یمن میں امریکی کارروائی اور بحری جہازوں پر حوثی حملوں پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ نے بحیرہ احمر میں حوثیوں کی جانب سے جہاز رانی کو لاحق خطرات اور امریکہ کی جانب سے یمن میں حالیہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں 50 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے یمن کے حوثیوں کی جانب سے بحری راستوں پر تجارتی اور عسکری جہازوں پر حملے قابل مذمت ہیں۔ بحیرہ احمر اور نہرسوئز کے قریب یہ حملے دوبارہ شروع ہو گئے ہیں جن سے عالمگیر تجارت اور جہازوں کے عملے کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔
Tweet URLاقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے امریکہ کی جانب سے یمن میں حوثیوں کے زیرانتظام علاقوں پر حملے بھی تشویشناک ہیں۔
(جاری ہے)
یمن میں امریکہ کے حملےحوثیوں کے مطابق، گزشتہ ہفتے کے اختتام پر صنعا شہر، سعدہ اور البائدہ پر کیے گئے ان حملوں میں 53 افراد ہلاک اور 101 زخمی ہوئے جن میں شہریوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان حملوں سے بجلی کی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا جس سے اس کی فراہمی بھی معطل رہی۔
حوثیوں نے دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد انہوں نے بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا اور اعلان کیا کہ جنگ بندی ہونے تک ایسی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ غزہ میں حالیہ دنوں امداد کی فراہمی بند ہونے کے بعد حوثیوں نے یہ حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔اقوام متحدہ نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے ہر طرح کی عسکری سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کشیدگی میں اضافے سے علاقے میں عدم استحکام بڑھ جائے گا اور ملک میں انسانی حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2768 (2025) سمیت بین الاقوامی قانون کا احترام کریں جس میں حوثیوں سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی جہازوں پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انسانی قانون کی پاسداری کا مطالبہیمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہینز گرنڈبرگ موجودہ حالات کے تناظر میں یمنی، علاقائی اور بین الاقوامی فریقین سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کرنے بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہوئے مسائل کا بات چیت کے ذریعے حل نکالنے پر ور دیا ہے تاکہ یمن اور خطے کو عدم استحکام سے بچایا جا سکے۔ہینز گرنڈبرگ نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ ملک میں اقوام متحدہ کے زیرقیادت ثالثی کی کوششوں میں تعاون کرے اور اس ضمن میں ان کا دفتر ہر سطح پر رابطے کر رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب سے
پڑھیں:
پاکستان کی لبنان پر اسرائیلی حملوں کی مذمت، بین الاقوامی برادری پر تل ابیب کو جوابدہ ٹھہرانے پر زور
دفتر خارجہ نے بیروت اور لبنان کے جنوبی حصوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کی ’واضح طور پر‘ مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ تل ابیب کو جوابدہ ٹھہرائے اور جارحیت کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ رپورٹ کے مطابق جمعرات کو حزب اللہ کو نشانہ بناتے ہوئے کیا گیا یہ حملہ نومبر 2024 میں جنگ بندی پر دستخط ہونے کے بعد اسرائیل کی بیروت پر چوتھی بمباری ہے۔لبنانی صدر جوزف عون نے حملوں کے بعد ایک بیان میں ’اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت‘ کرتے ہوئے عیدالاضحیٰ کے موقع پر کیے گئے حملے کو ’بین الاقوامی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔اسرائیل نے حملوں سے قبل شہریوں کو انخلا کے انتباہات جاری کیے، اسرائیلی حکام کے مطابق شمالی بیروت میں حزب اللہ کے زیر زمین ڈرون بنانے کے کارخانے موجود تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسرائیلی حملے 24 نومبر 2024 کے جنگ بندی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں، پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں لبنان کے ساتھ کھڑا ہے، اسرائیل کو جواب دہ ٹھرانے کے لیے بین الاقوامی برادری، اقوامِ متحدہ اور جنگ بندی کے ثالثوں پر زور دیتے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ بین الاقوامی برادری مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرے، پاکستان امن، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے لیے مضبوطی سے پر عزم ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع، حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے ایک روز بعد 8 اکتوبر 2023 کو اُس شروع ہوا جب حماس نے اسرائیلی کے متعدد علاقوں پر حملہ کر دیا تھا۔ حماس کی اتحادی حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے اسرائیل پر حملے ان فلسطینیوں سے اظہار یکجتی کے لیے ہیں جو غزہ میں اسرائیلی بمباری کا سامنا کر رہے ہیں۔
5 جون کو لبنان کے وزیراعظم نواف سلام نے اعلان کیا تھا کہ ’لبنانی آرمی نے ملک کے جنوب میں واقع حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد فوجی ٹھکانوں اور اسلحہ ڈپوز کو ختم کردیا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک اسرائیل کی روزانہ کی خلاف ورزیاں جاری ہیں. ہماری زمین کے کچھ حصے مقبوضہ ہیں، اور ہمارے قیدی آزاد نہیں کیے جاتے. اس وقت تک کوئی سیکیورٹی یا استحکام ممکن نہیں ہے۔‘