امریکا کے یمن پر فضائی حملے، 31 افراد ہلاک، ایران کو بھی وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جن میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ حملے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حوثی حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں اور کئی دنوں تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
ٹرمپ نے ایران کو بھی سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے حوثیوں کی حمایت جاری رکھی تو "امریکہ اسے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرائے گا اور ہم نرمی نہیں برتیں گے!"
حوثیوں کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، 13 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوئے، جبکہ صعدہ میں امریکی حملے میں مزید 11 افراد، بشمول 4 بچے اور 1 خاتون جاں بحق ہوئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، یہ یمن میں ایک وسیع فوجی آپریشن کا آغاز ہے، جس میں جنگی طیارے بحیرہ احمر میں موجود USS Harry S.
حوثیوں نے امریکی حملوں کو "جنگی جرم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس جارحیت کا جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب امریکہ ایران پر دباؤ بڑھا کر اسے جوہری مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتا ہے، لیکن ایران نے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔