پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
گورنر ہاؤس لاہور میں منعقدہ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا آپس میں مل کر چلنے اور عوامی منصوبوں پر فوری عمل درآمد پر اتفاق ہو گیا ہے۔
گورنر ہاؤس میں دونوں پارٹیوں کی رابطہ کمیٹیوں کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا جس میں فیصلہ ہوا کہ عوامی مفاد میں دونوں پارٹیاں مل کر چلیں گی اور ملک کو مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کریں گی۔ اجلاس کے بعد پی پی کے گورنر پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جماعتوں کا اتحاد ملک کو مشکلات سے نکلنے کے لیے ہے۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کے حوالے سے اپنے تحفظات کا بھی اظہارکیا اور واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب کی بیورو کریسی میں اپنا کوئی گروپ نہیں ہے نہ وہ اپنا کوئی ڈپٹی کمشنر یا انتظامی افسر لگوانا چاہتی ہے مگر عوامی مفاد کے منصوبوں پر فوری عمل درآمد ضرور چاہتی ہے۔
عوامی مفاد کے پنجاب میں جو منصوبے چل رہے ہیں، ان پر بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے تجاویز دی گئیں جن پر واقعی فوری عمل ہونا چاہیے جس سے عوام کو فائدہ ہو سکے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا اور متعدد فیصلے بھی ہوئے اور دونوں پارٹیوں نے اپنے باہمی اتحاد کی وجوہات بھی واضح کر دیں اور گورنر اور اسپیکر پنجاب نے کہا کہ ہمیں ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو وفاق کی سیاست کرنی چاہیے۔ اس اجلاس سے قبل اسلام آباد میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بھی ملاقات ہو چکی ہے ۔
پیپلز پارٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پی پی نے ملک کے آئینی عہدے جمہوریت کی بقا کے لیے ہیں اور پی پی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی حمایت ملک کو درپیش مشکلات کی وجہ سے کر رہی ہے مگر حکومت من مانے فیصلے یکطرفہ طور پرکررہی ہے اور اہم معاملات میں بھی پیپلز پارٹی سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی اور پیپلز پارٹی کے بار بار مطالبات کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا جو قومی تقاضا ہے مگر حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی اور عوام کے مفاد کے خلاف (ن) لیگی حکومت اپنے طور پر جو فیصلے کر رہی ہے، ان سے پیپلز پارٹی اتفاق نہیں کر سکتی اور عوام دشمن حکومتی فیصلے تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت سے شکایت رہی ہے کہ پنجاب کے معاملے میں پی پی کے (ن) لیگ سے جو معاملات طے ہوئے تھے، ان پر عمل نہیں کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے حال ہی میں گورنر ہاؤس لاہور میں اجلاس ہوا جس میں دونوں پارٹیوں میں بعض معاملات پر اتفاق ایک بار پھر ہوا ہے جس پر عمل نہ ہوا تو پیپلز پارٹی پھر شکایت کرے گی جیسے ابھی ایم کیو ایم کر رہی ہے اور اس کا بھی یہ کہنا ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام ہمیں قبول نہیں کر پا رہا، اب حتمی فیصلے کا وقت آ رہا ہے اور ہمیں اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم وفاق میں دوسری اہم حکومتی حلیف ہے وہ بھی پی پی کی طرح حکومت کے یکطرفہ فیصلوں سے اتفاق نہیں کر رہی اور حکومتی موقف کے برعکس ایم کیو ایم بھی پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں ہے۔ دونوں پارٹیوں میں پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی وفاقی حکومت قائم ہے جو ایک بڑی پارٹی ہے جسے حکومتی فیصلوں سے اختلاف رہتا ہے اور پی پی کا یہ اختلاف ملک و قوم کے لیے بہتر بھی ہے۔
حکومت ایم کیو ایم کی بھی حکومت سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے وہ ایم کیو ایم کی شکایات بھی دور کرنے پر مجبور ہوگی ۔ حکومت کو اپنی حلیف چھوٹی بڑی پارٹیوں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں اور من مانے فیصلوں کے بجائے ہر اہم حکومتی معاملے میں پہلے اپنے حلیفوں سے مشاورت کرنی چاہیے اور انھیں اعتماد میں لے کر متفقہ فیصلے کرنے چاہئیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں پارٹیوں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم مسلم لیگ فیصلے کر نہیں کی ایم کی ملک کو اور پی کر رہی رہی ہے ہے اور بھی پی میں پی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔
سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے، اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔
انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے، نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔
مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے، گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی، پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔
انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا، اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔
طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔
انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے، بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔
شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے، مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔
انہوں نے کہا وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی، جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے، ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا، ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا، میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں، ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔
انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔