بے مثال تاج اورنجیب الطرفین لوگ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
باغوں میں بہار ہے ،ہرگلے میں ہار ہے، چہروں پر نکھار ہے یعنی سب کچھ گل ہے ،گلزار ہے، سکون ہے ،قرار ہے ہرگھر میں تہوار ہے اوریہ کوئی اورمقام نہیں ہے بلکہ ہمارے پیارے پیارے نکھرے صوبے خیبر پختون خوا کا ہردر ودیوار ہے ۔
امن وامان ہے دارالامان ، تعمیرات ہیں عالی شان، تعلیمات میں ہائی فائی، صحت میں واہ واہ ، روزگار میں بے مثال، رہائش میں کمال اور صفائی میں بے مثال، مطلب یہ کہ ہرطرف سے جلال وجمال۔اور یہ ہم نہیں کہہ ر ہے، اخبارات کہہ رہے ہیں، بیانات کہہ رہے ہیں، اشتہارات کہہ رہے ہیں اوربڑے بڑے صادرات کہہ رہے ہیں، سہولیات،ضروریات، آسائشات کہہ رہی ہیں ، اب اگر ہمیں نظر نہیں آرہا تو یہ صرف ہماری آنکھوں کا قصور اورسمجھ دانی کا فتور ہی ہوسکتا ہے ۔
ایک زمانے میں پشاور ٹی وی سے ایک ہندو ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس میں ایک شخص دوسرے کو ایسی کوئی خبر سناتاتھا تو سننے والا کہتا یار، یہ جھوٹ ہے لیکن بتانے والا جب کہتا ہے کہ میں نہیں بلکہ اخبار کہہ رہا ہے تو دوسرا کہتا جب اخبار کہتا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہتا ہوگا ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ان دنوں ہماری بھی ہے جب اخبارات کہہ رہے ہیں تو پھر سچ ہی ہوگا اورہم اگر یہ کہیں کہ نظر کیوں نہیں آتا تو ہمارا ہی قصور ہوا نا ،اس لیے ہم بالکل بھی نہیں کہیں گے کہ
آنکھوں میں چمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتی
پلکوں پہ گہر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتے
تیری ہی طرح آج ترے ہجر کے دن بھی
جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے
وہ ایک بادشاہ نے ایک سنار سے کہا کہ میرے لیے ایک ایسا تاج بناؤ جو دنیا میں آج تک نہ کسی نے بنایا ہو نہ دیکھا ہو نہ پہنا ہو پھر کچھ دنوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اتنے دنوں میں تیار ہوناچاہیے ورنہ … اوراس ورنہ کے بعد اسے پتہ تھا کہ بادشاہ ’’ورنہ‘‘ کے بعد کیاکرتا ہے ۔ آخر بڑی سوچ بچار کے بعداس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آہی گیا ۔
مقررہ دن کو سنار آتا ہوا نظر آیا جس نے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح آگے پھیلائے ہوئے تھے جیسے کوئی بہت ہی نازک چیز ہاتھوں میں اٹھائی ہو۔ دربار میں آکر اس نے کہا، حضور پرنور، یہ رہا وہ تاج جو دنیا میں بے مثال ہے اوراس میں یہ کمال ہے کہ صرف ’’حلالی‘‘ لوگوں کو نظر آتا ہے ، مشکوک الطرفین اوروالدین کو بالکل نظر نہیں آتا، پھر اس نے تاج کے بارے میں اوربھی بہت سارے عجائب وغرائب بیان کیے اورکمال کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ سمیت سب کو وہ صاف صاف دکھائی دینے لگا تھا کیوں کہ کوئی بھی خود کو مشکوک الطرفین اور والدین نہیں بنانا چاہتا تھا ہرطرف سے تعریف کے ڈونگڑے برسنے لگے۔ وزیراعظم اورخود شاہ والا نے بھی کہا ، کہ واقعی بے مثال ہے ، سراسر جلال وجمال اورمجموعہ کمال ہے
آکے کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا
پھرسنار نے نہایت ادب واحترام کے ساتھ اورنزاکت احتیاط اوراہتمام کے ساتھ وہ تاج جو صرف’’حلالیوں‘‘ کو نظرآتاتھا ، شاہ شاہان کے سراقدس کو پہنایا تو سارادربارمبارک سلامت کے نعروں سے گونج اٹھا۔
ایسے سچ پر خدا کی مار، زمانے کی پھٹکار جس کے اظہار پر آدمی کے والدین کاکیریکٹر مشکوک ہوجائے اس لیے ہم نے بھی کہا ، واہ کیا تاج ہے، کیا صوبہ ہے کیاحکومت ہے کیا بیانات ہیں۔ کیا پیراڈائز گاٹ ہے۔
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
جب بیانات کہہ رہے ہیں اخبارات کہہ رہے ہیں وزیرین ، مشیرین اورمعاونین کہہ رہے ہیں تو پھر سچ ہی ہوگا۔یہ جو کچھ بتایا جارہا ہے ،مل رہا ہوگا کسی کو۔ وہ ’’کسی‘‘ کون کون ہیں کہاں کہاں ہیں کیسے کیسے ہیں یہ کس کو پتہ۔ ؎
اس انداز تبسم میں ہے گم سارا چمن
یہ خبر کس کو کلی کی جان کس شکل میں ہےا1ھ
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہہ رہے ہیں کیوں نہیں بے مثال نہیں ا
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)