پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے شدت پسندوں کے حملوں نے سیکورٹی صورتحال کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ، پشاور میں بم دھماکے، اور بلوچستان میں سرکاری اداروں پر فائرنگ جیسے واقعات نے حکومت اور عوامی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ اس بحران کے پیشِ نظر، اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان، اور سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں ریاست کی پوری قوت کے ساتھ دہشتگردی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
پاکستان میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز جیسے کہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر سوات آپریشن میں عوام کی بڑی حمایت حاصل تھی، جس کے نتیجے میں چھ ہفتوں میں شدت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہوا۔ موجودہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ ایک اور فوجی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ مشکل ہے۔ تاہم، فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور سول اداروں کی شمولیت بھی ناگزیر ہے تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
اجلاس میں 2014 ء کا نیشنل ایکشن پلان دوبارہ فعال کرنے پر زور دیا گیا، جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف ریاستی اداروں کو یکجا کیا گیا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
٭کمیٹی نے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں۔
٭اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اعلیٰ حکومتی وزرا، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندگان نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔
٭سوات میں 2009 ء کے فوجی آپریشن کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ 22لاکھ افراد کی منتقلی کے بعد 6ہفتوں میں مالاکنڈکے 8اضلاع کی بازیابی ممکن ہوئی تھی۔
٭موجودہ صورتحال میں ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کوترجیح دی جائے گی۔
٭حکومت کو سیکورٹی پالیسیز میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے جدید ٹولز شامل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
٭کمیٹی نے حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے سیاسی وحدت کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔
٭اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاست کو پوری قوت کے ساتھ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
٭دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریڈارکلائزیشن اور فنڈنگ کے لیے استعمال کرنے اور دیگر ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ میڈیا کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
٭کمیٹی نے دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلانے اور اپنی پراپیگنڈا مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر سوشل میڈیا پر نظر رکھیں اور شدت پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔
٭اجلاس میں حزبِ اختلاف کی عدم ِ شرکت اور ایک بلوچ سیاسی جماعت کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے تسلیم کیا گیا کہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ بن کر ریاست کے خلاف دشمنوں کا آلہ کار بن کر دہشت گردی کر رہا ہے اور دوسرا بھائی سیاسی جماعت کا لیڈر بن کر اسمبلی میں ریاست پر تنقید کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ جبکہ حزبِ اختلاف کسی ایک ایجنڈے پر خود کو قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مشکل ترین اور قومی سلامتی کے موقع پر بھی وہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کبھی جیل سے اپنے رہنما کی پیرول پر رہائی کی شرط عائد کرتی ہے اور کبھی پختونخواہ صوبہ جہاں اس کی حکومت ہے، وہاں کے وزیراعلیٰ کی قومی سلامتی کے اجلاس میں عدم شرکت اور عدم تعاون کی پالیسی اور بیانات سے ملکی سلامتی کو نقصان اور دنیا بھر کو اس نازک ترین موقع پر غلط پیغام مل رہا ہے۔
٭پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا۔ قومی سلامتی جیسے اہم معاملے پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ قومی سلامتی جیسے حساس معاملے پر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی سلامتی کے مسائل پر یکجا ہو کر فیصلہ سازی میں حصہ لیں۔
٭فوجی آپریشنز اور عسکری کردار کو عارضی حل قرار دیا گیا کیونکہ یہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو کمزور تو کرتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر خاتمہ نہیں کر پاتے۔
٭ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پولیس کا کردار مرکزی ہونا چاہیے، کیونکہ ان کا عوام سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے۔فی الحال پولیس ابھی تک ناکام نہیں ہوئی، اس کو بہترین فیصلہ سازوں کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ آپریشن کیلئے مفید اور موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
٭بلوچستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کا ریاست پر اعتماد بحال نہیں کیا جاتا کمیٹی میں کمیٹی میں یہ تسلیم کیا گیا کہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (جیسے سیاسی مذاکرات، معاشی ترقی)کی ضرورت ہے۔
٭کمیٹی نے بیانیے کی ناکامی کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارا بیانیہ راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود ہے۔ بلوچ نوجوانوں اور عام شہریوں تک ریاست کا پیغام نہیں پہنچتا۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے فوجی آپریشن قومی سلامتی سوشل میڈیا پر زور دیا اجلاس میں کمیٹی نے کی ضرورت کیا گیا دیا گیا کے خلاف گیا کہ
پڑھیں:
پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس
اسلام آباد: نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تیز رفتار تعمیر کے لیے مربوط قومی اقدامات اور فعال منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے آج ملک میں پانی کے ذخیروں کی تعمیر کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، وفاقی وزراء برائے آبی وسائل، منصوبہ بندی، خزانہ، قانون و انصاف؛ آئی پی سی اور پی ایم او پر وزیر اعظم کے مشیر؛ ایس اے پی ایم سے ڈی پی ایم آفس؛ اقتصادی امور کے وفاقی سیکرٹریز، آبی وسائل، کابینہ، خزانہ، منصوبہ بندی، چیئرمین ایف بی آر، چیف سیکرٹری بلوچستان اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز بھی اجلاس میں شریک تھے۔
اجلاس میں پاکستان بھر میں پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر کا عمل تیز کرنے پر غور و خوض کیا گیا۔ کمیٹی نے مؤثر وسائل کو متحرک کرنے اور طویل مدتی بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کے لیے سفارشات پیش کیں۔
نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار نے مربوط قومی اقدامات، پاکستان کے پانی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے فعال منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔
Post Views: 6