فواد چوہدری کا قومی حکومت کی تشکیل، عمران خان کی مشاورت سے نیا وزیراعظم بنانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
فواد چوہدری کا قومی حکومت کی تشکیل، عمران خان کی مشاورت سے نیا وزیراعظم بنانے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 19 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مطالبہ کیا ہے کہ آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھیں، نئی قومی حکومت تشکیل دیں اور مل کر نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سے کہتا ہوں کہ آپ صدر پاکستان ہیں، ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں، جس میں عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کو بلائیں۔انہوں نے کہا کہ کل قومی سلامتی کے اجلاس میں عمران خان اور نوازشریف نہیں گئے تو وہ کیا اجلاس ہوگا، پاکستان کا لیڈر تو عمران خان ہے اور اس کے بعد جو پاکستان میں بڑے لیڈر ہیں، وہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف ہیں، آپ ان لوگوں کو اکٹھا کریں۔ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری، نوازشریف اور عمران خان اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بیٹھیں اور مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور دیگر اکابرین کو اکٹھا کرکے آگے کا راستہ بنائیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان میں قومی حکومت کی تشکیل دی جائے، جس کے وزیراعظم کا انتخاب عمران خان، نواز شریف اور زرداری کریں، صوبائی حکومتوں کو چلتے رہنے دینا ہے تو چلتے رہنے دیں اور عمران خان کے ساتھ شفاف الیکشن طے کریں۔ سابق وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان پر کوئی کیس ہے اور نہ ان پر کوئی جرم ہے، ان کا صرف ایک جرم ہے کہ وہ اس وقت پاکستان کی مقبول لیڈر ہیں، اور پاپولر لیڈر لوگوں کو پسند نہیں آتے لیکن پاکستان کو آگے بڑھانے کا واحد حل یہی ہے، آپ زیادہ نقصان کرکے ادھر جانا چاہتے ہیں، آپ کی مرضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے میں اب بھی بہت بڑا نقصان ہو چکا ہے، اس کو بہت جانیں اور پاکستان کو آگے لے کر چلیں اور فوری طور پر قومی حکومت پاکستان میں لائیں اور نئے الیکشنز کی تاریخ طے کریں۔فواہد چوہدری نے گزشتہ روز قومی سلامتی کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے اظہارِ افسوس کے ساتھ کہا کہ کل پاکستان بہت تقسیم نظر آیا، عمران خان کو نہیں بلایا، تحریک تحفظ آئین کے اکابرین میں اختر مینگل صاحب نظر نہیں آئے، محمود اچکزئی اور بلوچستان کی حقیقی قیادت میں موجود افراد بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں علماکرام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہم اپنے جھگڑوں میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، جس طرح جنرل (ر)راحیل شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پورے پاکستان کو اکھٹا کیا تھا، اور مضبوط نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا، پاکستان میں آج بھی اسی اتحاد کی ضرورت ہے۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں چاہیے کہ تھوڑا دل بڑا کریں اور سیاست اور کرسی کو پہلی ترجیح نہ سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ جعفر ایکسپریس کا آپریشن ابھی جاری تھا تو تمام حکومتی وزرا کی طرف سے یہ بیان آنے شروع ہو گئے کہ عمران خان تو علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہے، تحریک انصاف تو ان کی ساتھی ہے، اگر پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر اور سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی علیحدگی پسند ہے، تو آپ کس کا بیانہ مضبوط کر رہے ہیں۔
انہوں نے عمران خان سے متعلق کہا کہ ان کا کوئی حقیقی جرم نہیں ہے، ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ پاکستان کے معروف سیاسی لیڈر ہیں، انہوں نے درخواست کی کہ پاکستان کو آگے بڑھایا جائے اور نئے الیکشن کی تاریخ طے کی جائے۔صحافی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بننے سے قبل اور بعد میں بھی طویل مذاکرات کیے تھے، لیکن حکومت میں موجود رانا ثنااللہ، اسحق ڈار، ایاز صادق اور عرفان صدیقی نے عمران خان سے ملاقات نہیں ہونے دی، جس کی وجہ سے مذاکرات ختم ہوئے، مزید کہا کہ عمران خان مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: فواد چوہدری کا قومی حکومت
پڑھیں:
ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے پنجاب حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے کروانے کا فیصلہ دراصل عمران خان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش ہے، اور ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس وقت براہ راست عدالت میں پیش نہ کرنا ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا ہے۔
عمران خان کو گولیاں لگیں، تب بھی وہ عدالت آنے پر مصر تھے
انہوں نے یاد دلایا کہ جب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخموں سے چور تھے، اس وقت بھی انہوں نے ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں بنفسِ نفیس پیش ہونے کو ترجیح دی۔
علیمہ خان نے سوال اٹھایا کہ اگر اُس وقت ویڈیو لنک کی اجازت نہیں دی گئی تو آج ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ “اب ایسا کسی صورت ہونے نہیں دیں گے۔ عمران خان کو عدالت میں پیش کیا جائے، ویڈیو لنک قابلِ قبول نہیں۔”
وکلاء سے مشاورت کیسے ہو گی جب وہ جیل میں ہوں گے؟
علیمہ خان نے ویڈیو لنک ٹرائل کے قانونی اور انسانی پہلو پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق، جب عمران خان عدالت میں موجود نہیں ہوں گے تو وہ اپنے وکلاء سے براہ راست مشورہ کیسے کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل کا بنیادی مقصد عمران خان کو قانونی، سیاسی اور ذاتی طور پر مکمل آئسولیٹ کرنا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم پر تحفظات
علیمہ خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت جیلوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ترمیم صرف عمران خان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، لیکن کل کو کوئی بھی شہری اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ وکلاء برادری کو متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔”
جیل ٹرائل کا مقصد فیملی اور قانونی ٹیم سے دوری ہے
انہوں نے کہا کہ جیل میں ہونے والے ٹرائلز کے باعث اہلِ خانہ اور وکلاء کو عمران خان سے براہ راست ملاقات کا موقع بھی نہیں ملتا۔
انہوں نے کہاکہ توشہ خانہ کیس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کو مکمل آئسولیشن میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تاکہ وہ نہ کسی سے بات کر سکیں اور نہ ہی کسی کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر سکیں۔”
انڈہ پھینکنے کے واقعے پر برہمی
علیمہ خان نے ان پر انڈہ پھینکنے کے واقعے پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کارکنوں نے ان خواتین کو پولیس کے حوالے کیا، لیکن اعلیٰ سطح سے احکامات آتے ہی انہیں چھوڑ دیا گیا۔ کل وہی خاتون دوبارہ آئی اور پتھر پھینکا — اگر یہی روش جاری رہی تو کل گولی بھی چل سکتی ہے۔
انہوں نے سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔