ٹنڈو محمد خان: نجی اسپتال میں خاتون کے جڑواں بچوں کی پیدائش دوسرا پیٹ میں چھوڑ دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
علامتی فوٹو
ٹنڈو محمد خان میں نجی اسپتال میں خاتون کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی، دوسرا بچہ پیٹ میں چھوڑ دیا گیا۔
ورثاء نے الزام عائد کیا کہ نجی اسپتال میں خاتون کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہوئی، دوسرے بچے کو پیٹ میں ہی چھوڑ دیا گیا۔
مریضہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ 2 ماہ بعد پیٹ میں درد کی وجہ سے دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کروایا گیا، کراچی کے نجی اسپتال میں دوبارہ آپریشن کروایا تو بچہ پیٹ میں مرا ہوا تھا۔
وکیل کا کہنا ہے کہ ڈسٹر کٹ کورٹ میں ڈاکٹر کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست دی ہے۔
دوسری جانب اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک بچہ یوٹریس اور دوسرا ایبڈومینل کیویٹی میں تھا، حاملہ خواتین میں ایسے کیسز بہت کم ہوتے ہیں، خاتون کو سی ٹی اسکین کروانے کا کہا تھا، انہوں نے 2 ماہ کے بعد سٹی اسکین کروایا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نجی اسپتال میں پیٹ میں
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔