Daily Pakistan:
2025-06-09@16:33:35 GMT

پاکستان نے چین کا قرضہ واپس کر دیا 

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

پاکستان نے چین کا قرضہ واپس کر دیا 

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان نے چین کا ایک ارب ڈالر کا کمرشل قرض واپس کردیا جس سے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر عارضی طور پر 54 کروڑڈالر کم ہوکر6ماہ کی کم ترین سطح 10.6 ارب ڈالر پرآگئے ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق پاکستان نے انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ (ICBC) کا یہ قرضہ اس ماہ کے پہلے اور تیسرے ہفتے 2مساوی قسطوں میں ادا کیا ہے۔ICBC نے پاکستان کو یہ قرضہ تقریباً 7.

5 فیصد کی فلوٹنگ شرح سود پر2سال قبل دیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بینک کے قرضہ کی 30 کروڑ ڈالر کی ایک اور قسط اپریل کے نصف میں ادا کرنا پڑے گی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا ؟

گورنر اسٹیٹ بینک کہہ چکے ہیں حکومت پاکستان نے 2024ء میں مارکیٹ سے 9 ارب ڈالر خریدے ہیں۔اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو آئی ایم ایف پروگرام سے رقم ملنے کے باوجود پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل 2 ارب ڈالر ہونا تھے ۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑی توICBC پاکستان کو مزید قرضہ دینے کو بھی تیار ہے جس کیلئے بات چیت شروع ہوچکی ہے،تاہم شرح سود کے معاملے پر ابھی اتفاق نہیں ہورہا۔پاکستان قرضوں کے معاملے میں چین پر زیادہ انحصار کررہا ہے۔

چین چارارب ڈالر کاکیش ڈیپازٹ،6.5 ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ اور 4.3  ارب ڈالرکی ٹریڈ فنانسنگ فسیلٹی  مسلسل رول اوورکرتا آرہا ہے۔ا س سال اپریل سے جون تک 2.7 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی مدت ادائیگی بھی  ختم ہورہی ہے۔

خاتون نے خود کے دیوی ہونے کا اعلان کیا، کپڑے اتار ے اور ایئر پورٹ ورکر کے چہرے پر چاقو مار دیا

اسی طرح تین چینی کمرشل بینکوں کے 2.1 ارب ڈالر کے سینڈیکیٹ فنانسنگ قرضے بھی  جون تک میچور رہے ہیں۔ا سکے علاوہ بینک آف چائنہ کے30 کروڑ ڈالر بھی اسی ماہ ادا کرنا پڑیں گے جن کیلئے پاکستان نے ری فنانس کا بندوبست کر رکھا ہے تاکہ زرمبادلہ ذخائر کو سہارا دیا جاسکے۔

ماضی کے برعکس اس بار پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے جلد سہارا ملنے کی امید نہیں ۔گو کہ پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہوچکا ہے تاہم آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس کسی وجہ سے مئی یا جون سے پہلے نہیں ہورہا۔

فیصل آبادمیں ڈاکوؤں کی شوہر کے سامنے خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی

بورڈ کا اجلاس ہوگا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر مل سکیں گے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ جون سے پہلے پہلے اسے یہ پیسے مل جائیں ۔اگر آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ جون میں چلی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کا سٹاف مالی سال  2025-26ء کے بجٹ کا بھی جائزہ لینے بھی پاکستان کا دورہ کرے ۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بہت سے معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں جن میں  جائیدادکی خریداری پر ٹیکس،مشروبات اور تمباکو پر ٹیکس کے معاملات بھی شامل ہیں۔آئی ایم ایف معیشت کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے پراپرٹی پر ٹیکس کم کرنے پر ابھی تک آمادہ نہیں ۔

باہو بلی کے ہیرو 45 سالہ پربھاس کی شادی کی خبریں، دلہن کون ہوسکتی ہے؟

پاکستان نے گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر اپنا فارن فنڈنگ گیپ پورا کرنے کیلئے چین سے 3.4 ارب ڈالر کا قرضہ دوسال کیلئے ری شیڈول کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔چین کا ایگزام بینک اس کا جائزہ لے گا۔وزارت خزانہ نے اس درخواست کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات نہیں کی۔

پاکستان کو آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام پر پورا اترنے کیلئے بیرونی فنانسنگ گیپ کی مد میں پانچ ارب ڈالر درکار ہیں۔آئی ایم ایف نے حالیہ مذاکرات کے دوران اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے تو صورتحال مستحکم ہوچکی ہے ۔

وزیراعلیٰ مریم نواز کی زیرصدارت  کابینہ کا 24واں اجلاس،طویل ترین ایجنڈا،اہم فیصلے، سپیشل افراد، بزرگ اور طلباء کیلئے مفت سفر کی سہولت کی منظوری

البتہ باقی رہی سہی کمزوریوں  پر سخت مالیاتی اورزری پالیسیوں  کے ساتھ ساتھ ایکسچینج ریٹ میں نرمی لا کر قابو پایا جاسکتا ہے۔اس سال ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے ،البتہ گزشتہ چند دنوں سے روپیہ دباؤکا شکار ہے اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی شرح مبادلہ کم ہو کرجمعرات تک 280.2  روپے فی ڈالر پر آچکی ہے۔

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف ارب ڈالر کا پاکستان کو پاکستان نے ڈالر کے

پڑھیں:

قربانی کے بعد معیشت کا خزانہ

عیدالاضحی کا سماں ہو، گلی گلی، بستی بستی، قصبوں وشہروں میں قربانی کے لیے جانور ذبح کیے جا رہے ہوں، نوجوانوں کی ٹولیاں گوشت بنانے میں مصروف ہوں، سب کی نظریں گوشت پر ہی ہوتی ہیں۔

سات حصے ہوں تو ناپ تول سے کام چلایا جاتا ہو، بکرا یا دنبہ ہو تو ادھر کھال ادھیڑی دیگر فضلہ نکال باہرکیا اور سالم بکرا فریزر کی نذر ہوکر رہ گیا۔ لیکن کھال کے علاوہ دیگر اشیا بھی ہوتی ہیں جیسے ہڈیاں، سینگ، اوجھڑی، خون اور چربی۔ بس ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ کسی طرح ان آلائشوں کو ٹھکانے لگایا جائے لیکن راقم کو یہی فکر ستائے جاتی ہے کہ جسے گند سمجھ کر آلائش سمجھ کر بے کار سمجھ کر پھینکا جا رہا ہے جہاں وہ گلتا سڑتا رہتا ہے تعفن، بدبو اور بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے، اس کو مکمل طور پر استعمال میں لا کر ایک بڑی صنعت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس فالتو میٹریل سمجھے جانے والے کوڑا کرکٹ کا 15 فی صد حصہ ہی پاکستان میں استعمال ہو رہا ہے۔

قربانی محض عبادت نہیں ہے یہ معیشت کی شہ رگ بن سکتی ہے اور وفاقی حکومت کو چھوڑ دیں صوبائی حکومت کو چھوڑ دیں، مقامی انتظامیہ، بلدیہ، ان کے سربراہان اس پر وہ نگاہ ڈالیں جس سے روزگارکی شاخیں نکلتی ہوں، صنعتی برآمدات کی جھلک ہو۔ بس اب اپنی سوچ کا زاویہ بدل لیں، جب میونسپلٹی کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان فضلات کو ٹھکانے لگایا جائے۔

آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ برازیل، ہالینڈ، چین کس طرح سے جب جانور کو ٹھکانے لگاتے ہیں تو صرف گوشت اور کھال نہیں حاصل کرتے بلکہ وہ ان جانوروں سے حاصل کردہ آلائشوں سے کس طرح مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ مثلاً برازیل جیلاٹن، بائیوڈیزل اور بلیوں کی خوراک تیار کرنے میں بازی لے گیا۔ کہتے ہیں کہ سوا ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔

ہالینڈ ویلیو ایڈڈ لیدر، اور پرفیوم تیار کرکے تقریباً ایک ارب ڈالر کما لیتا ہے، چین مکمل آلائش کو ری سائیکلنگ کر لیتا ہے اور ویٹرنری پراڈکٹس تیار کرکے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سمیٹ لیتا ہے اور پاکستان میں صرف 2 سے ڈھائی کروڑ ڈالر اس میں بھی زیادہ رقم کھال بیچ کر کچھ چربی اور ہڈیوں سے انکم ہوتی ہے۔ حالانکہ اس ملک میں 80 لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی سے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آلائشوں کے پہاڑ کھڑے کر لیے جاتے ہیں۔

حل یہ ہونا چاہیے کہ قربانی کے ویسٹ کے لیے ہر یونین کونسل کی سطح پر ہر گاؤں کی سطح پر کلیکشن پوائنٹ بنائے جائیں، پھر ہر شہر ضلع میں ایسے صنعتی یونٹ ہوں جوکہ ان آلائشوں سے صابن، کھاد، جیلاٹن اور بلیوں کے لیے خوراک بنا کر ایکسپورٹرز کے حوالے کریں۔ وہ برآمد کرکے اس کی رقم یونین کونسل کو جمع کرائے جس سے علاقے میں ترقیاتی کام مکمل کرائے جائیں۔ پورے پاکستان میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ یہ قربانی کا کچرا نہیں جسے گٹر میں پھینک دیا جائے، زمین میں دبا دیا جائے بلکہ یہ تو ملکی معیشت کا خزانہ ہے۔

اگرچہ پاکستان میں ہڈیوں سے محدود پیمانے پر جیلاٹن بنایا جاتا ہے جب کہ 90 فی صد جیلاٹن ہم اب بھی مختلف ملکوں سے درآمد کر لیتے ہیں۔ پنجاب میں ایسے چھوٹے کارخانے دیکھے گئے ہیں جہاں ہڈی چربی خون اوجھڑی کو پروسیس کرکے پالتو جانوروں کی خوراک بناتے ہیں۔ صابن گلو اور کھاد بھی بنا لیا جاتا ہے لیکن غیر معیاری کام ہوتا ہے۔ برآمدات کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ چربی سے کچھ اشیا تیار ہوتی ہیں لیکن انتہائی محدود پیمانے پر۔ حالانکہ 80 لاکھ سے زائد جانوروں سے گوشت علیحدہ کر لیں۔

لاکھوں کھالوں کو ٹک لگ جانے کے باعث قیمت انتہائی کم رہ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30 سے 35 ہزار ٹن چربی حاصل ہوتی ہے۔ 50 ہزار ٹن سے زائد ہڈی حاصل ہوتی ہے۔ اوجھڑی 30 ہزار ٹن اور خون 10 سے 12 ہزار ٹن حاصل ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں یا غلط اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کا 15 سے 20 فی صد ہی استعمال ہوتا ہے باقی دفن یا کسی کھلے علاقے میں لے جا کر ڈھیر لگا دیتے ہیں۔

اب آپ دیکھیں ہر جانورکی کھال قربانی کا خاموش تحفے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ زیادہ تر کھالیں ہم ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں مزید لیدر انڈسٹری لگائیں،کیونکہ یہ کھالیں اور دیگر ملکوں کی کھالوں میں مقابلہ نہیں۔ پاکستان خود ان سے اگرچہ کم مقدار میں لیدر جیکٹس، جوتے، بیگز وغیرہ بناتا ہے۔ تشہیرکرے اور عالمی سطح پر دعویٰ کرے کہ قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جیکٹس ہوں یا جوتے کوئی بیماری نہیں لگے گی۔

میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو شوگر کا مریض جسے ڈاکٹرز ڈراتے رہتے ہیں کہ اپنے پیروں کی حفاظت کرو وہ شخص قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جوتے پہنے وہ پاؤں کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا اور چربی جس سے صابن، لپ اسٹک، شیمپو بنایا جاتا ہے، شیمپو سے یاد آیا کہ اکثر بالوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ شیمپو بدلو۔ ارے بھائی، شیمپو نہیں بدلو بلکہ قربانی کے جانور کی چربی سے تیار کردہ شیمپو لگاؤ،کبھی بدلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

اوجھڑی اور آنتوں سے انتہائی کم مقدار میں سرجیکل دھاگہ بنایا جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ برآمد کیا جاتا ہے اور تقریباً ایک کروڑ ڈالرز کما لیتے ہیں۔ یہ 50 سے 60 کروڑ ڈالر تک باآسانی لے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اوجھڑی وغیرہ کو گندگی کے ڈھیر میں نہ بدل دیا جائے۔ سینگ اور کھر سے کئی اشیا بنائی جاتی ہیں جن میں بٹن، ہینڈی کرافٹ وغیرہ وغیرہ ہیں اور آمدن صرف 20 سے 30 لاکھ ڈالر۔ بھئی یہ 30 سے 40 کروڑ ڈالرز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ گلی گلی میں گائے، بکرے کے سینگ پھینک دیے جاتے ہیں۔

قصہ مختصر روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ برآمدات 3 سے 4 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی، قربانی کے بعد معیشت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
  • 1 اعشاریہ 9 بلین کا تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ، اقتصادی سروے
  • رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 411ارب ڈالر ہے،وزیرخزانہ محمد اورنگزیب
  • ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • ٹرمپ سے جھگڑا: ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • اب ہم وفاق کوبھی قرضہ دے سکتے ہیں: وزیر اعلیٰ کے پی کا دعویٰ
  • ہم وفاق کو بھی قرضہ دے سکتے ہیں: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا
  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • قربانی کے بعد معیشت کا خزانہ