Express News:
2025-09-18@14:51:31 GMT

بے مثال تاج اورنجیب الطرفین لوگ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

باغوں میں بہار ہے ،ہرگلے میں ہار ہے، چہروں پر نکھار ہے یعنی سب کچھ گل ہے ،گلزار ہے، سکون ہے ،قرار ہے ہرگھر میں تہوار ہے اوریہ کوئی اورمقام نہیں ہے بلکہ ہمارے پیارے پیارے نکھرے صوبے خیبر پختون خوا کا ہردر ودیوار ہے ۔

امن وامان ہے دارالامان ، تعمیرات ہیں عالی شان، تعلیمات میں ہائی فائی، صحت میں واہ واہ ، روزگار میں بے مثال، رہائش میں کمال اور صفائی میں بے مثال، مطلب یہ کہ ہرطرف سے جلال وجمال۔اور یہ ہم نہیں کہہ ر ہے، اخبارات کہہ رہے ہیں، بیانات کہہ رہے ہیں، اشتہارات کہہ رہے ہیں اوربڑے بڑے صادرات کہہ رہے ہیں، سہولیات،ضروریات، آسائشات کہہ رہی ہیں ، اب اگر ہمیں نظر نہیں آرہا تو یہ صرف ہماری آنکھوں کا قصور اورسمجھ دانی کا فتور ہی ہوسکتا ہے ۔

ایک زمانے میں پشاور ٹی وی سے ایک ہندو ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس میں ایک شخص دوسرے کو ایسی کوئی خبر سناتاتھا تو سننے والا کہتا یار، یہ جھوٹ ہے لیکن بتانے والا جب کہتا ہے کہ میں نہیں بلکہ اخبار کہہ رہا ہے تو دوسرا کہتا جب اخبار کہتا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہتا ہوگا ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ان دنوں ہماری بھی ہے جب اخبارات کہہ رہے ہیں تو پھر سچ ہی ہوگا اورہم اگر یہ کہیں کہ نظر کیوں نہیں آتا تو ہمارا ہی قصور ہوا نا ،اس لیے ہم بالکل بھی نہیں کہیں گے کہ

 آنکھوں میں چمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتی

 پلکوں پہ گہر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتے

 تیری ہی طرح آج ترے ہجر کے دن بھی

 جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے

 وہ ایک بادشاہ نے ایک سنار سے کہا کہ میرے لیے ایک ایسا تاج بناؤ جو دنیا میں آج تک نہ کسی نے بنایا ہو نہ دیکھا ہو نہ پہنا ہو پھر کچھ دنوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اتنے دنوں میں تیار ہوناچاہیے ورنہ … اوراس ورنہ کے بعد اسے پتہ تھا کہ بادشاہ ’’ورنہ‘‘ کے بعد کیاکرتا ہے ۔ آخر بڑی سوچ بچار کے بعداس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آہی گیا ۔

مقررہ دن کو سنار آتا ہوا نظر آیا جس نے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح آگے پھیلائے ہوئے تھے جیسے کوئی بہت ہی نازک چیز ہاتھوں میں اٹھائی ہو۔ دربار میں آکر اس نے کہا، حضور پرنور، یہ رہا وہ تاج جو دنیا میں بے مثال ہے اوراس میں یہ کمال ہے کہ صرف ’’حلالی‘‘ لوگوں کو نظر آتا ہے ، مشکوک الطرفین اوروالدین کو بالکل نظر نہیں آتا، پھر اس نے تاج کے بارے میں اوربھی بہت سارے عجائب وغرائب بیان کیے اورکمال کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ سمیت سب کو وہ صاف صاف دکھائی دینے لگا تھا کیوں کہ کوئی بھی خود کو مشکوک الطرفین اور والدین نہیں بنانا چاہتا تھا ہرطرف سے تعریف کے ڈونگڑے برسنے لگے۔ وزیراعظم اورخود شاہ والا نے بھی کہا ، کہ واقعی بے مثال ہے ، سراسر جلال وجمال اورمجموعہ کمال ہے

 آکے کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا

پھرسنار نے نہایت ادب واحترام کے ساتھ اورنزاکت احتیاط اوراہتمام کے ساتھ وہ تاج جو صرف’’حلالیوں‘‘ کو نظرآتاتھا ، شاہ شاہان کے سراقدس کو پہنایا تو سارادربارمبارک سلامت کے نعروں سے گونج اٹھا۔

ایسے سچ پر خدا کی مار، زمانے کی پھٹکار جس کے اظہار پر آدمی کے والدین کاکیریکٹر مشکوک ہوجائے اس لیے ہم نے بھی کہا ، واہ کیا تاج ہے، کیا صوبہ ہے کیاحکومت ہے کیا بیانات ہیں۔ کیا پیراڈائز گاٹ ہے۔

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

 ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

 جب بیانات کہہ رہے ہیں اخبارات کہہ رہے ہیں وزیرین ، مشیرین اورمعاونین کہہ رہے ہیں تو پھر سچ ہی ہوگا۔یہ جو کچھ بتایا جارہا ہے ،مل رہا ہوگا کسی کو۔ وہ ’’کسی‘‘ کون کون ہیں کہاں کہاں ہیں کیسے کیسے ہیں یہ کس کو پتہ۔ ؎

اس انداز تبسم میں ہے گم سارا چمن

 یہ خبر کس کو کلی کی جان کس شکل میں ہےا1ھ

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہہ رہے ہیں کیوں نہیں بے مثال نہیں ا

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage