امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

این بی سی نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایسی بمباری کی جائے گی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں:’اپنا میزائل پروگرام ختم نہیں کرینگے‘، ٹرمپ کے خط پر ایرانی سپریم لیڈر کا جواب

انہوں نے کہا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا تو بمباری ہو گی۔ انہوں نے ایران پر ’ثانوی محصولات‘ لگانے کے امکان کا بھی ذکر کیا۔

ٹرمپ نے تصدیق کی کہ دونوں فریقین کے حکام فی الحال ’بات چیت‘ کر رہے ہیں، حالانکہ 2018 میں امریکا کے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

ایران نے ٹرمپ کے انتباہ کے باوجود جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو مسترد کر دیا۔

ٹرمپ نے جمعے کو بھی اسی طرح کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری بڑی ترجیح ہے کہ ہم ایران کے ساتھ اس پر کام کریں لیکن اگر ہم نے اس پر کام نہیں کیا تو ایران کے ساتھ بری، بری چیزیں ہونے والی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:آیت اللہ خامنہ ای دوبارہ منظر عام پر آگئے، امریکا و یورپ پر ’شرانگیزی‘کم کرنے پر زور

ٹرمپ کا یہ تبصرہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کے ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر کو بھیجے گئے خط کا جواب دینے کے فوراً بعد سامنے آئے، جس میں کہا گیا تھا کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت میں شامل نہیں ہوگا۔

پیزشکیان نے ایک ٹیلیویژن خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہم بات چیت سے گریز نہیں کرتے؛ یہ وعدوں کی خلاف ورزی ہے جو اب تک ہمارے لیے مسائل کا باعث بنی ہے، انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔

براہ راست مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے، پیزشکیان نے کہا کہ ایران کے جواب، عمان کے راستے بھیجے گئے، نے امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے دروازے کھلے چھوڑ دیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران بمباری ٹرمپ جوہری معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایران جوہری معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے ایران کے کے ساتھ

پڑھیں:

وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار

امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟

VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔

وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔

1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔

مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد

صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا

متعلقہ مضامین

  • چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ٹرمپ
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • بھارت نے انڈس طاس معاہدہ معطل اور پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے‘ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.ٹرمپ
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ٹرمپ
  • دھمکی نہیں دلیل
  • امریکی صدر کا یوٹرن، چین کے ساتھ معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ