کشمیری حریت رہنما جلیل احمد اندرابی کی شہادت کو 29 سال مکمل، قاتل آج بھی آزاد
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
سرینگر: ممتاز کشمیری حریت رہنما جلیل احمد اندرابی کی شہادت کو 29 سال مکمل ہو گئے، لیکن ان کے اہلِ خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والے اندرابی، تحریکِ آزادی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے، جنہیں بھارتی فوج نے ماورائے عدالت قتل کر دیا۔
8 مارچ 1996 کو 5 راشٹریا رائفلز کے میجر اوتار سنگھ نے جلیل احمد اندرابی کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا۔ انہیں دورانِ حراست وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق ہوئی۔ عالمی دباؤ کے باوجود، بھارتی حکومت نے مجرم کو سزا دینے کے بجائے امریکہ فرار کروا دیا۔
اندرابی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے سنگین مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر چکے تھے۔ انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھارتی مظالم پر روشنی ڈالی، جس کے بعد انہیں نشانہ بنایا گیا۔
کشمیری عوام جلیل احمد اندرابی جیسے شہدا کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ حریت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت کا غیر قانونی قبضہ ختم نہیں ہو جاتا، آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جلیل احمد اندرابی
پڑھیں:
سعودی عرب میں معروف صحافی کو سزائے موت دیدی گئی
سعودی عرب میں نامور صحافی اور بلاگر 40 سالہ ترکی الجاسر کی سزائے موت پر آج عمل درآمد کردیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافی ترکی الجاسر کو 2018 میں ان کے گھر سے گرفتار کرکے موبائل اور لیپ ٹاپ تحویل میں لے لیئے گئے۔
عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکی الجاسر کے موبائل اور لیپ ٹاپ سے ایسا مواد ملا تھا جو ملک سے غداری اور جاسوسی کے ذمرے میں آتا ہے۔
صحافی ترکی الجاسر کا مقدمہ کب اور کہاں چلا اس کی تفصیلات منظرِعام پر نہیں لائی گئیں۔
تاہم سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سنگین جرائم میں ترکی الجاسر کو سزائے موت سنائی گئی تھی جس کی توثیق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی کی تھی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ صحافی ترکی الجاسر کو ٹویٹس میں سعودی شاہی خاندان اور ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر سزا دی گئی۔
صحافیوں کی حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے بقول سعودی حکام کا دعویٰ تھا کہ الجاسر ایک ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے پیچھے تھے جو شاہی خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات شائع کرتا رہا۔
سعودی حکام کے مطابق صحافی ترکی الجاسر پر شدت پسند گروہوں سے متعلق متنازع ٹویٹس کرنے کا بھی الزام تھا۔
ترکی الجاسر نے 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ بھی چلایا اور عرب بہار تحریک کے حق، خواتین کے حقوق، اور بدعنوانی جیسے موضوعات پر کھل کر لکھا۔
ان کا شمار سعودی عرب کے ان آوازوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اصلاحات کے حق میں آواز بلند کی۔
سعودی عرب پر پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں سزاؤں اور ان کے طریقوں جیسے سر قلم کرنا اور اجتماعی سزائیں دینے پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں گزشتہ برس 2024 میں 330 مجرموں کو سزائے موت دی گئی تھی اور رواں برس کے پہلے 5 ماہ میں بھی یہ تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔