کابل فال کے وقت افغان ایئر فورس طالبان کے خلاف امریکی ایئر کرافٹس کیوں استعمال نہیں کرپائی؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
سنہ 2021 میں افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے وقت امریکا اربوں ڈالر کے اپنے جنگی ہتھیار بشمول متعدد طیارے اور بلیک ہاکس ہیلی کاپٹرز اسی سرزمین پر چھوڑگیا تھا اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وہ سامان حرب واپس لینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے امریکا کو مطلوب دہشتگرد کیسے پکڑا؟
جہاں تک اپنے ہتھیار اور جہاز و ہیلی کاپٹرز افغانستان میں ہی چھوڑ کر جانے کا سوال ہے تو اس وقت امریکا کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ وہ سامان اور جہاز ملک میں ہر شہر پر اپنا قبضہ جماتے ہوئے تیزی سے کابل کی جانب بڑھتے طالبان سے نمٹنے کے لیے افغان فوج کے کام آئیں گے جبکہ اس وقت ایک رائے یہ بھی تھی کہ امریکا نے وہ اسلحہ جان بوجھ کر طالبان کے لیے چھوڑ دیا تھا اور اس کو یہ بھی پتا تھا کہ افغان فوج طالبان جنگجوؤں سے نہیں لڑ سکے گی۔یاد رہے کہ طالبان اور امریکا کے مابین کامیاب معاہدے کے بعد امریکا نے اعلان کردیا تھا کہ وہ 11 ستمبر 2021 کو افغناستان چھوڑ جائے گا لیکن پھر اس کی فوجیں پہلے ہی ملک چھوڑ گئیں اور 15 اگست کو طالبان نے کابل پر اپنا قبضہ جمالیا اور امریکا کی اتنی تربیت لینے والی افغان فوج دیکھتی ہی رہ گئی۔
واضح رہے کہ امریکا 20 سال افغانستان میں رہا اور اس دوران طالبان کو امریکا اور نیٹو کی زمینی افواج سے تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن اگر انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو وہ خصوصاً دشمنوں کے فائٹر جہازوں کی وجہ سے آتی تھی جن کے حملوں کا ان کے پاس کوئی توڑ نہیں ہوتا تھا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت افغان ایئرفورس کے پاس 170 کے قریب طیارے اور بلیک ہاکس تھے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا نے وہ تمام وہیں چھوڑ دیے یا کچھ ساتھ لے گیا۔ لیکن چھوڑے جانے والے جہازوں اور ہیلی کاپٹرز بہرحال بہت زیادہ تھی۔ علاوہ ازیں امریکا نے جو حربی سامان افغانستان میں چھوڑا اس کی کل مالیت 7 ارب ڈالر سے 10 ارب ڈالر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان میں زلمے خلیل زاد کی واپسی ایک نیا گیم پلان جس کا نشانہ پاکستان ہے: برگیڈئیر آصف ہارون
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب افغان فوج کے پاس جنگی ایئر کرافٹس موجود تھے تو انہوں نے کابل کی جانب بڑھتے ہوئے طالبان جنگجوؤں پر کیوں نہیں استعمال کیا اور بغیر لڑے ہی میدان خالی کرگئے۔ تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے موقعے پر فائٹر جہازوں کے جتنے بھی غیر ملکی ٹیکنیشنز تھے وہ بھی افغانستان سے نکل گئے۔ حالاں کہ پہلے امریکی حکام نے افغان ایئر فورس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے جہاز اور ماہرین کچھ عرصہ افغانستان میں ہی رہیں گے۔
اس صورتحال پر ہکا بکا ہوکر افغان ایئر فورس نے امریکی حکام سے پوچھا کہ جب جہازوں کی دیکھ بھال کرنے والے ٹیکنیشن ہی نہیں ہوں گے تو ان کے پائلٹس جہاز کیسے استعمال کریں گے۔
مزید پڑھیں: سی آئی اے کی معلومات پر کابل دھماکے کا ماسٹر مائنڈ شریف اللہ گرفتار
اس پر امریکی حکام نے کہا کہ چوں کہ ہماری سیکیورٹی بھی اب افغانستان میں نہیں رہے گی اس لیے جہازوں کی مینٹیننس اور دیکھ بھال کی ذمے دار غیر ملکی کمپنی نے بھی کہہ دیا ہے کہ ان کے ٹینکیشن یہاں نہیں رہیں گے۔ تاہم پھر کمپنی نے یہ پیغام دیا کہ اگر افغان فوج کو جہازوں کے لیے ٹیکنیکل مدد چاہیے ہوگی تو وہ ویڈیو لنک پر کمپنی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ افغان ایئر فورس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ فائٹر جہازوں کی مینٹیننس ویڈیو لنک پر دیکھ دیکھ کر کرپائیں اور پھر اس حوالے سے انہیں پڑوسی ممالک کی جانب سے بھی کوئی باقائدہ معاونت نہ مل سکی جس کے باعث جہاز ہوتے ہوئے بھی وہ انہیں طالبان کے خلاف استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ علاوہ ازیں جب طالبان 15 اگست کو کابل فتح کرنے پہنچے تو عین اسی وقت افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی چپ چاپ ملک چھوڑ گئے تھے نتیجتاً طالبان کو دارالخلافے کے کنٹرول کے حصول اور ایوان صدر میں گھستے وقت کسی افغان فوجی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اشرف غنی افغان ایئرفورس امریکی اسلحہ امریکی افواج امریکی جنگی جہاز طالبان کابل فال نیٹو افواج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان ایئرفورس امریکی اسلحہ امریکی افواج امریکی جنگی جہاز طالبان کابل فال افغان ایئر فورس افغانستان میں افغان فوج امریکا نے جہازوں کی کی جانب یہ بھی تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ویزے کیوں روک رہا ہے؟
وائٹ ہاؤس اس ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک ہونے والے ایرانی اور دیگر ممالک کے وفود پر سفری اور دیگر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کی ایک اندرونی یادداشت میں سامنے آئی ہے۔
یادداشت کے مطابق ایران، سوڈان، زمبابوے اور برازیل کے وفود پر ممکنہ پابندیاں اس فیصلے کے بعد متوقع ہیں جس میں وائٹ ہاؤس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور ان کے وفد کو ویزا دینے سے انکار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے بغیر فلسطین کا 2 ریاستی حل، اقوام متحدہ میں قرارداد منظور
محمود عباس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے، جہاں کئی مغربی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مجوزہ پابندیاں، جن پر ابھی غور جاری ہے اور جو کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہیں، ان وفود کی نیویارک شہر سے باہر جانے کی صلاحیت کو شدید حد تک محدود کردیں گی۔
ایرانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پہلے ہی نیویارک شہر کے اندر محدود ہے، تاہم ایک تجویز کے تحت انہیں بڑے ہول سیل اسٹورز جیسے ’کوسٹکو‘ اور ’سیمز کلب‘ پر امریکی محکمہ خارجہ سے پیشگی اجازت کے بغیر خریداری سے بھی روکا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز
یہ اسٹورز ایرانی سفارتکاروں میں اس لیے مقبول رہے ہیں کیونکہ وہاں وہ بڑی مقدار میں ایسی اشیا خرید لیتے ہیں جو ایران میں دستیاب نہیں اور نسبتاً سستی ہوتی ہیں، پھر انہیں وطن بھیج دیتے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ ایران کے لیے یہ شاپنگ پابندی کب نافذ ہوگی، تاہم یادداشت میں کہا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ تمام غیر ملکی سفارتکاروں کی ہول سیل کلبز کی ممبرشپ پر بھی شرائط عائد کرنے کے قواعد مرتب کرنے پر غور کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں 2 ریاستی کانفرنس بحال کرنے کی منظوری، امریکا و اسرائیل کی مخالفت
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں ہونے والی 12 روزہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دیا۔
اس جنگ کے نتیجے میں اپریل سے جاری امریکی ایران جوہری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے۔
برازیل کے معاملے میں یہ واضح نہیں کہ ممکنہ ویزا پابندیاں صدر لوئز اناسیو لولا ڈا سلوا پر بھی لاگو ہوں گی یا صرف نچلی سطح کے وفود پر۔
روایت کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سب سے پہلے خطاب برازیل کا صدر کرتا ہے جبکہ امریکی صدر دوسرا مقرر ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل بمقابلہ قطر: کیا خطہ بڑے تنازعے کی طرف بڑھ رہا ہے؟
صدر لولا حالیہ عرصے میں ٹرمپ کے نشانے پر ہیں، کیونکہ برازیلی حکومت سابق صدر جائر بولسونارو پر، جو ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں، بغاوت کی کوشش کے مقدمات چلا رہی ہے۔
صدر لولا کو گزشتہ سال اسرائیل نے اس وقت ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا جب انہوں نے غزہ کی جنگ کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل اور برازیل نے اپنے تعلقات کو تنزلی کی طرف لے جانے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: قطر پر حملہ: برطانوی وزیراعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ’جھڑپ‘ میں بدل گئی
یادداشت میں یہ واضح نہیں کہ سوڈان اور زمبابوے کے وفود پر کس نوعیت کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ البتہ ایک ملک جس کے لیے رعایت دی گئی ہے وہ شام ہے۔
شام کے وفد پر ایک دہائی سے سفری پابندیاں عائد تھیں لیکن گزشتہ ہفتے ان میں نرمی کردی گئی ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ بشار الاسد کی برطرفی کے بعد شام کے نئے دور میں تعلقات بہتر بنانے اور اسے خطے میں دوبارہ شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا ایران برازیل پابندیاں زمبابوے سفری سوڈان سیمز کلب شام فلسطینی اتھارٹی فلسطینی ریاست کوسٹکو محکمہ خارجہ محمود عباس نیویارک ہول سیل اسٹورز وائٹ ہاؤس ویزا