چین-فرانس تعلقات مستحکم اور مثبت ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، چینی وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 28 March, 2025 سب نیوز


بیجنگ :چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نےعظیم عوامی ہال میں فرانسیسی وزیر خارجہ جین نوئل باروٹ سے ملاقات کی۔

جمعہ کے روز لی چھیانگ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں چین-فرانس تعلقات مستحکم اور مثبت ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں، بطور خود مختار، پختہ اور ذمہ دار ممالک ،چین اور فرانس کو  عالمی مشترکہ ترقی کے لیے زیادہ استحکام اور یقین کی فضا فراہم کرنی چاہیئے۔  چین فرانس کے ساتھ مل کر دونوں سربراہان مملکت کی اسٹریٹجک رہنمائی پر عمل کرتے ہوئے، اعلی سطحی قریبی تبادلوں کو برقرار رکھنے، تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے، اور موسمیاتی تغیر جیسے کثیرالجہتی معاملات پر تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔

لی چھیانگ نے نشاندہی کی کہ چین اور فرانس دونوں آزاد تجارت اور کثیرالجیہتی کے مضبوط حامی ہیں، اور امید کرتے ہیں کہ فرانس چین کی فرانس میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے لیے ترقی کا منصفانہ، مساوی اور قابل پیشین گوئی ماحول فراہم کرے گا۔ جین نوئل باروٹ نے کہا کہ فرانس چین کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے صدور کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے کے مطابق  اعلی سطح کے تبادلوں کو مزید بڑھانے، اور تجارت، سرمایہ کاری، سائنس و ٹیکنالوجی  سمیت دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر آمادہ ہے۔ فرانس ہمیشہ اسٹریٹجک خودمختاری پر قائم رہا ہے، تجارتی تحفظ پسندی اور تجارتی جنگوں کی مخالفت کرتا ہے، اور یورپ اور چین کے درمیان اقتصادی و تجارتی شعبوں میں مکالمے اور تعاون کو مضبوط بنانے، اور فریقین کے تحفظات کو مناسب طریقے سے نمٹانے کی حمایت کرتا ہے۔ اسی دن، سی پی سی سینٹرول کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بیجنگ میں فرانس کے وزیر خارجہ  کے ساتھ  بھی بات چیت کی۔ بات چیت کے بعد، دونوں فریقوں نے موسمیاتی تغیر کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چین فرانس

پڑھیں:

نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ؛ ترقی میں شمولیت کیلئے نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی مثبت اقدام !!

وفاقی حکومت کی جناب سے وزیراعظم یوتھ پروگرام کا آغازکیا گیا جس کے تحت ملک بھر کے نوجوانوں کیلئے لیپ ٹاپ سکیم، سکالر شپ، جدید کورسز سمیت مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ملکی ترقی میں ان کی شمولیت کیلئے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی لائی جا رہی ہے جس میں 10 برس کی عمر کے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک، سب کو شامل کیا جائے گا۔ اس پالیسی پر نوجوانوں سے مشاورت کا کام جاری ہے اور حکومت کی جانب سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں مشاورتی عمل مکمل کرکے اس پالیسی کا اعلان کر دیا جائے۔

اس پالیسی کے خدوخال کیا ہیں؟ اس سے بچوں اور نوجوانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ ملکی تعمیر و ترقی میں یہ پالیسی کیسے معاون ثابت ہوگی؟ اس پر عملدرآمد کا میکنزم کیا ہوگا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

صبیحہ شاہین

(فوکل پرسن ، نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی، وزیراعظم یوتھ پروگرام)

نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے انہیں بااختیار بنانے کیلئے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی لائی جا رہی ہے جو 4Es یعنی ایجوکیشن، ایمپلائمنٹ، انگیجمنٹ اور انوائرمنٹ پرمشتمل ہے۔

یہ بھی پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ نوجوانوں کیلئے بنائی جانے والی پالیسی میں ملک بھر کے نوجوانوں سے ہر سطح پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری، فوکل پرسنز اور ماہرین پر مشتمل 25 رکنی وفد چترال کی پہاڑیوں، سوات کی وادیوں، مردان سمیت ملک کے طول و عرض میں گیا اور وہاں کے مقامی نوجوانوں سے مشاورت کی۔ہر یونیورسٹی میں 4 فوکس گروپ بنائے جاتے ہیں اور اس طرح ان کی آراء لی جاتی ہیں۔

اس وقت تک صوبہ پنجاب کے علاوہ ملک بھر میں مشاورتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے یہ عمل رک گیا جس دن بھارت نے بہاولپور میں مذموم حرکت کی اس وقت ہم اسی سلسلے میں بہاولپور موجود تھے۔اس پالیسی پر کافی کام ہوچکا، پنجاب کے 25 شہروں میں مشاورت کے بعد آئندہ دو ماہ میں اس پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس فورم کے توسط سے میری تمام نوجوانوں سے اپیل ہے کہ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس لازمی فالو کریں ،ا ن کیلئے بہترین پروگرامز چل رہے ہیں اور ابھی مزید لائے جا رہے ہیں۔

حکومت چاہتی ہے کہ کوئی بھی نوجوان پیچھے نہ رہے، ان پیجز پر نوجوان ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ملکی آبادی کا 65 فیصد نوجوان ہیں، حکومت اکیلے انہیں روزگار نہیں دے سکتی لہٰذا ہمیں انٹرپرینورز پیدا کرنا ہوں گے۔ ہم مدارس اور سکولز کے طلبہ کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں، کسی بھی شہری سے کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جا رہا، پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سب کیلئے ہے۔نیشنل ایڈولسٹ اینڈ یوتھ پالیسی میں ماحول پر خصوصی توجہ ہے، ہم گرین انٹرپرینور شپ کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ ماحول کو بھی محفوظ بنایا جائے۔

عظمیٰ یعقوب

(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایف ڈی آئی)

ملکی تاریخ کی پہلی نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی کا کریڈٹ چیئرمین پرائم منسٹر یوتھ پروگرام رانا مشہوداحمد خان، فوکل پرسن ، نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی، وزیراعظم یوتھ پروگرام صبیحہ شاہین اور ان کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔

یہ پالیسی یقینا ملکی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ان سے ملکی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے لیکن اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو یہ معیشت پر بوجھ بن سکتے ہیں جس کا اثر ملکی ترقی پر پڑے گا لہٰذا ان کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرے نزدیک اس وقت سب سے اہم نوجوانوں کو امید دینا ہے اور مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا ہے۔ انہیں یقین دلوانا ہے کہ ریاست ان کے ساتھ، ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے کام بھی کر رہی ہے۔

میرے نزدیک پالیسی سازی سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ نوجوانوں کا ریاست پر اعتماد بحال کیا جائے۔ ریاست کو چاہیے کہ نوجوانوں کو انتہائی سنجیدگی، ذمہ داری اور بغیر کسی تاخیر کے آگے بڑھنے کے مواقع دے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور جدید یت کا دور ہے لہٰذا ایسے منصوبے لانے کی ضرورت ہے جو ہمارے مقامی حالات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم، روزگار، ایکسچینج پروگرام و دیگر حوالے سے پیشگی تربیت دینی ہے، انہیں ہر چیز کے لیے پہلے سے تیار کرنا ہے تاکہ ان کیلئے چیلنجز سے نمٹنا آسان ہو۔ نوجوانوں کیلئے کیے جانے والے اقدامات، پہلے سے کھڑی عمارت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کریں گے، ہمیں تمام طبقات کو بلاتفریق قومی دھارے میں لانا ہے۔

 نوجوان، خواتین، خواجہ سراء، اقلیتیں، خصوصی افراد سمیت سب کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہونگے۔ ہمیںا ٓزاد و جموں کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا یعنی ملک بھر کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانا ہوگا اور سب کو آگے بڑنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔

ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ اس میں سب نے اپنے اپنے مضامین شامل کروا لیے لیکن ان میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ 18 ویں ترمیم کے بعد نصاب کے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ اب طلبہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نصاب کی سرجری کی ضرورت ہے، اس کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ عصر حاضر میں ایک بڑا مسئلہ مینٹل ہیلتھ ہے لہٰذا اگر ہمیں نوجوان نسل کا حال اور مستقبل بہتر بنانا ہے تو قومی سطح پر مینٹل ہیلتھ اور ویل بیئنگ کو پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا کیونکہ جب تک باقاعدہ پالیسی نہیں ہوگی تب تک اس کام کیلئے وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔

رامین مشہود

(ممبر نیشنل یوتھ کونسل آف پاکستان)

ملکی آبادی کا 60 فیصد کے قریب نوجوان ہیں، یہ اثاثہ بھی ہیں اور رسک بھی۔ ان کیلئے حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2024ء کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو گزشتہ برس 11 فیصد نوجوان بے روزگار رہے جو ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ شرح ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس سافٹ سکلز، وویکیشنل ٹریننگ اور پریکٹیکل سکلز نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں انٹرپرینیور شپ کی بات ہوتی ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سٹارٹ اپ کلچر میں 90 فیصد ناکام ہو جاتے ہیں، اس کے فروغ کیلئے ہمیں کاروبار دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی۔سٹارٹ اپ کی گروتھ کیلئے ضروری ہے کہ صنعت و تجارت میں استحکام آئے۔

ایڈولسنٹ کی عمر 10 سے 19 برس ہوتی ہے، یہ بچے نفسیاتی اور جسمانی مسائل سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا مستقبل اور زندگی بہتر بنائی جاسکے۔ سکولوں میں بچوں کو رہنمائی ملتی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان کی تربیت، شمولیت اور ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ان بچوں کو ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کی ضرورت ہے، اس کیلئے حکومتی ادارے موجود ہیں، انہیں سسٹم میں لانا ہوگا۔

نیشنل یوتھ کونسل کے کل 113 ممبرز ہیں جن میں سے 13 اوورسیز پاکستانی ہیں۔ یہ تمام اراکین ایک طویل طریقہ کار کے تحت منتخب ہوتے ہیں، اس میں ملک بھر سے تمام طبقات کی نمائندگی ہے اور یہاں کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ نیشنل یوتھ کونسل کے اراکین وزیراعظم منسٹر یوتھ پروگرام کے حوالے سے نوجوانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں تاکہ کوئی بھی نوجوان حکومتی پالیسیوں سے محروم نہ رہے۔ پالیسی سازی میں علماء کونسل سے بھی رہنمائی لی جا رہی ہے تاکہ مدارس کے طلبہ کو بھی شامل کیا جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب پرانا ہوچکا، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

حسین ہاشمی

(نائب صدر، نیشنل یوتھ والنٹیئر نیٹ ورک)

ایڈولسنٹ اور یوتھ، ملکی آبادی کا 67 فیصد ہیں۔ ملک میں پہلی مرتبہ ان کے لیے پالیسی بنائی جارہی ہے جو خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے، اس سے ہر سطح پر ان کا استحصال ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ باعث افسوس ہے کہ فری انٹرن شپ کے نام پر ڈگری ہولڈر نوجوانوں کا استحصال ہو رہا ہے، ان سے بلامعاوضہ کام لیا جاتا ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ ہمارا ادارہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں گلوبل والنٹیئرسٹینڈرڈز کے بارے میں آگاہی دے رہا ہے۔ ہم نے نوجوانوں سے ان کی رائے بھی لیتے ہیں جنہیں پارلیمنٹیرینز تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ پالیسی سازی میں بہتری لائی جاسکے۔

یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کے بنائی جانے والی پالیسی میں ان سے مشاورت کی جا رہی ہے جو یقینا احسن اقدام ہے، اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے اور اس پر عملدرآمد میں بھی آسانی ہوگی۔ اس پالیسی میں نوجوانوں کی دماغی صحت پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جو انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ اس پالیسی میں نوجوانوں کی ’سٹرکچرڈ ایمپلائمنٹ‘ کی بات کی جا رہی ہے۔

جب اس کا ڈھانچہ بن جائے گا اور نوجوانوں کی ملازمتوں کو پالیسی کے تحت دیکھا جائے تو ان کے روزگار کے مسائل حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔نوجوانوں کیلئے پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ایسے میں ہمارا مطالبہ ہے کہ گلوبل والنٹیئر سٹینڈرڈز کو نہ صرف پنجاب یوتھ پالیسی بلکہ نیشنل یوتھ اینڈ ایڈولسنٹ پالیسی کا بھی حصہ بنایا جائے۔ گزشتہ تین برسوں سے ہمارا نیٹ ورک بارہا پنجاب حکومت تک اپنا مطالبہ پہنچا چکا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ گلوبل والنٹیئر سٹینڈرڈز کی پالیسیوں میں شمولیت سے نہ صرف پاکستان میں والنٹیئرازم میں جدت آئے گی بلکہ نوجوانوں کے رضاکارانہ کاموں کو پہچان کے ساتھ بھی فروغ ملے گا۔ ہمارے حکومتی ادارے جو عوام کو مختلف سہولیات مہیا کر رہے ہیں، ان میں شکایات کے طریقہ کارکو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان اداروں تک ہر شہری کی رسائی ہو اور شکایت کے لیے آنے والے سائلین کو عزت دی جائے گی تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔

ہر ادارے میں ایسا میکنزم ہونا چاہیے جو ہر قسم کی شکایت کے فوری حل کیلئے وقت متعین کرے اور درخواستوں کو سالہا سال نہ لٹکایا جائے۔ مزید یہ کہ شکایات اور ان کے ازالے کے حوالے سے ہر ادارے کی ماہانہ یا سہ ماہی رپورٹ شائع ہونی چاہیے، اس سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ؛ ترقی میں شمولیت کیلئے نیشنل ایڈولسنٹ اینڈ یوتھ پالیسی مثبت اقدام !!
  • وزیراعظم شہباز شریف کی وفد کے ہمراہ ترک صدر اردوان سے ملاقات،دو طرفہ تعاون کے فروغ پر اتفاق
  • شہباز شریف کی رجب طیب اردوان سے ملاقات، پاک ترک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق
  • نائب وزیراعظم کی ازبک وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک گفتگو، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • چین کے وزیر اعظم اور انڈونیشیا کے صدر کی چائنا- انڈونیشیا بزنس عشایئے میں شرکت
  • چین، 20ویں ویسٹرن چائنا انٹرنیشنل ایکسپو کا آغاز ہو گیا
  • اسحاق ڈار کا آذربائیجان کے وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کا سعودی وزیر خارجہ سے رابطہ، تعاون مضبوط بنانے کا عزم
  • چین کے معاشی آپریشن میں تیزی اور بہتری کا سلسلہ جاری ہے، چینی نائب وزیراعظم
  • IMF کا پاکستان کے معاشی استحکام میں تعاون جاری رکھنے کا عزم