاریخ کیا ہے؟
اس موقع پر اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جعفر ایکسپریس کو جہاں ٹارگٹ کیا گیا، وہاں کسی قسم کے رابطے کی سہولت نہیں ہے۔
ایف سی نے انگیج رکھایہاں ہماری فورس ہے جو طویل ٹریک کی حفاظت یقینی بناتی ہے۔ 11 تاریخ دن ایک بجے ہماری چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ ایف سی چیک پوسٹ پر حملے کے بعد ٹریک پر دھماکا بھی کیا گیا۔ ایف سی نے کافی دیر تک دہشتگردوں کو فائرنگ اور مارٹر گولوں سے انگیج رکھا۔ ایف سی چیک پوسٹ پر حملے کے دوران 3 ایف سی کے اہلکاروں نے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ایف سی سے لڑنے کے بعد وہ ٹرین تک پہنچ گئے۔ ٹرین تک جب وہ پہنچے تو مسافروں کو یرغمال بنا لیا، جس کے بعد پوری ٹرین کو محفوظ کرنا مشکل تھا۔ دہشتگرد بڑی تعداد میں مصروف تھے جس وجہ ٹرین کو محفوظ کرنا مشکل ہوا۔ پہاڑوں سے مختلف اطراف سے انہوں نے ہمیں گھیرا، ہمارے مقامی سیکٹر اور غزہ ہند اسکاؤٹس کی نفری بھی آگئی۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف فورسز کی ٹیموں نے جوائن کیا۔ دہشتگردوں نے جب کہا کہ وہ سب کو مار دیں گے پھر ہمیں مشکلات کا سامنا ہوا۔دہشتگردوں کا بڑا گروپ کچھ دہشتگردوں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں چلا گیا۔ ہم نے دہشت گردوں کے بڑے گروپ کو بھی پہاڑوں میں بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ضرار کمپنی 12 مارچ کے آدھے دن پر اپنی تدبیر کرکے آپریشن کرتی ہے۔ ضرار کمپنی کے اسنائپرز نے بہت ہی زبردست طریقے سے دہشگردوں کو نشانہ بنایا۔
سیکیورٹی اہلکار کے مطابق ایسے دہشتگردوں کا سامنا تھا جنہیں بچوں اور عورتوں کا بھی خیال نہیں۔ دہشتگرد ایسا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ سب انکے کنٹرول میں تھا۔دہشتگردوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے گھر والوں کو مارا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایف سی بلوچستان جعفرایکسپریس دہشتگرد ضرار کمپنی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایف سی بلوچستان جعفرایکسپریس دہشتگرد سیکیورٹی اہلکار جعفر ایکسپریس کے بعد ایف سی
پڑھیں:
عوامی کالم کے 24 سال
1990 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق نے برطرف کی تو اس کی وجوہات میں 1988میں اقتدار میں آنے والی حکومت پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں ایک الزام سندھ میں لسانی فسادات کا بھی تھا۔ بے نظیر دور میں قائم علی شاہ کے بعد میرے آبائی شہر شکارپور سے تعلق رکھنے والے آفتاب شعبان میرانی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا اور ان سے قبل ہی سندھ لسانی فسادات کا شکار تھا جس کی وجہ سے مجھے بھی نہ چاہتے ہوئے اپنا شہر مجبوراً چھوڑنا پڑا تھا۔ اندرون سندھ یہ فسادات کراچی میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کا نتیجہ تھے۔
شکارپور میں بھی ردعمل کے طور پر قوم پرستوں کے ہاتھوں سات افراد قتل کیے گئے تھے اور نقل مکانی شروع ہو چکی تھی اور مجھے بھی دباؤ کے باعث 18 مئی 1990 کو شکارپور چھوڑنا پڑ گیا تھا اور 12 روز بعد یکم جون کو لسانی بنیاد پر دکانیں لوٹی گئی تھیں۔
خیال تھا کہ نقل مکانی عارضی ہوگی اور بے شمار خاندان واپس بھی آگئے تھے مگر گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث میری واپسی ممکن نہ ہو سکی اور کراچی کو اپنانا پڑا تھا۔ اپنا آبائی شہر کبھی بھولا نہیں جا سکتا اور یہ پیدائشی حق ہوتا ہے کہ اس سے وفاداری ہر حال میں نبھائی جائے اور اس کا مفاد مقدم رکھا جائے۔
شکارپور میں22 سالہ اخباری رپورٹنگ میں ہمیشہ شہر کے مسائل کو اجاگر کرکے حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور میونسپل کونسلر اور صحافی کی حیثیت سے اپنے شہرکی خدمت کا جو موقعہ ملا اس سے کبھی پس و پیش نہیں کیا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ آبائی شہر کبھی بھلایا جا ہی نہیں سکتا۔ کراچی آ کر عملی صحافت سے تعلق ختم ہو گیا تھا مگر پھر بھی کراچی اور شکارپور سے اپنے پانچ اخبارات نکال کر صحافت سے تعلق برقرار رکھا تھا۔
2001 میں اپنے ہی پرانے بڑے اخبار سے کالم نگاری شروع کی مگر بعض وجوہات کے باعث بڑے اخبار کا تسلط توڑ کر جب روزنامہ ایکسپریس نے مقبولیت حاصل کی تو اپنا تعلق بطور رپورٹر شکارپور بعد میں کالم نگار کے طور پر ایکسپریس سے جو تعلق جوڑا تھا وہ بفضل خدا 24 سال سے قائم ہے اور ایکسپریس سے منسلک چلا آ رہا ہوں۔
ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے 2002 میں الیکشن دور میں کالموں کی مسلسل اشاعت کے بعد یاد کیا تھا اور سابقہ صحافتی تجربے کے بعد مناسب رہنمائی کی تھی اور باقاعدگی سے لکھنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ گائیڈ بھی کرتے رہے اور کالم کا عنوان منتخب کرنے کو کہا اور اس طرح ’’ عوامی کالم‘‘ کے نام سے لکھتے لکھتے اب 24 سال ہو گئے اور ایکسپریس بھی کراچی کے بعد لاہور پھر مزید 9 شہروں سے شایع ہونے والا ملک کا پہلا اخبار ہے جو کئی لحاظ سے منفرد ہے۔
ملک کے ممتاز صحافی عبدالقادر حسن کا ایکسپریس میں جو غیر سیاسی کالم شایع ہوتا تھا وہ اکثر سیاسی ہی ہوتا تھا اور راقم نے اپنے عوامی کالم میں سیاست سے زیادہ عوامی مسائل کو اہمیت دی۔ میونسپل کونسلر شکارپور کی حیثیت سے متعدد بلدیاتی معاملات سے تعلق رہا اور ویسے بھی عوام کا زیادہ تعلق اپنے بنیادی مسائل سے ہوتا ہے جو بلدیاتی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بعد بدامنی و دیگر مجبوریوں کے باعث عوام کا پولیس سے واسطہ پڑتا ہے جو کہنے کی حد تک کبھی عوام کی خدمت کی دعویدار تھی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ راقم کا شکارپور میں رپورٹنگ کے سلسلے میں پولیس سے قریبی تعلق رہا اور اعلیٰ پولیس افسران سے بھی رہنمائی ملتی رہی، اس لیے عوامی کالم میں پہلی ترجیح عوامی اور بنیادی مسائل کو اور دوسری ترجیح پولیس سے متعلق حقائق کو دی جس کے لیے سابق آئی جی سندھ رانا مقبول سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا جو خود سینیٹر منتخب ہو کر سینیٹ میں عوامی ترجمانی کرتے رہے۔ سیاست تو صحافت کے بہت قریب ہے اور 57 سالہ صحافت نے سیاست سے قریب رکھا جو عوام کی خدمت کے نام پر مفادات کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور اسی لیے راقم نے عوامی کالم میں عوام سے تعلق رکھنے والے ان ہی تینوں اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔