لیسکو حکام قصور کے بجلی چوروں کے آگے بے بس، ایک سال میں 37 ارب سے زائد کی بجلی چوری
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
قصور:
لیسکو حکام قصور کے بجلی چوروں کے آگے بے بس ہوگئے، ایک سال میں قصور میں 37 ارپ 20 کروڑ 70 لاکھ روپے کی بجلی چوری ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی لیسکو کیلئے قصور درد سربن گیا ہے۔ لیسکو کے 7 سرکلز میں سے سب سے زیادہ بجلی چوری قصور سرکل میں کی جارہی ہے۔
سیاسی مداخلت اور بااثر افراد کی پشت پناہی کے باعث لیسکو افسران بجلی چوروں کیخلاف کارروائی نہیں کر پاتے، اگر کوئی افیسر دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بااثر بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کرتا ہے تواسے مقامی اراکین اسمبلی کی طرف سے شدید مخالفت اور مخاصمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں: جواد احمد کی لیسکو حکام کے ساتھ جھگڑے کی ویڈیو سامنے آگئی
بجلی چوروں کی طرف سے درجنوں افسران و اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاچکی ہے۔
لیسکو دستاویزات کے مطابق قصور سرکل میں بجلی چوری کی وجہ سے پوری کمپنی کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔
لیسکو کے قصور سرکل میں ایک سال کے دوران 37 ارب،20 کروڑ،70 لاکھ روپے کی بجلی چوری ہوئی۔
قصور رورل ڈویژن میں 8 ارب 64 کروڑ، 80 لاکھ، پھول نگر ڈویژن میں 9 ارب 62 کروڑ، 90 لاکھ، چونیاں ڈویژن میں 9 ارب،38 کروڑ، 70 لاکھ، قصور سٹی ڈویژن میں 5 ارب، 66 کروڑ، 70 لاکھ اور کوٹ رادھا کشن ڈویژن میں 2 ارب،87 کروڑ، 70 لاکھ روپے کی بجلی چوری کی گئی۔
مزید پڑھیں: لاہور: بجلی چوری پکڑے جانے پر ملزمان کا لیسکو ٹیم پر حملہ
ایک سال کے دوران بجلی چوروں کیخلاف 26 ہزار،9 سو 87 مقدمات درج کیے گئے۔
بجلی چوروں کو 84 کروڑ، 89 لاکھ، 63 ہزار روپے کے ڈی بل چارج کیے گیے لیکن اس میں سے صرف 33کرور 68 لاکھ، 67 ہزار 911 روپے وصول کیے جاسکے۔
قصور سرکل کی ریکوری محض 40 فیصد رہی۔
ذرائع کے مطابق قصور سرکل میں بجلی چوروں کوبا اثر سیاسی خاندانوں کی سرپرستی حاصل ہے، یہی وجہ ہے بجلی چوروں کی نشاندہی کے باوجود انتظامیہ ان کیخلاف کارروائی میں لیسکو حکام کا ساتھ نہیں دیتی۔
مزید پڑھیں: سرکاری ادارے لیسکو کے 14ارب 12کروڑ سے زائد کے نادہندہ
جس کی وجہ سے بجلی چوروں پر مقدمات درج کروانے میں لیسکو افسران کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر مقدمہ درج ہو بھی جائیں تو ان کو پکڑ ا نہیں جاسکتا۔
لیسکو ذرائع کے مطابق اگر قصور کے بجلی چوروں کو سیاس پشت پناہی نہ ہوتو قومی خزانے کو سالانہ 40 ارب روپے کی بجلی چوری سے ہونے والے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روپے کی بجلی چوری قصور سرکل میں بجلی چوروں کی لیسکو حکام ڈویژن میں کے مطابق ایک سال
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟