Daily Ausaf:
2025-09-18@18:03:29 GMT

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے شدت پسندوں کے حملوں نے سیکورٹی صورتحال کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ، پشاور میں بم دھماکے، اور بلوچستان میں سرکاری اداروں پر فائرنگ جیسے واقعات نے حکومت اور عوامی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ اس بحران کے پیشِ نظر، اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان، اور سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں ریاست کی پوری قوت کے ساتھ دہشتگردی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
پاکستان میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز جیسے کہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر سوات آپریشن میں عوام کی بڑی حمایت حاصل تھی، جس کے نتیجے میں چھ ہفتوں میں شدت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہوا۔ موجودہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ ایک اور فوجی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ مشکل ہے۔ تاہم، فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور سول اداروں کی شمولیت بھی ناگزیر ہے تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
اجلاس میں 2014 ء کا نیشنل ایکشن پلان دوبارہ فعال کرنے پر زور دیا گیا، جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف ریاستی اداروں کو یکجا کیا گیا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
٭کمیٹی نے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں۔
٭اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اعلیٰ حکومتی وزرا، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندگان نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔
٭سوات میں 2009 ء کے فوجی آپریشن کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ 22لاکھ افراد کی منتقلی کے بعد 6ہفتوں میں مالاکنڈکے 8اضلاع کی بازیابی ممکن ہوئی تھی۔
٭موجودہ صورتحال میں ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کوترجیح دی جائے گی۔
٭حکومت کو سیکورٹی پالیسیز میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے جدید ٹولز شامل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
٭کمیٹی نے حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے سیاسی وحدت کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔
٭اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاست کو پوری قوت کے ساتھ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
٭دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریڈارکلائزیشن اور فنڈنگ کے لیے استعمال کرنے اور دیگر ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ میڈیا کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
٭کمیٹی نے دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلانے اور اپنی پراپیگنڈا مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر سوشل میڈیا پر نظر رکھیں اور شدت پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔
٭اجلاس میں حزبِ اختلاف کی عدم ِ شرکت اور ایک بلوچ سیاسی جماعت کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے تسلیم کیا گیا کہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ بن کر ریاست کے خلاف دشمنوں کا آلہ کار بن کر دہشت گردی کر رہا ہے اور دوسرا بھائی سیاسی جماعت کا لیڈر بن کر اسمبلی میں ریاست پر تنقید کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ جبکہ حزبِ اختلاف کسی ایک ایجنڈے پر خود کو قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مشکل ترین اور قومی سلامتی کے موقع پر بھی وہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کبھی جیل سے اپنے رہنما کی پیرول پر رہائی کی شرط عائد کرتی ہے اور کبھی پختونخواہ صوبہ جہاں اس کی حکومت ہے، وہاں کے وزیراعلیٰ کی قومی سلامتی کے اجلاس میں عدم شرکت اور عدم تعاون کی پالیسی اور بیانات سے ملکی سلامتی کو نقصان اور دنیا بھر کو اس نازک ترین موقع پر غلط پیغام مل رہا ہے۔
٭پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا۔ قومی سلامتی جیسے اہم معاملے پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ قومی سلامتی جیسے حساس معاملے پر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی سلامتی کے مسائل پر یکجا ہو کر فیصلہ سازی میں حصہ لیں۔
٭فوجی آپریشنز اور عسکری کردار کو عارضی حل قرار دیا گیا کیونکہ یہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو کمزور تو کرتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر خاتمہ نہیں کر پاتے۔
٭ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پولیس کا کردار مرکزی ہونا چاہیے، کیونکہ ان کا عوام سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے۔فی الحال پولیس ابھی تک ناکام نہیں ہوئی، اس کو بہترین فیصلہ سازوں کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ آپریشن کیلئے مفید اور موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
٭بلوچستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کا ریاست پر اعتماد بحال نہیں کیا جاتا کمیٹی میں کمیٹی میں یہ تسلیم کیا گیا کہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (جیسے سیاسی مذاکرات، معاشی ترقی)کی ضرورت ہے۔
٭کمیٹی نے بیانیے کی ناکامی کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارا بیانیہ راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود ہے۔ بلوچ نوجوانوں اور عام شہریوں تک ریاست کا پیغام نہیں پہنچتا۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے فوجی آپریشن قومی سلامتی سوشل میڈیا پر زور دیا اجلاس میں کمیٹی نے کی ضرورت کیا گیا دیا گیا کے خلاف گیا کہ

پڑھیں:

سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-11-11
سکھر(نمائندہ جسارت )سکھر چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسرا اجلاس ایس ایس پی سکھر کی تاجروں کو مسائل کے حل اور سکھر کو سیف سٹی بنانے کی یقین دہانی سکھر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسرا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایس ایس پی سکھر اظہر خان مغل نے کاروباری برادری کو مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ کے اجلاس سے قبل تمام شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے مختلف علاقوں بشمول اہم مقامات، کچہ ایریا، نواں گوٹھ اور روہڑی میں مجرموں اور مشکوک افراد کے خلاف کاروائیں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی پولیس اپنی کارکردگی کا ماہانہ جائزہ لے کر سکھر کو سیف سٹی بنانے کے اقدامات کو مزید مؤثر بنائے گی۔اجلاس کی صدارت ایوان کے صدر محمد خالد کاکیزئی نے کی، جبکہ سینئر نائب صدر امیت کمار، امن و امان کمیٹی کے کنوینر چوہدری زاہد اقبال، سابق صدور اور اراکین ایوان شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و سندھ ریجنل چیئرمین بلال وقار خان نے ایس ایس پی سکھر کے اقدامات کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کاد۔ اجلاس کے دوران اراکین ایوان نے تجارتی مراکز میں گشت میں اضافے، نشہ آور اشیاء کی فروخت اور دیگر مسائل کے حل کیلئے تجاویز پیش کیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایس ایس پی کی زیرِ کمانڈ ضلعی پولیس سکھر کی کاوشوں سے موٹر سائیکل ریکور کر کے مالکان کے حوالے کی گئی ہیں جو خوش آئند ہے اور مختلف وارداتوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کاروائیاں کر کے کاریں، موٹرسائیکلیں ، موبائل فون ، نقدی ریکور کرنے کی گذارش کی۔ سکھر چمبر اور پولیس کے مابین کوا?رڈینیشن کمیٹی کے قیام کے بعد تاجروں میں اعتماد بحال ہوا ہے اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، جس پر ایس ایس پی اور ان کی ٹیم مبارکباد کے مستحق ہے۔ اجلاس کے شرکاء نے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کیلئے مغفرت اور بلند درجات کی دعا کی۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے. عاصم افتخار
  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت مقوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس
  • پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف قرارداد منظور
  • پی ٹی آئی نے ہمیشہ دہشت گردوں کے موقف کی تائید کی، وزیرمملکت قانون
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • احتجاج کیس، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی درخواست ضمانت خارج