Juraat:
2025-07-25@02:55:49 GMT

ایم ڈی اے، سابق کرپٹ افسران نیب کے نرغے میں آگئے

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

ایم ڈی اے، سابق کرپٹ افسران نیب کے نرغے میں آگئے

 

پانچ گریڈ کے میل ویکسی نیٹر عرفان بیگ نے 2025تک سرکاری زمینوں پر قبضے کیے
شاہ لطیف ٹاؤن میں سیکٹر24کی زمین کا جعلی لے آؤٹ پلان کی انکوائری بھی جاری

سابق کرپٹ افسران نیب کے نرغے میں آگئے۔اطلاعات کے مطابق قومی احتساب بیورو میں ایم ڈی اے کے افسران کے خلاف کارروائی بہت تیز رفتاری سے چل رہی ہے ۔ان جعلساز افسران میں شامل عرفان بیگ اور لئیق احمد بھی سرفہرست ہیں۔ خاص طور پر عرفان بیگ جس نے 2021 سے لیکر 2025 تک ایم ڈی اے میں لاتعداد کرپشن اور سرکاری زمینوں پر قبضے کیے ہیں اب باقاعدہ طور پر عرفان بیگ کے خلاف نیب سندھ میں کاروائی کا آغاز کیا گیا ہے ۔ جس میں محکمہ اینٹی کرپشن بھی قومی احتساب بیورو کی معاونت میں شامل ہے چونکہ عرفان بیگ کے خلاف متعدد شکایات درج ہیں جن میں پانچ گریڈ کے میل ویکسینٹر، اربوں روپے کے کمرشل پلاٹس، جعلی لے آؤٹ پلان، عوامی پلاٹس پر قبضے کرا کر من پسند لوگوں سے اربوں روپے پکڑ کر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق عرفان بیگ اور لئیق احمد نے شاہ لطیف ٹاؤن میں بھی سیکڑ 24 کی زمین کا جعلی لے آؤٹ پلان پاس کر کے دیا ہے جس کی انکوائری نیب میں زیر سماعت ہے ۔ عرفان بیگ کافی عرصے تک ایم ڈی اے کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہاہے اور اپنے آقاؤں کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اکثر چکمہ دینے میں کامیاب بھی رہا ہے لیکن جب سے احتساب کا شکنجہ کسا گیا ہے سارے آقا جو سسٹم مافیا کے نام سے مشہور تھے سب بلوں میں چلے گئے ہیں اور اب عرفان بیگ نے لینڈ گریبنگ، جعلی لے آؤٹ پلان، سرکاری ریکارڈ میں خرد برد کر کے اربوں روپے لوٹے ہیں احتساب کے ریڈار پر آگئے ہیں۔ عرفان بیگ کے قریبی ذرائع کے مطابق اس وقت عرفان بیگ کے پاس دو ارب سے اوپر رقم موجود ہے باقی اگر پراپرٹی کی کی بات کی جائے تو عرفان بیگ کی پراپرٹی پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر ترکی اور آذربائجان میں بھی پھیلی ہوئی ہے ۔ عرفان بیگ کا کراچی میں گھر جسکی مالیت 12 کروڑ سے اوپر ہے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک پانچ گریڈ کا میل ویکسی نیٹر مزیدکن کن پراپرٹی کا مالک ہوگا۔ عرفان بیگ کے ساتھ لئیق احمد جو کہ سمپل ڈپلومہ ہولڈر پچھلے تین سالوں سے ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ بن کر بیٹھا ہوا ہے ۔ اس کے خلاف انجینئرنگ کونسل اسلام آباد نے ایکشن بھی لیا لیکن لوکل گورنمنٹ کے آشیرباد سے لئیق احمد کا پروموشن بھی ہوگیا اور آج تک لئیق احمد اسی عہدے پر براجمان ہے۔ ذرائع کے مطابق لئیق احمد نے 2022 میں بحریہ ٹاؤن کا جو جعلی لے آؤٹ پلان پاس کیا ہے، اس کے حوالے سے نیب میں باقاعدہ شکایت درج کرا دی گئی ہے کہ باقی ایم ڈی اے افسران کے ساتھ لئیق احمد کو بھی شامل تفتیش کیا جائے ۔خیر اب دیکھنا یہ ھے کہ نیب عرفان بیگ اور لئیق احمد کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے یا پھر اپنی پرانی روایت کے مطابق کچھ طے توڑ کے بع ان جعلسازوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج

جی آپ نے درست سنا کہ 19 جولائی کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بیج فراہم کرنے والی 400 کمپنیوں کے لائسنس معطل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں کسانوں کو جعلی بیج فراہم کرنے میں ملوث پائی گئیں۔ کسان ان کمپنیز کے بیجوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب یہ سن کر زمین اور کسان دونوں کو جھٹکا لگا ہوگا۔ زمین کے نیچے سے زمین سرک گئی ہوگی اور کسان کے سر پر سے سایہ چھن گیا ہوگا۔

جن کمپنیز پر آسرا کیا ہوا تھا معلوم ہوا کہ یہ وہی بیج ہیں جو مٹی میں جب مل جاتے تو ان بیجوں کی ناکامی سے زمین بانجھ ہو جایا کرتی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ جتنے بیج استعمال ہو رہے تھے اس کا نصف جعلی بیج کہلاتے تھے لیکن کسانوں کو کیا معلوم اور زمین خاموشی سے یہ ظلم کب سے سہے جا رہی تھی۔

ہر سال فی ایکڑ پیداوار میں کمی بھی ہو رہی تھی تو اس کا الزام ماہرین زراعت سے لے کر کسان اور کالم نگار سب بیج کے علاوہ دیگر امور کو مورد الزام ٹھہراتے۔ کسان ہر سال زمین کی تیاری پر پہلے سے زیادہ محنت کرتا، پانی ڈالتا، راتوں کو اٹھ اٹھ کر پانی کی باری لگاتا، خوب محنت و مشقت کرتا رہا لیکن جب فصل کم ہوتی تو پانی کی کمی کا رونا، کبھی زمین کی زرخیزی کی شکایت۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کمپنیاں سالہا سال سے جعلی بیج زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں بیچ رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کم پیداوار اور ملک کی مجموعی پیداوار میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

چند سالوں سے اب کلائیمیٹ چینج کا کاندھا بازار میں دستیاب ہے، جعلی بیج بونے کے بعد پیداوار میں کمی کا رونا رونے کے لیے موسمی تبدیلی کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کلائیمیٹ چینج کے اثرات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن موسمی تبدیلی کو خواہ مخواہ دھر لینے کا فیشن بھی چل نکلا ہے۔

اس کی آڑ میں وہ جعلی بیج فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا دامن بچائے جا رہی تھیں۔ حکومت کو دیر بلکہ بہت زیادہ دیر سے معلوم ہوا کہ اصل مجرم تو یہ ناقص بیج ہیں جو زمین میں مل کر دھرتی کو خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ اصلی کھاد ہاتھ جوڑ لیتی کہ آپ کے کیے دھرے کا الزام اب میرے سر لگے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ جعلی کھاد بھی دستیاب ہے جو کم دام میں مل جائے اور جب جعلی بیج اور جعلی کھاد مل کر کھیتوں میں خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں کہ اس جرم کے پیچھے ہر کوئی موسمیاتی تبدیلی کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ بات مکمل نہیں ہوتی جب تک مثلث کو مکمل نہ کیا جائے۔ حیران نہ ہوں کسان بھائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسے بچانے کی خاطر سستی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

اب تینوں جب مل جاتے ہیں تو نتائج کا ذمے دار آج کل صرف اور صرف کلائیمیٹ چینج کو قرار دیا جاتا ہے اب یہ حقیقت بھی بنتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کلائیمیٹ چینج کے اثرات ہیں جو زمین کی اداسی کو بڑھا رہی ہے اسے گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ زمین ان اثرات کے زیر اثر بہے چلی جا رہی ہے اور کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس طرح جعلی بیجوں کا خیال حکومت کو 15 سے 20 سال کے بعد آیا اسی طرح کچھ نہ کچھ اب موسمیاتی تبدیلی کا خیال بھی آ ہی گیا ہے لیکن اسے ایک فی صد کہہ سکتے ہیں۔

اسی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چکوال میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا۔ 450 ملی میٹر بارش ہوئی۔ نصف درجن سے زائد ڈیمز ٹوٹ گئے۔ پورے شہر میں اور ارد گرد کے مختلف گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کلائیمیٹ چینج کے اثرات زمینوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک تنظیمیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں بلکہ ملک کے ایک نام ور ماہر کلائیمیٹ چینج جناب مجتبیٰ بیگ اپنے ذاتی وسائل اور قیمتی وقت خرچ کرکے کلائیمیٹ جرنلسٹ تیار کر رہے ہیں جوکہ موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کام کریں گے۔

اب زراعت کو بچانے کے لیے بھی کلائیمیٹ چینج کے اثرات کم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اب پاکستان کی زراعت کو جعلی بیجوں، جعلی کھاد اور جعلی ادویات کے ساتھ ساتھ کلائیمیٹ چینج کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے جعلی بیجوں کے سلسلے میں 400کمپنیوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اب جعلی کھاد کے علاوہ جب کھاد کا سیزن ہوتا ہے تو اصلی کھاد چھپا لی جاتی ہے۔ کئی عشرے قبل یہ کام ذخیرہ اندوز کیا کرتے تھے۔ وہ لالچ کے تحت معمولی منافع کے عوض پھر کھاد فروخت بھی کر دیتے تھے۔

اسی طرح جعلی ادویات کا اسٹاک ختم ہوتا تو مارکیٹ میں اصلی ادویات تھوڑے مہنگے داموں فروخت کر دیتے۔ اب بات ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ سے نکل کر مافیا کے ہاتھ آ گئی ہے۔ جو انتہائی ذہانت، مہارت اور سائنسی انداز میں بڑے کیلکولیشن کے ساتھ مارکیٹ پر قبضہ کرتے ہیں اور سائنسی اصولوں کے تحت بڑی ذہانت کے ساتھ اپنے حق میں نتائج حاصل کرتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے حکام کے پاس کار سرکار کے ہزاروں کام ہوتے ہیں، ان کا ایک ایک منٹ ، ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے اور اب موسمیاتی تبدیلی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے لہٰذا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ توجہ دی جائے لہٰذا جب تک زراعت کو ترجیح نہیں دی جائے گی اسی طرح جعلی بیج ادویات کھاد مہنگی ہو کر ملتی رہیں گی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کسانوں اور شہروں میں شہریوں تک سب کو شدید متاثر کرتے رہیں گے۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کو بھی ترجیحات میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • اوباما نے 2016 امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جعلی انٹیلیجنس تیار کی، ٹولسی گیبارڈ کا دعویٰ
  • جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج
  • انفارمیشن کمیشن نے شہریوں کو معلومات فراہم نہ کرنے پر متعدد افسران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے
  • لاہور، سینیئر سیاستدان، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی
  • سی ڈی اے افسران کو زرعی پلاٹ کی منتقلی کیلئے خلیجی ملک جانے سے روک دیا گیا
  • لاہور، سینئر سیاستدان، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کی نمازجنازہ ادا کر دی گئی
  • سابق گورنر پنجاب میاں اظہر انتقال کر گئے
  • ایف جی ای ایچ اے کے ملازمین کا ادارے میں کرپشن، اقربا پروری پر وزیراعظم آفس کو خط
  • پولیس کا اصل امتحان میدانِ عمل میں ہوگا، عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے،وزیراعظم
  • پولیس کا اصل امتحان میدانِ عمل میں ہوگا، عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے:وزیراعظم