یومِ پاکستان: مینار پاکستان پر ملک کا سب سے بڑا لیزر لائٹ شو
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
لاہور:
یومِ پاکستان کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر مینارِ پاکستان میں ملک کا سب سے بڑا لیزر لائٹ شو منعقد کیا گیا۔
اس شاندار تقریب میں پہلی مرتبہ منٹو پارک میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والوں کو روشنیوں سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔
رات گئے مینار پاکستان سبز اور سفید روشنیوں سے جگمگا اٹھا جس کا دلکش نظارہ دور سے دیکھنے پر بھی واضح تھا۔ لیزر لائٹ شو کے دوران مینارِ پاکستان پر چاند، ستارہ اور قومی پرچم کی شبیہ ابھری جبکہ اس کا ہر حصہ روشنیوں میں نہا گیا۔
مینارِ پاکستان کے آرکیٹیکچرل ڈیزائن کو لیزر لائٹ کی مدد سے نمایاں کیا گیا، جس سے اس کا فرشی ستارہ اور تعمیراتی حسن اور بھی نکھر کر سامنے آیا۔ ارد گرد گھومتی لیزر لائٹ نے دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیا اور شہریوں کی بڑی تعداد اس تاریخی لمحے کا مشاہدہ کرنے کے لیے امڈ آئی۔
لاہور کی دیگر تاریخی عمارتوں جیسے شاہی قلعہ، میوزیم، پنجاب اسمبلی اور جی پی او کو بھی سبز روشنیوں میں نہلا دیا گیا، جس سے قومی پرچم کی تھیم کا خوبصورت منظر پیش کیا گیا۔
عوام نے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی جانب سے اس شاندار لائٹ شو کے انعقاد کو سراہا اور انہیں یومِ پاکستان کے موقع پر بہترین خراجِ تحسین پیش کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ شہریوں نے کہا کہ مینارِ پاکستان پر جھلملاتی روشنیوں نے خواب کا سا سماں باندھ دیا، اور ایسا محسوس ہوا جیسے سفید اور سبز جگمگاتے تاروں کی برات افق پر امڈ آئی ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیزر لائٹ کیا گیا لائٹ شو
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ
اسلام ٹائمز: پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد جو خبر عالمی ذرائع ابلاغ کا سرنامہ بنی ہوئی ہے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین طے پانے والا تاریخی دفاعی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ”کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا“۔ گویا پاکستان پر اگر کوئی بیرونی طاقت حملہ آور ہوتی ہے تو یہ حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ سمجھا جائے گا اور معاہدے کی رو سے سعودی عرب پر لازم ہوگا کہ وہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو۔ پاکستان کو اپنے جنم دن کے بعد سے ہی جس ملک کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا وہ ہندوستان تھا۔
پاک و ہند کے مابین لڑی جانے والی جنگوں میں اگرچہ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی لیکن یہ مدد اسلامی بھائی چارے کے جذبے کے تحت تھی۔ ان جنگوں میں سعودی عرب پر پاکستان کی مدد کے حوالے سے ایک اخلاقی دباؤ ضرور تھا لیکن اس پر کسی معاہدے کی رو سے کوئی ایسی آئینی پابندی عائد نہیں تھی کہ وہ پاکستان کی حتماً مدد کرے لیکن اب اگر پاکستان پر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کی حکومت کی یہ آئینی ذمے داری ہوگی کہ وہ پاکستان پر حملہ خود پر حملہ اور پاکستان کے دفاع کو اپنا دفاع سمجھتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور طاقت کو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر جواب دے۔
پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی مغربی سرحد کی جانب سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ آئے روز اس طرف سے بھی پاکستان کی سرحدوں کی پامالی ہوتی رہتی ہے۔ ٹھوس شواہد کی بنا پر اس قسم کی جارحانہ کاروائیوں میں ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کا برابر کا ہاتھ ہے۔ پاک سعودی عرب نئے معاہدے کے تحت اگر آئندہ کبھی افغانستان، ہندوستان کے تعاون سے پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کے لیے ناممکن ہو گا کہ وہ اس جھگڑے میں غیر جانبدار رہے۔ لہذا ہندوستان اور افغانستان کو یقینی طور پر اس معاہدے سے پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس دفاعی نوعیت کے اہم معاہدے کا محرک قطر پر اسرائیل کا حملہ بنا۔ اسرائیل کا یہ حملہ جہاں خلیجی ریاستوں کے دفاع پر کاری ضرب تھا وہاں یہ سعودی عرب کے لیے بھی باعث تشویش تھا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کا ایک سبب وہاں حماس کے قائدین کی موجودگی تھی۔ اس حملے کے بعد اب اسرائیل نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ جس ملک میں بھی اسے حماس کا وجود نظر آئے گا وہ اس پر حملہ آور ہوگا۔ اس حوالے سے فی الحال جن ممالک کو اسرائیل کی جانب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ترکی اور مصر ہیں۔ ان دونوں ممالک میں حماس کی قیادت کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
سعودی عرب میں حماس یا کسی فلسطینی قیادت کی اس طرح سے میزبانی کے لیے دروازے کھلے نہیں ہیں۔ لہذاء سعودی عرب کو فوری طور پر اسرائیل کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد بھی یمن کے جانب سے اسرائیل کے طرف داغے گئے میزائل کو سعودی عرب نے راستے میں ہی امریکہ کے دیے گئے تھاڈ دفاعی سسٹم کے ذریعے انٹرسیپٹ کر کے یہ ثابت کیا ہے اس کی حیثیت اب بھی اسرائیل کے لیے قائم کیے گئے ایک دفاعی حصار کی سی ہے۔ پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔