دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملکی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا، جو پونے 6 گھنٹے تک جاری رہا۔
اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کمیٹی نے انسداد دہشت گردی آپریشنز پر سیکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹرٹیجک اور ایک متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔
کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کوختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر بھی زور دیا۔ کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات، دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار واضح کرنے پر زور دیا۔
قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہارکیا۔
اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف،آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اہم سیاسی و عسکری حکام نے شرکت کی، تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں نے اس اہم اجلاس کا بائیکاٹ کیا، تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے صوبے کی نمایندگی کے لیے موجود تھے۔ آرمی چیف اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دی۔ پارلیمینٹرینز کے سوالات کے جواب بھی دیے گئے۔
پاکستان کی سلامتی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ‘ نرمی یا لچک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کی رٹ ریاست کے اندر بسنے والے تمام علاقوں پر یکساں قوت سے نافذ ہونی چاہیے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سب کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوان اور ان کے اہل خانہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی معیشت کو150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
وزیراعظم کے بیان کردہ اعدادوشمار پر غور کیا جائے توپاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی شدت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ڈیڑھ سو ارب ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہے‘ ذرا غور کریں اگر پاکستان کی معیشت کو یہ نقصان نہ پہنچتا اور دہشت گردی کی جگہ امن و امان ہوتا تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا کیا عالم ہوتا۔وزیراعظم پاکستان نے مزید کہا ہے کہ شہداء کی قربانیوں کی بدولت پاکستان کا امن بحال ہوا، معیشت سنبھلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔ پاکستان آج فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔
دہشت گردی کو ایک مرتبہ پھر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم سب کو آہنی عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کا اصل نشانہ عوام کا اتحاد ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں۔ آج کی فیصلہ کن گھڑی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم سوال کریں، کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ آج اس ملک کے25 کروڑ عوام پاکستان اور اس کی سلامتی کے محافظوں، افواج پاکستان و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو ملک، قوم، افواج پاکستان، شہیدوں و غازیوں کے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی اور ان کا اتحادی ہے۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے فوج اور عوام کے مابین دراڑ ڈالنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ فوج اور عوام ایک ہیں، ان کے مابین دراڑ ڈالنے کی سازش پہلے کامیاب ہوئی نہ آیندہ ہوگی۔ ایسے شر پسند عناصر کی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان ہے، تو ہم سب ہیں، ہماری سیاست ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم ایک ہے، ملک میں دہشت گردی کو ہر صورت شکست دیں گے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ دہشت گردی اہم قومی مسئلہ ہے جس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں، دنیا کو بھی افغان حکومت کے کردار سے آگاہ کرنا ہو گا، اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مؤثر بنانا ہو گا۔ افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جو آگ پاکستان میں لگی ہے، ہمارے اردگرد رہنے والے مت سمجھیں کہ ان تک نہیں پہنچے گی، دہشتگردوں کی مالی مدد کرنے والوں کا بھی پتہ لگانا ہو گا، افغانستان میں دہشتگردی کا معاملہ بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر اٹھانا ہو گا۔
بیرونی دنیا بھی یہ سب معاملات دیکھے، دنیا خود کو اس خطے سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔ پیپلز پارٹی، پاکستان سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہے، انھوں نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے غیر مشروط تعاون اور غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنے صوبے کی داخلی و خارجی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا دہشتگرد افغانستان سے آرہے ہیں‘ میرے لوگ دہشتگرد نہیں‘ مجھے کرسی کی پرواہ نہیں‘ سچی کھری بات کرونگا۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، اے این پی کے ایمل ولی خان، انوار الحق کاکڑ نے بھی اظہار خیال کیا اور اپنی تجاویز کمیٹی کی سامنے رکھیں۔ بعد ازاں اجلاس کے اختتام پر اسپیکرکی درخواست پر آرمی چیف نے دعا کرائی۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کوState Hard بنانے کی ضرورت ہے ہم کب تک ایک State Soft کے طور پر بے گناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے، ہم گورننس کے گیپس کو کب تک افواج پاکستان اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں،کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں، پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ علماء سے درخواست ہے کے وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں، اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا، جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں آج کا دن ان کو یہ پیغام دیتاہے کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولت کاروں کو بھی ناکام کریں گے۔
پاکستان کا آج کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تمام اقسام اور شکلوں کو ختم کرنا ہے۔ ایسا کیے بغیر پاکستان جدید دنیا کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ دہشت گردی کے سرپرستوں ‘سہولت کاروں اور بینیفشریز گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کر رہے ہیں۔
وہ جمہوریت کا لبادہ بھی اوڑھتے ہیں‘مذہب کا علم بھی اٹھا لیتے ہیں ‘مظلومیت کی دہائی بھی دیتے ہیں اور پاکستان میں نفرتوں کی آبیاری بھی کر رہے ہیں ‘ایک وفاقی اکائی کو دوسری وفاقی اکائیوں کے ساتھ لڑانے کے لیے سازش کرتے ہیں ‘بیانیہ بناتے ہیں اور سوشل میڈیا سمیت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہرذریعے کو استعمال کرتے ہیں ‘یوں دیکھا جائے تو میدان میں جو دہشت گرد اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں ‘وہ در حقیقت ان قوتوں کے پیادے یا لڑاکا فورس ہیں‘اس کے ذریعے وہ پرامن شہریوں میں خوف پیدا کرتے ہیں جب کہ سیاسی منظرنامے میں کنفیوژن کا رنگ بھرتے ہیں ‘دانشورانہ سطح پر موشگافیاں بیان کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گردی کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان دہشت گردی کے گردی کے خلاف دہشتگردی کے کرنے کے لیے پاکستان کو پاکستان کی کی سلامتی پاکستان ا کرنے والے ا رمی چیف کمیٹی نے کا اظہار کرتے ہیں رہے ہیں کے ساتھ گردی کو اور ان عزم کا ملک کی نے کہا
پڑھیں:
امن کے دشمنوں کو پاکستان میں کہیں بھی جگہ نہیں ملے گی ؛ وزیر اعظم
سٹی 42: وزیراعظم محمد شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کوئٹہ میں ذہری آڈیٹوریم میں قبائلی عمائدین کے ایک عظیم الشان جرگے سے مشترکہ خطاب کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا امن کے دشمنوں کو پاکستان میں کہیں بھی جگہ نہیں ملے گی ۔ چیف آٖف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا پاکستان آرمی مکمل طور پر چوکس ہے اور کسی بھی خطرے کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
خوفناک زلزلہ نے عمارتیں ہلا کر رکھ دیں
یہ جرگہ قبائلی قیادت سے رابطے اور بلوچستان کی بدلتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال بالخصوص بھارت کی جانب سے جاری پراکسی جنگ پر تبادلہ خیال کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم کا خطاب
وزیراعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بھارت کی سرپرستی میں کام کرنے والی پراکسیز نے بلوچستان میں قیام امن، ترقیاتی اقدامات، اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔نہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروہ جیسے کہ “فتنہ الہندستان” مقامی آبادی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے ہر صورت میں روکا جانا چاہیے۔ وزیراعظم نے قبائلی عمائدین کی قیادت اور تعمیری کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو عوامی سطح پر کسی قسم کی سماجی جگہ نہیں ملنی چاہیے، کیونکہ یہی دہشت گردی کے خاتمے اور دیرپا امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔
فتنہ الہندوستان ؛ پاکستان نے بلوچستان مین انڈین کتھ پتلیوں کی تمام نقابیں نوچ کر سیدھا نام رکھ دیا
وزیراعظم نے کہا کہ امن کے دشمنوں کو پاکستان میں کہیں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ ہمارا پیغام واضح ہے: حکومت، مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامی نظام، عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ، اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور دہشت گردی کو فیصلہ کن انداز میں شکست دیں گے۔
وزیراعظم نے بلوچستان میں خوشحالی کے لیے شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے زور دیا کہ ان اقدامات کے ثمرات نچلی سطح تک عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کو قومی یکجہتی کے لیے ان کے تاریخی کردار پر خراج تحسین پیش کیا اور بھارت کی سرپرستی میں کی جانے والی تخریبی کارروائیوں کے خلاف ہوشیار رہنے پر زور دیا۔
پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خطاب
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے قبائلی عمائدین سے بات کرتے ہوئے کہایہ بھارتی سرپرستی میں جاری پراکسی جنگ اب کوئی چھپی ہوئی بات نہیں رہی، بلکہ یہ ہمارے عوام، ترقی، اور امن کے خلاف کھلی دہشت گردی ہے۔ ہمارے پاس بھارتی ہاتھ کے واضح شواہد موجود ہیں جو بلوچستان میں کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دشمن کی یہ مذموم کوششیں ناکام ہوں گی۔ پاکستان آرمی، قوم اور بہادر بلوچ عوام کی غیر متزلزل حمایت کے ساتھ، ہر اس دشمن کا مقابلہ کرے گی جو ہماری خودمختاری کو چیلنج کرنے کی جسارت کرے گا، چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی۔فیلڈ مارشل نے مزید کہا کہ پاکستان آرمی مکمل طور پر چوکس ہے اور کسی بھی خطرے کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بلوچستان میں امن غیر مشروط ہے، اور پاکستان کا مستقبل ایک مستحکم، خوشحال بلوچستان سے جڑا ہوا ہے۔
کراچی میں سڑک پر ایک اور الم ناک حادثہ، پروفیسر جاں بحق
وزیراعظم اور فیلڈ مارشل نے بلوچستان میں خدمات انجام دینے والے سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جرات اور قربانیوں کو سراہا۔ وزیراعظم نے شہداء کے اہلِ خانہ سے مکمل تعاون اور حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد، ان کے سہولت کار اور معاونین کسی صورت نہیں بچیں گے۔
جرگہ قبائلی عمائدین کے اس متفقہ عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ وہ حکومتِ پاکستان اور مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے پرعزم رہیں گے۔
ایلون مسلک کی آنکھ پر مکا کس نے مارا
قبل ازیں، وزیراعظم پاکستان نے کوئٹہ میں کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کا بھی دورہ کیا اور اسٹوڈنٹ آفیسرز اور فیکلٹی سے خطاب کیا۔ ان کا خطاب ملک کے دفاعی اداروں کو مضبوط بنانے کے حکومتی عزم کا عکاس تھا، خاص طور پر ان علاقائی اور داخلی سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں جو تیزی سے بدل رہے ہیں۔اپنے خطاب میں وزیراعظم نے پیشہ ورانہ مہارت، آپریشنل تیاری، اور تزویراتی بصیرت کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر ایسے حساس علاقوں میں جیسے کہ بلوچستان، جہاں بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ ہماری قوم کو نشانہ بنانے اور ترقی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔