حکومت کا ٹیکس پالیسی آفس کوجلد فعال کرنے کا فیصلہ، اہم تعیناتیوں کیلئے اسامیاں مشتہر
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کےمطالبے پر قائم ٹیکس پالیسی آفس کو جلد فعال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اہم تعیناتیوں کے لیے اسامیاں مشتہر کر دیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق ٹیکس پالیسی آفس میں ایک ڈی جی اور 5 ڈائریکٹرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل ون کے تحت ہوگی۔
ٹیکس پالیسی آفس میں اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل ٹو کے تحت ڈائریکٹر اکنامک انالیسز، ڈائریکٹر بزنس ٹیکسیشن، ڈائریکٹر پرسنل ٹیکسیشن اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل ٹیکسیشن کا تقرر بھی کیا جائے گا۔
وزارت خزانہ نے مذکورہ اسامیوں کے لیے نیشنل جاب پورٹل پر 6 اپریل تک درخواستیں طلب کرلیں۔
واضح رہے کہ وزارت خزانہ میں ٹیکس پالیسی آفس قائم کرنے کا نوٹیفکیشن گذشتہ ماہ جاری ہوا تھا، وفاقی حکومت نے ٹیکس پالیسی سازی اور ٹیکس وصولی کو الگ الگ کردیا ہے جبکہ ایف بی آر کوصرف ٹیکس وصولی کی حد تک محدود کردیا گیا ہے۔
ٹیکس پالیسی آفس حکومتی اصلاحاتی ایجنڈا کی تشکیل کے لیے قائم کیا گیا ہے، جو ٹیکس پالیسیز اور تجاویز کا تجزیہ کرے گا اور براہ راست وزیر خزانہ و ریونیو کو رپورٹ کرے گا۔
ڈیٹاماڈلنگ، ریونیو اور اکنامک فار کاسٹنگ کےذریعے ٹیکس پالیسیوں اور تجاویز کا تجزیہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو ٹیکس پالیسی سازی اور وصولی عمل کوخودمختار رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ٹیکس پالیسی آفس انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سےمتعلق پالیسی رپورٹس وزیرخزانہ کو پیش کرے گا، اس کے ذریعے ٹیکس فراڈکم کرنے کے لیےخامیوں پر قابو پاکر ٹیکس کے نفاذ پر توجہ دی جائے گی
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹیکس پالیسی آفس کرنے کا
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔